ہم سے عثمان ابن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابووائل سے، وہ حذیفہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ(ایک مرتبہ) میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جا رہے تھے کہ ایک قوم کی کوڑی پر (جو) ایک دیوار کے پیچھے (تھی) پہنچے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہو گئے جس طرح ہم تم میں سے کوئی (شخص) کھڑا ہوتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کیا اور میں ایک طرف ہٹ گیا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اشارہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (پردہ کی غرض سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایڑیوں کے قریب کھڑا ہو گیا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب سے فارغ ہو گئے۔ (بوقت ضرورت ایسا بھی کیا جا سکتا ہے۔)[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/حدیث: 225]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:225
حدیث حاشیہ: 1۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے باہر جاتے تو بہت دور تشریف لے جاتے اورآپ کوکوئی دیکھ نہ سکتاتھا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 2۔ 1) براز(پاخانے) کے لیے چونکہ دوطرفہ پردے کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے آپ دور تشریف لے جایا کرتے تھے۔ پیشاب میں ایک طرف آڑ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا براز کی طرح دور جانے کے اہتمام کی ضرورت نہیں۔ وہ لوگوں کی موجودگی میں بلکہ کسی کو پردے کی غرض سے پاس کھڑا کر کے بھی یہ حاجت پوری کی جاسکتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی مقصد کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اورحدیث حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوبارہ پیش کیا ہے۔ عرب کے ہاں بول وبراز کے وقت بے حجابی عام تھی، اس کا تعلق اسلامی تہذیب سے نہ تھا، رسول اللہ ﷺ نے اسلامی تہذیب کو بایں الفاظ واضح کردیا ہے: ” دو شخص اس طرح قضائے حاجت کے لیے نہ نکلیں کہ اس وقت ایک دوسرے کے سامنے اپنا ستر کھولیں اور آپس میں باتیں کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے سے نارض ہوتا ہے۔ “(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 15) 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے قریب بلانا اشارے سے تھا، زبان سے بول کر نہیں بلایا تھا۔ اور روایت بخاری کے پیش نظر صحیح مسلم کے الفاظ کو اشارہ غیر لفظیہ پر محمول کریں گے، لہٰذا اس حدیث سے حالت بول میں جواز کلام پر استدلال درست نہیں ہے۔ (فتح الباري: 429/1) رسول اللہ ﷺ ایسے وقت میں سلام کا جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آپ پیشاب کررہے تھے کہ ایک آدمی نے آپ کو سلام کہا تو آپ نے اس کا جواب نہ دیا۔ (سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 16)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 225
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 226
´کسی قوم کی کوڑی پر پیشاب کرنا` «. . . عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ يُشَدِّدُ فِي الْبَوْلِ، وَيَقُولُ: إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَ إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ أَحَدِهِمْ قَرَضَهُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: لَيْتَهُ أَمْسَكَ، " أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا " . . . .» ”. . . وہ ابووائل سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ` ابوموسیٰ اشعری پیشاب (کے بارہ) میں سختی سے کام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی اسرائیل میں جب کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا۔ تو اسے کاٹ ڈالتے۔ ابوحذیفہ کہتے ہیں کہ کاش! وہ اپنے اس تشدد سے رک جاتے (کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کی کوڑی پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْبَوْلِ عِنْدَ سُبَاطَةِ قَوْمٍ:: 226]
تشریح: حضرت کی غرض یہ تھی کہ پیشاب سے بچنے میں احتیاط کرنا ہی چاہئیے۔ لیکن خواہ مخواہ کا تشدد اور زیادتی سے وہم اور وسوسہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے عمل میں اتنی ہی احتیاط چاہئیے جتنی آدمی روزمرہ کی زندگی میں کر سکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 226
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2471
2471. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا یا (یہ) کہا کہ نبی ﷺ ایک قوم کے کوڑا پھینکنےکی جگہ پر تشریف لائے اور وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2471]
حدیث حاشیہ: مقصد یہ ہے کہ کوڑی جہاں کوڑا کرکٹ ڈالا جاتا ہے ایک عوامی جگہ ہے جہاں پیشاب وغیرہ کیا جاسکتا ہے۔ ایسی چیزوں پر جھگڑا بازی درست نہیں بشرطیکہ وہ عوامی ہوں، کھڑے ہو کر پیشاب کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ چھینٹوں سے کامل طور پر بچا جا سکے۔ اگر ایسا خطرہ ہو تو کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ آج کل پتلون باز لوگ کرتے رہتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2471
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 26
´صحرا (میدان) میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی رخصت۔` حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے کوڑا خانہ پر آئے تو کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 26]
26۔ اردو حاشیہ: ① مذکورہ روایت اور اس کی تفہیہم پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے، سنن نسائي حدیث: 18 یہاں دوبارہ پیش کی جا رہی ہے۔ ´قضائے حاجت کے لیے دور نہ جانے کی رخصت کا بیان۔` حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ لوگوں کے ایک کوڑے خانہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ۱؎، میں آپ سے دور ہٹ گیا، تو آپ نے مجھے بلایا ۲؎، (تو جا کر) میں آپ کی دونوں ایڑیوں کے پاس (کھڑا) ہو گیا یہاں تک کہ آپ (پیشاب سے) فارغ ہو گئے، پھر آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 18]
18۔ اردو حاشیہ: ➊ سنن نسائي حدیث ۱۸ کی یہ روایت مختصر ہے جس سے بعض غلط فہمیوں کا امکان ہے، اس لیے ترجمے میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑے کے ڈھیر پر پیشاب کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حسب معمول آپ سے دور ہونے لگے، لیکن چونکہ آپ کو صرف پیشاب کی حاجت تھی جس میں آواز یا بدبو کا امکان نہ تھا (خصوصاً قیام کی حالت میں) اس لیے آپ نے انہیں کہا: ”اے حذیفہ! مجھے اوٹ کرو۔“ وہ آپ سے قریب پچھلی طرف دوسری جانب منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔ (ایڑیوں کے قریب سے مراد مطلق قرب ہے نہ کہ حقیقتاً ایڑیوں سے ایڑیاں ملا کر۔) اس طرح آپ کی طرف نظر کا امکان نہ رہا اور پورا پردہ ہو گیا۔ ➋ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت بیٹھ کر پیشاب کرنے ہی کی تھی مگر مذکورہ واقعہ میں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ اس کی مختلف عقلی و نقلی توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً: ڈھیر کی گندگی سے بچنے کے لیے کیونکہ ڈھیر پر بیٹھنے کی صورت میں کپڑوں یا جسم کو گندگی لگ سکتی تھی یا اس لیے کہ پیشاب کی دھار دور گرے۔ بیٹھنے کی صورت میں پیشاب قریب گرتا اور واپس پاؤں کی طرف آتا، نیز چھینٹے بھی پڑتے یا گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مشکل تھا جیسا کہ بیہقی کی ایک ضعیف روایت میں ہے۔ [السنن الکبریٰ، للبیھقی: 101/1] یا کمر درد کے علاج کے لیے جیسا کہ اطباء کا خیال تھا۔ بہرحال مذکورہ توجیہات کی روشنی میں عمومی رائے یہی ہے کہ آپ کے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ان میں سے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی، لیکن تحقیق یہ ہے کہ ان مذکورہ وجوہ میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی ایک وجہ بھی بسند صحیح ثابت نہیں، اس لیے اس کے مقابلے میں ایک دوسری رائے بھی ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے اختیار کیا اور وہ یہ ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب صرف بیان جواز کے لیے کیا ہے جبکہ آپ کی عام عادت بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، اطھارۃ، حدیث: 274، مع شرح النووي] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں، «وإلا ظھر أنه فعل ذلک لبیان الجواز……»”زیادہ واضح بات یہ ہے کہ آپ کا یہ عمل صرف بیان جواز کے لیے تھا……“[فتح الباري: 430/1، طبع دارالسلام] نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں منقول توجیہات کو گویا قابل حجت نہیں سمجھا، بہرحال اگر کوئی شخص ضرورت کے پیش نظر یا کبھی کبھار بلا ضرورت ہی جواز کو پیش نظر رکھتے ہوئے کھڑے ہو کر سنت پر عمل کی خاطر پیشاب کر لیتا ہے تو ان شاء اللہ جائز ہو گا۔ واللہ أعلم۔ ➌ باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر آواز یا بدبو کا خدشہ نہ ہو تو پیشاب کے لیے صرف پردہ کافی ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
② سنن نسائي میں اس باب کی پہلی حدیث سلیمان اعمش، ابووائل سے اور وہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں اور دوسری حدیث میں ابووائل کے شاگرد منصور ہیں، اس میں منصور نے ابووائل سے سماع کی صراحت فرمائی ہے اور تیسری حدیث میں سلیمان اور منصور دونوں ابووائل سے بیان کرتے ہیں لیکن منصور نے صرف آپ کے پیشاب کرنے کا ذکر کیا ہے جبکہ سلیمان نے اس کے بعد موزوں پر مسح کرنے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 26
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث305
´کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے حکم کا بیان۔` حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے کوڑا خانہ پر آئے، اور اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 305]
اردو حاشہ: (1) پیشاب کرنے کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیٹھ کر اس حاجت سے فراغت حاصل کی جائے۔ نبی کریمﷺ کی اکثر عادت مبارکہ بیٹھ کر پیشاب کرنے کی تھی۔
(2) اس مقام پر نبی ﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔ ممکن ہے اس کا سبب امت کو یہ بتانا ہو کہ یہ بھی جائز ہے تاکہ اگر کسی کو کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو وہ حرج محسوس نہ کرے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے کوئی ایسی ضرورت محسوس کی ہو، مثلاً: بیٹھ کر پیشاب کرنے کی صورت میں جسم یا کپڑوں پر چھینٹے پڑنے کا اندیشہ محسوس ہوا ہو۔ یا کسی عذر کی وجہ سے بیٹھنے میں مشقت محسوس ہوئی ہو۔ واللہ أعلم، تاہم یہ احتیاط ضروری ہے کہ پیشاب کے چھینٹے کپڑے یا جسم پر نہ پڑیں۔
(3) کچھ لوگوں کی کوڑا پھینکنے کی جگہ کا مطلب یہ ہے کہ اس محلے کے لوگ اپنا کوڑا کرکٹ وہاں پھینکا کرتے تھے۔
(4) نبیﷺ نے پیشاب کے لیے وہ جگہ اس لیے پسند فرمائی کہ وہاں دیوار کی اوٹ موجود تھی اس لیے پردے کا اہتمام بہتر طور پر ممکن تھا۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الطھارۃ، باب المسح علی الخفین حدیث: 273)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 305
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 625
ابو وائل بیان کرتے ہیں: حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بول کے سلسلہ میں تشدد کرتے تھے اور بوتل میں بول کرتے تھے، اور بیان کرتے: ”کہ بنو اسرائیل کے کسی آدمی کے جسم پر پیشاب لگ جاتا، تو وہ کھال کے اتنے حصے کو قینچی سے کاٹ ڈالتا“ تو حذیفہ ؓ نے کہا: ”میں چاہتا ہوں تمہارا استاد اس قدر سختی اختیار نہ کرے، میں نے آپ ﷺ کو دیکھا، میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جارہا تھا، آپ ﷺ ایک دیوار کے پیچھے کوڑے کے ڈھیر پر پہنچے، اور تمہاری طرح جاکر کھڑے ہوگئے اور پیشاب کرنا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:625]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: کسی مسئلہ میں تشدد یا انتہاء پسندی مناسب نہیں ہے، اسلام میں انسانی ضرورتوں اور مجبوریوں کا لحاظ رکھا گیا ہے، اس لیے بعض مقامات پر عام عادت کے خلاف، کسی عذر کو ملحوظ رکھ کر سہولت اور رخصت کی گنجائش رکھی گئی ہے، اور افراط وتفریط سے بچتے ہوئے میانہ روی کو اختیار کیا گیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 625
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:226
226. حضرت ابووائل سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ پیشاب کے معاملے میں بہت تشدد سے کام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی اسرائیل میں اگر کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو وہ متاثرہ کپڑے کو کاٹ دیتا تھا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: کاش وہ ایسا (تشدد) نہ کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کسی قوم کے گھورے پر تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:226]
حدیث حاشیہ: 1۔ شارحین نے اس باب سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی متعدد اغراض ذکر کی ہیں: (1) ۔ شاہ ولی اللہ تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر (گھورے) اگرچہ کسی دوسرے کی ملکیت ہوتے ہیں، لیکن ان پر بول و براز کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں، کیونکہ انھیں گندگی جمع کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اس لیے پیشاب کرنا اس قسم کا تصرف نہیں جس سے مالک ناراض ہو۔ (2) ۔ اس عنوان سے گندگی کے مقامات پر پیشاب کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ ایسی جگہوں پر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا چاہیے بیٹھ کر پیشاب کرنے سے کپڑوں اور بدن کی آلودگی کا اندیشہ ہے۔ 2۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقویٰ طہارت کی بنا پر پیشاب کے معاملے میں بہت متشدد تھے۔ وہ اپنے ساتھ شیشے کی بوتل رکھتے، اس میں پیشاب کر کے اسے زمین پر بہا دیتے۔ ابن منذر نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی شخص کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا تو فرمایا: تمھیں کھڑے ہو کر نہیں بلکہ بیٹھ کر پیشاب کرنا چاہیے تھا۔ بنی اسرائیل کا عمل یہ تھا کہ اگر کسی شخص کے کپڑے کو نجاست لگ جاتی تو وہ اسے کاٹ ڈالتا تھا، لہٰذا ہمیں بھی پیشاب کے سلسلے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے وضاحت فرمائی کہ پیشاب کے معاملے میں اتنے تشدد کی ضرورت نہیں، کیونکہ دین اسلام کی بنیاد یُسر وسہولت پر ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے (گھورے پر) کھڑے ہو کر پیشاب کیا اور اس طرح پیشاب کرنے میں باریک باریک چھینٹوں کا اندیشہ باقی رہتا ہے، لیکن آپ نے اس قسم کے دور از کار احتمالات کی بالکل پروا نہیں کی۔ 3۔ علامہ ابن بطال نے لکھا ہے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی روایت ان لوگوں کی دلیل ہے جو پیشاب کے معمولی چھینٹوں کو قابل معافی سمجھتے ہیں، کیونکہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے سوئی کی نوک کے برابر چھینٹوں کے اڑنے اور ان کے کپڑوں پر آنے کا احتمال تو عام طور پر باقی رہتا ہے، پھر سوئی کی نوک کے برابر پیشاب کے چھینٹوں کے متعلق اختلاف ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے انھیں دھونا مستحب قراردیا ہے جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اسے واجب کہتے ہیں اور اہل کوفہ نے دوسری نجاستوں کی طرح اس میں بھی سہولت اور رخصت دی ہے۔ (شرح ابن بطال: 337/1) 4۔ اصلاحی صاحب نے تدبر حدیث کی آڑ میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدف تنقید بنایا ہے لکھتے ہیں: ”بنی اسرائیل سے متعلق ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات سنی سنائی معلوم ہوتی ہے اس زمانے میں عرب کے لوگوں کو سابقہ ادیان کے بارے میں جو معلومات حاصل تھیں وہ مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں رہنے والے اہل کتاب سے سنی ہوئی تھیں۔ وہ صحیفوں سے براہ راست ناقدانہ واقفیت نہ رکھتے تھے۔ “(تدبر حدیث: 318/1) حالانکہ یہود کے ہاں نجاسات کے معاملے میں بڑا تشدد تھا۔ قرآن کریم نے بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾” اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔ “(الأعراف: 157/7) اس بوجھ اور طوق کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ان یہودیوں کے ہاں جس کپڑے کو نجاست لگ جاتی اس کا قطع کرنا ضروری تھا جسے شریعت اسلامیہ نے صرف دھونے کا حکم دیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 226
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2471
2471. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا یا (یہ) کہا کہ نبی ﷺ ایک قوم کے کوڑا پھینکنےکی جگہ پر تشریف لائے اور وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2471]
حدیث حاشیہ: (1) جہاں کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے اسے عوامی حیثیت حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ کسی کی ذاتی ملکیت ہو۔ جہاں گندگی اور دوسری فضول اشیاء پھینکی جاتی ہیں وہاں پیشاب کرنے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں اور نہ ایسا کرنا اجازت کے بغیر تصرف ہی ہے۔ ایسے مقامات کو استعمال کرنے کے لیے عرفی اجازت ہی کافی ہے کیونکہ ایسی جگہیں پیشاب اور کوڑے کرکٹ کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں، نیز ایسی چیزوں کے متعلق لڑنا جھگڑنا درست نہیں۔ (2) کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی مختلف توجیہات پہلے بیان ہو چکی ہیں، ممکن ہے کہ کوڑے اور نجاست میں بیٹھنے کی جگہ نہ ہو، اس طرح کی ضرورت کے پیش نظر کھڑے ہو کر پیشاب کیا جا سکتا ہے لیکن اسے عادت بنا لینا صحیح نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2471
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ : 52
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلتے ہوئے د یکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے گھورے (کوڑے کرکٹ کے ڈھیر) پر پہنچے تو کھڑے ہوکر پیشاب کرنے لگے... [صحيح ابن خزيمه: 52]
فوائد:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تو آبادی سے دور جا کر قضائے حاجت کرنا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آبادی کے قریب پر پیشاب کرنے کی علت کیا ہے؟ اس بارے میں قاضی عیاض رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں اس کا سبب یہ تھا کہ آپ مسلمانوں کے امور اور ان کے مصالح کی دیکھ بھال میں مشغول تھے، تو ہوسکتا ہے آپ کی مجلس طویل ہو گئی ہو اور پیشاب زیادہ آنے کی وجہ سے دور جانا مشکل ہو گیا ہو، اور اگر آپ دور جاتے تو تکلیف اٹھانا پڑتی، لٰہذا آپ نے ڈھیر کے نرم ہونے کی وجہ سے پیشاب کے لیے اس کا انتخاب کیا اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کو اپنے قریب اس لیے کھڑا کیا تا کہ آپ لوگوں کی نظروں سے چھپ سکیں، یہ تاویل بظاہر اچھی ہے۔ [نووي: 165/3]
➋ موزوں پر مسح کرنا اور حضر و قیام کی حالت میں مسح جائز ہے۔
➌ بوقت حاجت کھڑے ہو کر پیشاب کرنا بھی جائز ہے۔
➍ پیشاب کرنے والے کے قریب ہونا درست ہے۔
➎ پیشاب کرنے والا کا ساتھی سے قریب ہونے کی گزارش کرنا تا کہ وہ لوگوں سے چھپ سکے، جائز ہے۔
➏ پیشاب کے وقت ستر ڈھانپنا مستحب عمل ہے۔
➐ آبادی کے قریب پیشاب کرنا جائز ہے۔ [نووي: 166/3]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 52