ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک مسٹنڈا لمبے قد والا مشرک بکریاں ہانکتا ہوا آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ یہ بیچنے کے لیے ہیں یا عطیہ ہیں؟ یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ (یہ بیچنے کے لیے ہیں) یا ہبہ کرنے کے لیے؟ اس نے کہا کہ نہیں بلکہ بیچنے کے لیے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خرید لی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2216]
هل مع أحد منكم طعام فإذا مع رجل صاع من طعام أو نحوه فعجن ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنم يسوقها فقال النبي بيعا أم عطية أو قال أم هبة قال لا بل بيع فاشتر
هل مع أحد منكم طعام فإذا مع رجل صاع فجئ به فعجن ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنيمة يسوقها فقال النبي أبيع أم عطية أم هبة قال لا بل بيع فاشترى منه شاة فصنعت وأمر رسول الله بسواد البطن يشوى وايم الله ما من الثلاثين ومائة إلا قد حز له حزة من سواد بطنها إن كان
هل مع أحد منكم طعام فإذا مع رجل صاع من طعام أو نحوه فعجن ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنم يسوقها فقال النبي أبيع أم عطية أو قال أم هبة فقال لا بل بيع فاشترى منه شاة فصنعت وأمر رسول الله بسواد البطن أن يشوى قال وايم الله ما من الثلاثين ومائة إلا حز له رسول
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2216
حدیث حاشیہ: حافظ ؒ فرماتے ہیں: معاملة الکفار جائزة إلا بیع ما یستعین به أهل الحرب علی المسلمین و اختلف العلماء في مبایعة من غالب ماله الحرام و حجة من رخص فیه قوله صلی اللہ علیه وسلم للمشرك ”أبیعا أم ہبة“ و فیه جواز بیع الکافر و إثبات ملکه علی ما في یدہ و جواز قبول الهدیة منه۔ (فتح) یعنی کفار سے معاملہ داری کرنا جائز ہے مگر ایسا معاملہ درست نہیں جس سے وہ اہل اسلام کے ساتھ جنگ کرنے میں مدد پاسکیں۔ اور اس حدیث کی رو سے کافر کی بیع کو نافذ ماننا بھی ثابت ہوا۔ اور یہ بھی کہ اپنے مال کا وہ اسلامی قانون میں مالک ہی مانا جائے گا اور اس حدیث سے کافر کا ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ثابت ہوا۔ یہ جملہ قانونی امور ہیں جن کے لیے اسلام میں ہر ممکن گنجائش رکھی گئی ہے۔ مسلمان جب کہ ساری دنیا میں آباد ہیں، ان کے بہت سے لین دین کے معاملات غیر مسلموں کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ان سب کو قانونی صورتوں میں بتلایا گیا اور اس سلسلہ میں بہت فراخدلی سے کام لیا گیا ہے جو اسلام کے دین فطرت اور عالمگیر مذہب ہونے کی واضح دلیل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2216
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2216
حدیث حاشیہ: (1) اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ مشرکین اور اہل حرب کے ساتھ معاملہ اس عالم رنگ وبو کے باشندوں کی حیثیت سے ان کے حقوق تسلیم کرتے ہوئے کیا جائے گا۔ ہاں، اگر ان سے جنگ کی نوبت آجائے تو ان کے لیے اسلام کا ایک جداگانہ ضابطہ ہے۔ اہل ذمہ اور اہل صلح کے لیے الگ الگ قاعدے ہیں۔ ان کا مال ہمارے اہل اسلام کے مال کی طرح اور ان کا خون ہمارے خون کی طرح محترم ہے۔ مشرک یا کافر کی اہل شرک یا اہل کفر ہونے کی حیثیت سے ان کی گردن مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ بہر حال مشرکین وکفار کے بھی حقوق ہیں۔ وہ بھی حق ملکیت رکھتے ہیں،ان سے خریدوفروخت کی جاسکتی ہے لیکن انتہا پسندوں کے خیال کے مطابق مشرک اور کافر جس حالت میں بھی ہو اس کا خون حلال اور مال و آبرو جائز ہے۔ بہر حال اسلام نے کفار ومشرکین کا انسان ہونے کے ناتے سے خیال رکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مشرک سے بکری خریدی جبکہ ہمارے دور کے انتہا پسندوں کے ہاں ایسے حالات میں شاید بکریوں کے ریوڑ کو ذبح کردینا جائز ہو۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: کفار سے معاملہ داری کرنا جائز ہے مگر ایسا معاملہ درست نہیں جس سے وہ اہل اسلام کے خلاف جنگ کرنے میں مدد حاصل کرسکیں، نیز کافر کی خریدوفروخت صحیح ہے اور وہ اسلامی قانون کے اعتبار سے اپنے اموال کا مالک تسلیم کیا جائے گا۔ اس حدیث کی رو سے کافر سے ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ثابت ہوا۔ (فتح الباري: 815/4) واضح رہے کہ مذکورہ روایت انتہائی مختصر ہے، تفصیلی روایت آئندہ بیان ہوگی۔ (صحیح البخاري، الھبة، حدیث: 2618)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2216
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5364
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم ایک سو تیس افراد تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم میں سے کسی شخص کے پاس کھانا ہے؟“ تو ایک آدمی کے پاس ایک صاع یا اس کے قریب آٹا نکلا، اسے گوندھا گیا، پھر ایک مشرک آدمی پراگندہ بال یا لمبا تڑنگا، بکریاں ہانکتے ہوئے، آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیچتے ہو یا عطیہ ہے یا فرمایا ہبہ ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، بلکہ بیچوں گا، آپ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5364]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) مشحان: پراگندہ اور بکھرے ہوئے بالوں والا، دراز قد جیسا کہ راوی نے تفسیر کی ہے۔ (2) حزة: ٹکڑا، حصہ۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرک کے ساتھ خرید و فروخت کرنا جائز ہے اور اس سے تحفہ بھی قبول کیا جا سکتا ہے، اور اس سے آپ کے معجزہ کا اظہار ہو رہا ہے کہ آپ نے ایک بکری کی کلیجی کو ایک سو تیس آدمیوں میں تقسیم فرمایا اور وہ سب ایک بکری کے گوشت سے سیر ہو گئے اور کھانا بچ بھی گیا، جبکہ آٹا صرف ایک صاع (ڈھائی کلو یا بقول احناف چار کلو) تھا، جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کھانا اکٹھے کھانا باعث برکت ہے، کیونکہ اتفاق و اتحاد میں برکت ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5364
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5382
5382. سیدنا عبدالرحمن بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا کہ ہم ایک سو تیس آدمی نبی ﷺ کے ہمراہ تھے نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: ”تم میں سے کسی کے پاس، کھانا ہے؟“ اچانک ایک آدمی کے پاس ایک صاع یا اس کے لگ بھگ آٹا تھا جسے گوندھ لیا گیا۔ اس دوران میں ایک دراز قد مشرک جس کے بال پراگندہ تھے اپنی بکریاں ہانکتا ہوا ادھر آنکلا۔ نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا تو فروخت کرتا یا عطیہ دیتا ہے؟“ اس نے کہا: عطیہ نہیں بلکہ فروخت کرتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی۔ اسے ذبح کیا گیا تو آپ نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم دیا۔ اللہ کی قسم! ایک سو تیس لوگوں کی جماعت میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جسے آپ ﷺ نے اس کلیجی کا ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر نہ دیا ہو۔ جو وہاں موجود تھا اسے تو وہیں دے دیا گیا اور اگر وہ موجود نہ تھا تو اس کا حصہ محفوظ کر لیا گیا۔ پھر اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5382]
حدیث حاشیہ: یہ راوی کو شک ہے، یہ حدیث بیع اور ہبہ کے بیان میں گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5382
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2618
2618. حضرت عبدالرحمان بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سو تیس اشخاص نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” کیا تم میں سے کسی کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟“ پتہ چلا ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک صاع کے بقدرآٹا ہے۔ وہ گوندھا گیا۔ اتنے میں ایک لمبا تڑنگا مشرک بکریوں کا ریوڑ ہانکتا ہوا وہاں پہنچا تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: ”ہدیہ کے لیے لائے ہو یا فروخت کرنے کاارادہ ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، بلکہ فروخت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے بکری خریدی، اسے ذبح کرکے اس کاگوشت بنایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ اس کی کلیجی وغیرہ اکھٹی کرکے اس کو بھونا جائے۔ (راوی نے کہا:) اللہ کی قسم! ایک سو تیس میں سے کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا جس کو آپ نے کلیجی کا ٹکڑا کاٹ کر نہ دیاہو۔ اگر وہ موجود تھا تو اس کو دیا ورنہ اس کا حصہ رکھ چھوڑا۔ پھر آپ نے گوشت کے دو تھال تیار کیے۔ سب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2618]
حدیث حاشیہ: اس سے بھی کسی کافر مشرک کا ہدیہ قبول کرنا یا اس سے کوئی چیز خریدناجائز ثابت ہوا اور آنحضرت ﷺ کا ایک عظیم معجزہ بھی ثابت ہوا کہ آپ کی دعاءسے وہ قلیل گوشت سب کے لیے کافی ہوگیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2618
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2618
2618. حضرت عبدالرحمان بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سو تیس اشخاص نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ” کیا تم میں سے کسی کے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟“ پتہ چلا ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک صاع کے بقدرآٹا ہے۔ وہ گوندھا گیا۔ اتنے میں ایک لمبا تڑنگا مشرک بکریوں کا ریوڑ ہانکتا ہوا وہاں پہنچا تو نبی کریم ﷺ نے پوچھا: ”ہدیہ کے لیے لائے ہو یا فروخت کرنے کاارادہ ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، بلکہ فروخت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے بکری خریدی، اسے ذبح کرکے اس کاگوشت بنایا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے حکم دیا کہ اس کی کلیجی وغیرہ اکھٹی کرکے اس کو بھونا جائے۔ (راوی نے کہا:) اللہ کی قسم! ایک سو تیس میں سے کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا جس کو آپ نے کلیجی کا ٹکڑا کاٹ کر نہ دیاہو۔ اگر وہ موجود تھا تو اس کو دیا ورنہ اس کا حصہ رکھ چھوڑا۔ پھر آپ نے گوشت کے دو تھال تیار کیے۔ سب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2618]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مشرک سے پوچھا: ”تم یہ بکریاں بطور ہدیہ لائے ہو یا انہیں فروخت کرنے کا ارادہ ہے؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔ اگر ناجائز ہوتا تو آپ اس کے متعلق دریافت کیوں کرتے؟ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے دل میں رحم آ جاتا ہے اور اس میں طمع اور لالچ کے جذبات نہیں ہوتے، مسلمانوں کا قافلہ دیکھ کر ممکن ہے کہ مشرک کو خیال آئے، اس موقع پر کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہیے، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ ہدیہ لائے ہو یا فروخت کرنے کا ارادہ ہے۔ (2) اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے دل میں کوئی طمع تھی، البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے مشرکین کے ہدایا قبول کرنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ “(سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 3057) اس میں تطبیق یوں ہے کہ آپ ان مشرکین کا ہدیہ قبول کرتے تھے جن سے ایمان کی توقع ہوتی تھی، اور جس ہدیے میں مشرکین سے دوستی بڑھانا مقصود ہو تو وہ جائز نہیں۔ بہرحال امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ کفار و مشرکین سے ہدایا قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ حالات سازگار ہوں، سیاسی اور معاشرتی طور پر کوئی پیچیدگی نہ ہو، البتہ اس مشرک کا ہدیہ قبول کرنا منع ہے جو دوستی اور محبت کی بنا پر ہو جس سے محبت اور تعلقات بڑھانا مقصود ہو۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 284/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2618
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5382
5382. سیدنا عبدالرحمن بن ابو بکر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا کہ ہم ایک سو تیس آدمی نبی ﷺ کے ہمراہ تھے نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: ”تم میں سے کسی کے پاس، کھانا ہے؟“ اچانک ایک آدمی کے پاس ایک صاع یا اس کے لگ بھگ آٹا تھا جسے گوندھ لیا گیا۔ اس دوران میں ایک دراز قد مشرک جس کے بال پراگندہ تھے اپنی بکریاں ہانکتا ہوا ادھر آنکلا۔ نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: ”کیا تو فروخت کرتا یا عطیہ دیتا ہے؟“ اس نے کہا: عطیہ نہیں بلکہ فروخت کرتا ہوں، چنانچہ آپ ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی۔ اسے ذبح کیا گیا تو آپ نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم دیا۔ اللہ کی قسم! ایک سو تیس لوگوں کی جماعت میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جسے آپ ﷺ نے اس کلیجی کا ایک ایک ٹکڑا کاٹ کر نہ دیا ہو۔ جو وہاں موجود تھا اسے تو وہیں دے دیا گیا اور اگر وہ موجود نہ تھا تو اس کا حصہ محفوظ کر لیا گیا۔ پھر اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5382]
حدیث حاشیہ: (1) ابن بطال نے کہا ہے کہ اس حدیث سے پیٹ بھر کر کھانا ثابت ہوتا ہے اگرچہ کبھی کبھار بھوک برداشت کرنا افضل ہے۔ بہرحال پیٹ بھر کر کھانا اگرچہ مباح ہے لیکن اس کی ایک حد ہے، جب اس حد سے تجاوز ہو تو اسراف و فضول خرچی ہو گی۔ صرف اس حد تک کھائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مددگار ثابت ہو اور اس سے جسم بوجھل نہ ہو جو اللہ کی عبادت سے رکاوٹ کا باعث بنے۔ (فتح الباري: 654/9)(2) ہمارے رجحان کے مطابق پیٹ بھر کے کھانے کی حد یہ ہے کہ پیٹ کے تین حصے ہوں: ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک سانس کی آمد و رفت کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ اگر یہ معمول بنا لیا جائے تو انسان توانا و تندرست رہے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5382