ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابی مجالد نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن شداد اور ابوبردہ نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کے یہاں بھیجا اور ہدایت کی کہ ان سے پوچھو کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے زمانے میں گیہوں کی بیع سلم کرتے تھے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہم شام کے انباط (ایک کاشتکار قوم) کے ساتھ گیہوں، جوار، زیتون کی مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے سودا کیا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کیا صرف اسی شخص سے آپ لوگ یہ بیع کیا کرتے تھے جس کے پاس اصل مال موجود ہوتا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ ہم اس کے متعلق پوچھتے ہی نہیں تھے۔ اس کے بعد ان دونوں حضرات نے مجھے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ کے خدمت میں بھیجا۔ میں نے ان سے بھی پوچھا۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے عہد مبارک میں بیع سلم کیا کرتے تھے اور ہم یہ بھی نہیں پوچھتے تھے کہ ان کے کھیتی بھی ہے یا نہیں۔ ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، ان سے محمد بن ابی مجالد نے یہی حدیث۔ اس روایت میں یہ بیان کیا کہ ہم ان سے گیہوں اور جَو میں بیع سلم کیا کرتے تھے۔ اور عبداللہ بن ولید نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے شیبانی نے بیان کیا، اس میں انہوں نے زیتون کا بھی نام لیا ہے۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، اور اس میں بیان کیا کہ گیہوں، جَو اور منقی میں (بیع سلم کیا کرتے تھے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب السَّلَمِ/حدیث: 2245]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2245
حدیث حاشیہ: یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔ یعنی اس بات کو ہم دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے پاس مال ہے یانہیں۔ معلوم ہوا کہ سلم ہر شخص سے کرنا درست ہے۔ مسلم فیہ یا اس کی اصل اس کے پاس موجود ہو یا نہ ہو اتنا ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ معاملہ کرنے والا ادا کرنے اور وقت پر بازار سے خرید کر یا اپنی کھیتی یا مزدور وغیرہ سے حاصل کرکے اس کے ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے یا نہیں۔ اگر کوئی شخص قلاش محض ہو اور وہ بیع سلم کر رہا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دھوکہ سے اپنے بھائی مسلمان کا پیسہ ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ اور آج کل عام طور پر ایسا ہوتا رہتاہے۔ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ادائیگی کی نیت خالص رکھنے والے کی اللہ بھی مدد کرتا ہے کہ وہ وقت پر ادا کردیتا ہے اور جس کی ہضم کرنے ہی کی نیت ہو تو قدرتی امداد بھی اس کو جواب دے دیتی ہے۔ لفظ انباط کی تحقیق میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں: جَمْعُ نُبَيْطٍ: وَهُمْ قَوْمٌ مَعْرُوفُونَ كَانُوا يَنْزِلُونَ بِالْبَطَائِحِ بَيْنَ الْعِرَاقَيْنِ قَالَهُ الْجَوْهَرِيُّ، وَأَصْلُهُمْ قَوْمٌ مِنْ الْعَرَبِ دَخَلُوا فِي الْعَجَمِ وَاخْتَلَطَتْ أَنْسَابُهُمْ وَفَسَدَتْ أَلْسِنَتُهُمْ، وَيُقَالُ لَهُمْ: النَّبَطُ بِفَتْحَتَيْنِ، وَالنَّبِيطُ بِفَتْحِ أَوَّلِهِ وَكَسْرِ ثَانِيهِ وَزِيَادَةِ تَحْتَانِيَّةٍ، وَإِنَّمَا سُمُّوا بِذَلِكَ لِمَعْرِفَتِهِمْ بِإِنْبَاطِ الْمَاءِ: أَيْ: اسْتِخْرَاجِهِ لِكَثْرَةِ مُعَالَجَتِهِمْ الْفِلَاحَةَ وَقِيلَ: هُمْ نَصَارَى الشَّامِ، وَهُمْ عَرَبٌ دَخَلُوا فِي الرُّومِ وَنَزَلُوا بَوَادِي الشَّامِ وَيَدُلُّ عَلَى هَذَا قَوْلُهُ: " مِنْ أَنْبَاطِ الشَّامِ " وَقِيلَ: هُمْ طَائِفَتَانِ: طَائِفَةٌ اخْتَلَطَتْ بِالْعَجَمِ وَنَزَلُوا الْبَطَائِحَ وَطَائِفَةٌ اخْتَلَطَتْ بِالرُّومِ وَنَزَلُوا الشَّامَ (نیل الأوطار) یعنی لفظ انباط نبیط کی جمع ہے۔ یہ لوگ اہل عراق کے پتھریلے میدانوں میں سکونت پذیر ہوا کرتے تھے، اصل میں یہ لوگ عربی تھے، مگر عجم میں جانے سے ان کے انساب اور ان کی زبانیں سب مخلوط ہو گئیں۔ نبط بھی ان ہی کو کہا گیا ہے اور نبیط بھی۔ یہ اس لیے کہ یہ قوم کھیتی کیاری کے فن میں بڑا تجربہ رکھتی تھی۔ اور پانی نکالنے کا ان کو خاص ملکہ تھا۔ انباط پانی نکالنے کو ہی کہتے ہیں۔ اسی نسبت ان کو قوم انباط کہا گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ شام کے نصاریٰ تھے جو نسلاً عرب تھے۔ مگر روم میں جاکر وادی شام میں مقیم ہو گئے۔ روایت میں لفظ انباط الشام اس پر دلالت کررہا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے دو گروہ تھے ایک گروہ عجمیوں کے ساتھ اختلاط کرکے عراقی میدانوں میں سکونت پذیر تھا۔ اور دوسرا گروہ رومیوں سے مخلوط ہو کر شام میں قیام پذیر ہو گیا۔ بہرحال یہ لوگ کاشتکار تھے، اور گندم کے ذخائر لے کر ملک عرب میں فروخت کے لیے آیا کرتے تھے۔ خاص طور پر مسلمانان مدینہ سے ان کا تجارتی تعلق اس درجہ بڑھ گیا تھا کہ یہاں ہر جائز نقد اور ادھار سودا کرنا ان کا معمول تھا جیسا کہ حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2245
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2245
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں اصل سے مراد” آئندہ ادا کی جانے والی چیز“ کی اصل ہے،چنانچہ گندم کی اصل کھیتی ہے اور پھلوں کی اصل درخت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ بیع سلم میں کوئی شخص یہ شرط نہ لگائے کہ جس شخص سے معاملہ کیا جارہا ہے وہ مطلوبہ چیز کے ذرائع بھی رکھتا ہو،مثلاً: یہ ضروری نہیں کہ جن لوگوں سے انڈے لینے کا معاملہ کیاجارہا ہے ان کے پاس کوئی پولٹری فارم ہویا گندم کا معاملہ صرف کھیتی یا مالکان زمین سے ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کے پاس ایک مرغی یا گندم کا ایک پودا بھی نہ ہو لیکن وہ ہزاروں درجن انڈے یا ہزاروں من گندم فراہم کرسکتا ہو۔ (2) اس میں یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس بیع میں دھوکا ممکن ہے، اس لیے کہ جب ذریعہ ہی نہیں تو کہاں سے فراہم ہوں گے،اس حدیث میں اسی اعتراض کا جواب دیا گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2245
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2243
2243. حضرت عبداللہ بن ابو مجاہد سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ عبداللہ بن شداد اور ابوہریرہ ؓ نے بیع سلم کے متعلق اختلاف کیاتو لوگوں نے مجھے حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ کے پاس بھیجا۔ میں نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ، حضرت ابو بکر ؓ اورحضرت عمر ؓ کے زمانے میں گندم، جو منقیٰ اور کھجور میں بیع سلم کرتے تھے۔ پھر میں نے ابن ابزی سے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2243]
حدیث حاشیہ: حافظ ؒ فرماتے ہیں: أجمعوا علی أنه إن کان في السلم ما یکال أو یوزن فلا بد فیه من ذکر الکیل المعلوم و الوزن المعلوم فإن کان فیما لا یکال و لا یوزن فلا بد فیه من عدد معلوم۔ یعنی اس امر پر اجماع ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ یا وزن کے قابل ہیں ان کا وزن مقرر ہونا ضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے۔ حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ مدینہ میں اس قسم کے لین دین کا عام رواج تھا۔ فی الحقیقت کاشتکاروں اور صناعوں کو پیشگی سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ سند میں حضرت وکیع بن جراح کا نام آیا۔ اور ان سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ کوفہ کے باشندے ہیں۔ بقول بعض ان کی اصل نیشاپور کے قریہ سے ہے۔ انہوں نے ہشام بن عروہ اور اوزاعی اور ثوری وغیرہ اساتذہ حدیث سے حدیث کی سماعت کی ہے۔ ان کے تلامذہ میں اکابر حضرات مثلاً عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی نظر آتے یں۔ بغداد میں رونق افروز ہو کر درس حدیث کا حلقہ قائم فرمایا۔ فن حدیث میں ان کا قول قابل اعتماد تسلیم کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ صحابی ہیں۔ حدیبہ اور خیبر میں اور اس کے بعد تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ اور ہمیشہ مدینہ میں قیام فرمایا۔ یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کا حادثہ سامنے آگیا۔ اس کے بعد آپ کوفہ تشریف لے گئے۔ 87ھ میں کوفہ میں ہی انتقال فرمایا۔ کوفہ میں انتقال کرنے والے یہ سب سے آخری صحابی رسول اللہ ﷺ ہیں۔ ان سے امام شعبی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ امام شعبی عامر بن شرحبیل کوفی مشہور ذی علم اکابر میں سے ہیں۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں پیدا ہوئے۔ بہت سے صحابہ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے پانچ سو صحابہ کرام ؓ کو دیکھا۔ حفظ حدیث کا یہ ملکہ خداداد تھا کہ کبھی کوئی حرف کاغذ پر نوٹ نہیں فرمایا۔ جو بھی حدیث سنی اس کو اپنے حافظہ میں محفوظ کر لیا۔ امام زہری کہا کرتے تھے کہ دور حاضر ہ میں حقیقی علماءتو چار ہی دیکھے گئے ہیں۔ یعنی ابن مسیب مدینہ میں، شعبی کوفہ میں، حسن بصرہ میں اور محکول شام میں۔ بعمر82 سال104ھ میں انتقال فرمایا۔ رحمه اللہ رحمة واسعة۔ آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2243
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2243
2243. حضرت عبداللہ بن ابو مجاہد سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ عبداللہ بن شداد اور ابوہریرہ ؓ نے بیع سلم کے متعلق اختلاف کیاتو لوگوں نے مجھے حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ کے پاس بھیجا۔ میں نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ہم رسول اللہ ﷺ، حضرت ابو بکر ؓ اورحضرت عمر ؓ کے زمانے میں گندم، جو منقیٰ اور کھجور میں بیع سلم کرتے تھے۔ پھر میں نے ابن ابزی سے اس کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2243]
حدیث حاشیہ: (1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس امر پر اجماع امت ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ اور وزن کے قابل ہیں ان کا ماپ اور وزن مقرر ہونا ضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے، نیز اوصاف کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے تاکہ دوسری چیزوں سے ممتاز ہوسکے اور آئندہ کسی قسم کا جھگڑا پیدا نہ ہو۔ (فتح الباري: 543/4) (2) دراصل کاریگروں اور کاشت کاروں کو پیشگی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، اگر ایسا کام جائز نہ ہوتو وہ کاروبار نہیں کرسکیں گے۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کا لین دین مدینہ طیبہ میں بہت عام تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصلاح فرما کر اسے جاری رکھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2243