ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو سفیان نے خبر دی، انہیں سلیمان شیبانی نے، انہیں محمد بن ابی مجالد نے، کہا کہ مجھے ابوبردہ اور عبداللہ بن شداد نے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ اور عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بھیجا۔ میں نے ان دونوں حضرات سے بیع سلم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں غنیمت کا مال پاتے، پھر شام کے انباط (ایک کاشتکار قوم) ہمارے یہاں آتے تو ہم ان سے گیہوں، جَو اور منقی کی بیع سلم ایک مدت مقرر کر کے کر لیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں نے پوچھا کہ ان کے پاس اس وقت یہ چیزیں موجود بھی ہوتی تھیں یا نہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ہم اس کے متعلق ان سے کچھ پوچھتے ہی نہیں تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب السَّلَمِ/حدیث: 2255]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2255
حدیث حاشیہ: (1) سلف اور سلم دونوں الفاظ کے ایک ہی معنی ہیں، یعنی کسی چیز کے متعلق پیشگی سودا کرلیا، قیمت پہلے ادا کردی، پھر معین مدت کے بعد معلوم وزن یا ناپ یا تعداد کے اعتبار سے وہ چیز لے لی۔ (2) جن لوگوں سے غلہ وغیرہ خریدا جاتا ان سے یہ نہیں پوچھا جاتا تھا کہ وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں یا نہیں۔ اس سے کوئی غرض نہیں۔ وہ جہاں سے چاہیں مال مہیا کرکے وقت مقررہ پر حوالے کردیں، ہاں اگر متعین طریقے پر یوں معاملہ کیا جائے کہ فلاں کھیت کی گندم اتنے من مطلوب ہے جو وہاں موجود نہیں تو ایسا معاملہ شرعاً درست نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2255
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4618
´اناج میں بیع سلم کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن ابی مجالد کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی اوفی سے بیع سلم کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں گی ہوں، جَو اور کھجور میں ایسے لوگوں سے بیع سلم کرتے تھے کہ مجھے نہیں معلوم، آیا ان کے یہاں یہ چیزیں ہوتی بھی تھیں یا نہیں۔ اور ابن ابزیٰ نے (سوال کرنے پر) اسی طرح کہا۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4618]
اردو حاشہ: (1) بیع سلم جائز ہے۔ رسول ﷺ، سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر فاروقؓ کے زریں دور میں بیع سلم ہو کرتی تھی۔ دیگر صحابہ کرام ؓ بھی یہ بیع کیا کرتے تھے۔ (2) بیع کرتے وقت جو چیز موجود ہی نہ ہو اس میں بیع سلم ہو سکتی ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ ادائیگی کے وقت وہ چیز بہر صورت مو جو د ہو۔ (3) ذمی اوردیگر غیر مسلم لوگوں کے ساتھ جس طرح عام تجارت اور خرید و فروخت کرنا جائز ہے، اسی طر ح ان کے ساتھ بیع سلم کرنا بھی درست ہے۔ 4) بیع سلم یا سلف ایک ہی چیز ہے کہ خریدار بائع کو رقم پہلے دے دے اور اس سے غلہ (جوکچھ خریدنا مقصود ہو) کی مقدار، جنس و نوع اور بھاؤ طے کرلے اورغلے کی ادائیگی کا وقت متعین کر لے، خواہ ابھی تک وہ غلہ منڈی میں نہ آیا ہو یا بیچا بھی نہ گیا ہو۔ سال دوسال پہلے بھی رقم دی جاسکتی ہے۔ اس قسم کی بیع لوگو ں کی مجبوری ہے کیونکہ زمیندار کاشتکاروں کو فصل کے اخراجات کے لیے رقم کی پیشگی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا اس بیع کو جائز رکھا گیا۔ جو شخص جس سے سودا ہوا ہے، کاشتکار بھی ہو سکتا ہے غیرکاشتکار بھی کیو نکہ وہ خرید کر بھی مہیا کر سکتا ہے۔ اس مسئلے کی کچھ تفصیل حدیث نمبر 4615، فائدہ نمبر 5 اور حدیث نمبر4617 میں بیان ہوچکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4618
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2282
´متعین ناپ تول میں ایک مقررہ مدت کے وعدے پر بیع سلف کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن ابی مجالد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن شداد اور ابوبرزہ رضی اللہ عنہما کے درمیان بیع سلم کے سلسلہ میں جھگڑا ہو گیا، انہوں نے مجھے عبداللہ ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، میں نے جا کر ان سے اس کے سلسلے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں گیہوں، جو، کشمش اور کھجور میں ایسے لوگوں سے بیع سلم کرتے تھے جن کے پاس اس وقت مال نہ ہوتا، پھر میں نے ابن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، تو انہوں نے بھی ایسے ہی کہا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2282]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) بیع سلم اور بیع سلف ایک ہی چیز ہے کے دو نام ہیں۔
(2) بیع سلم جائز ہے۔
(3) کسی مسئلے میں اختلاف ہو جائے تو اپنے سے بڑے عالم سے مسئلہ پوچھ لینا چاہیے۔
(4) جب صحیح مسئلہ معلوم ہو جائے تو اختلاف ختم کر دینا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2282