ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایسے مال میں شفعہ کا حق قائم رکھا جو تقسیم نہ ہوا ہو، لیکن جب اس کی حدود قائم ہو گئی ہوں اور راستہ بھی پھیر دیا گیا ہو تو اب شفعہ کا حق باقی نہیں رہا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2214]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2214
حدیث حاشیہ: (1) اس عنوان میں امام بخاری ؒ نے زمین اور گھروں کے ساتھ عروض کا لفظ بھی شامل کیا ہے،اس کے معنی ہیں: اسباب وسامان وغیرہ۔ جب اس میں دوسرے شریک ہوں تو ان کے ہاتھ بھی فروخت کیا جاسکتا ہے، مثلاً: ایک گھوڑے میں اگر دوشریک ہیں تو ایک شریک کو چاہیے کہ وہ دوسرے شریک کو پیش کش کرے کہ وہ پورا گھوڑا خرید لے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو جس قیمت میں وہ فروخت ہوا ہے، اس میں سے دوسرے شریک کو حصہ دے۔ (2) آخر میں امام بخاری ؒ نے الفاظ حدیث کے اختلاف کو بیان کیا ہے، لیکن یہ اختلاف حدیث کے مفہوم پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوتا۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2214
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1370
´جب حد بندی ہو جائے اور حصے تقسیم ہو جائیں تو شفعہ نہیں۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب حد بندی ہو جائے اور راستے الگ الگ کر دیے جائیں تو شفعہ نہیں“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1370]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ شفعہ صرف اس جائداد میں ہے جو مشترک ملکیت میں ہو، محض پڑوسی ہو نا حق شفعہ کے اثبات کے لیے کافی نہیں، یہی جمہور کا مسلک ہے اور یہی حجت وصواب سے قریب تربھی ہے، حنفیہ نے اس کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ شفعہ جس طرح مشترک جائیداد میں ہے اسی طرح پڑوس کی بنیاد پربھی شفعہ جائزہے، ان کی دلیل حدیث نبوی ”جار الدار أحق بالدار“ ہے۔
2؎: جمہوراس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس حدیث میں مراد شریک (ساجھی) ہے، مطلق پڑوسی کا تو کبھی راستہ الگ بھی ہوتا ہے، جب کہ راستہ الگ ہوجانے پر حق شفعہ نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1370
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2257
2257. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے شفعے کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ یہ اس شکل میں ہوسکتا ہے۔ جبکہ جائیداد تقسیم نہ ہوئی ہولیکن جب حدی بندی ہوجائے اور راستے بدل دیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2257]
حدیث حاشیہ: قسطلانی ؒ نے کہا کہ امام ابوحنیفہ ؒ اور امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگر شریک نے شفیع کو بیع کی خبر دی اور اس نے بیع کی اجازت دی پھر شریک نے بیع کی تو شفیع کو حق شفعہ نہ پہنچے گا اور اس میں اختلاف ہے کہ بائع کو شفیع کا خبر دینا واجب ہے یا مستحب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2257
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2257
2257. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے شفعے کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ یہ اس شکل میں ہوسکتا ہے۔ جبکہ جائیداد تقسیم نہ ہوئی ہولیکن جب حدی بندی ہوجائے اور راستے بدل دیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2257]
حدیث حاشیہ: (1) شفعے کے لغوی معنی” ایک چیز کو دوسری چیز سے ملالینے“ کے ہیں۔ چونکہ شفعہ کرنے والا اپنی ملکیت کے ساتھ دوسرے کی ملکیت کو حاصل کرکے ملالیتا ہے، اس لیے اس فعل کو شفعہ کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی طور پر شفعے سے مراد مشتری سے اس کی رضامندی کے بغیر خرید کردہ چیز کو اس قیمت پر حاصل کرنا ہے جس قیمت میں مشتری نے اسے اصل مالک سے خریدا تھا۔ (2) شفعے کے بالترتیب تین اسباب حسب ذیل ہیں: ٭ شرکتِ ملکیت: ایک شخص فروخت کردہ مشفوعہ جائیداد کی ذات میں شریک ہو جیسا کہ دویا دوسے زیادہ آدمی غیر منقسم زمین یا مکان میں شریک ہوں۔ ٭ شرکتِ حق: دویا دو سے زیادہ اشخاص فروخت کردہ جائیداد کی ذات کے بجائے اس کے حقوق میں شریک ہوں، مثلاً: حق گزر یا حق سیرابی وغیرہ۔ ٭ ہمسائیگی: شفعہ کرنے والے کا مکان فروخت کردہ جائیداد سے متصل ہو۔ (3) شفعہ خلاف اصل ثابت ہوتا ہے کیونکہ اسے مشتری کی ملک سے چھین کر اس کی رضامندی کے بغیر اسے معاوضہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے، تاہم شریعت نے بعض مصالح کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے، اس لیے مطلق طور پر اسے جائز نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے چند ایک شرائط حسب ذیل ہیں: ٭ پیش کردہ حدیث کے مطابق شفعے کےلیے ضروری ہے کہ وہ جائیداد مشترک ہواور اسے تقسیم نہ کیا گیا ہو۔ اگر جائیداد تقسیم ہوجائے اور راستے الگ الگ ہوجائیں تو حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔ ٭وہ ایسی جائیداد ہو جو فروخت کرنے والے کی ملکیت غیر منقولہ ہو۔ منقولہ جائیداد فروخت کرنے میں کوئی شفعہ نہیں ہوگا، مثلاً: حیوانات، اناج یا پھل وغیرہ۔ ٭شفعہ کرنے والے کی وہ جائیداد جس کی وجہ سے اسے شفعے کا حق حاصل ہورہا ہے اس کی اپنی مملوکہ ہو۔ وقف کی اراضی یا حکومت کی جائیداد پر کسی کو شفعے کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ ٭ شفعے کا حق اس وقت حاصل ہوگا جب کوئی جائیداد بذریعہ عقد بیع قطعی طور پر منتقل کی گئی ہو۔ اس بنا پر ہبہ، وراثت یا صدقے کے ذریعے سے ملنے والی چیز پر شفعہ نہیں ہوگا۔ ٭اس کا مطالبہ بھی فوری ہونا چاہیے۔ جب علم ہونے کے بعد خاموشی اختیار کی جائے تو اس سے حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ شفعہ ہر مشترکہ جائیداد میں ہے لیکن سیاق حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حق شفعہ صرف زمین کے ساتھ خاص ہے۔ (فتح الباري: 551/4) صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شفعہ ہر مشترکہ جائیداد میں ہے، مثلاً: زمین، دوکان یا باغ وغیرہ۔ انسان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے فروخت کرے یہاں تک کہ اس کا شریک اس کی اجازت دے۔ اگر وہ چاہے تو خود رکھ لے، چاہے تو اس سے دست بردار ہوجائے۔ اس کی اجازت کے بغیر اگر اسے فروخت کردیا گیا تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔ “(صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 4127(1608)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2257