الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
25. بَابُ مُوكِلِ الرِّبَا:
25. باب: سود کھلانے والے کا گناہ۔
حدیث نمبر: Q2086
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَذِهِ آخِرُ آيَةٍ، نَزَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ایمان والو! ڈرو اللہ سے، اور چھوڑ دو وصولی ان رقموں کی جو باقی رہ گئی ہیں لوگوں پر سود سے، اگر تم ایمان والے ہو، اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر تم کو اعلان جنگ ہے اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے، اور اگر تم سود لینے سے توبہ کرتے ہو تو صرف اپنی اصل رقم لے لو، نہ تم کسی پر زیادتی کرو اور نہ تم پر کوئی زیادتی ہو، اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے مہلت دے دو ادائیگی کی طاقت ہونے تک اور اگر تم اس سے اصل رقم بھی چھوڑ دو تو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم سمجھو۔ اور اس دن سے ڈرو جس دن تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور ان پر کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ آخری آیت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: Q2086]
حدیث نمبر: 2086
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبِي اشْتَرَى عَبْدًا حَجَّامًا فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، وَثَمَنِ الدَّمِ، وَنَهَى عَنِ الْوَاشِمَةِ وَالْمَوْشُومَةِ، وَآكِلِ الرِّبَا وَمُوكِلِهِ، وَلَعَنَ الْمُصَوِّرَ".
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی جحیفہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد کو ایک پچھنا لگانے والا غلام خریدتے دیکھا۔ میں نے یہ دیکھ کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت لینے اور خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے، آپ نے گودنے والی اور گدوانے والی کو (گودنا لگوانے سے) سود لینے والے اور سود دینے والے کو (سود لینے یا دینے سے) منع فرمایا اور تصویر بنانے والے پر لعنت بھیجی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2086]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريثمن الدم ثمن الكلب كسب الأمة لعن الواشمة والمستوشمة آكل الربا وموكله لعن المصور
   صحيح البخارينهى عن ثمن الدم ثمن الكلب آكل الربا وموكله الواشمة والمستوشمة
   صحيح البخارينهى عن ثمن الدم ثمن الكلب كسب البغي لعن آكل الربا وموكله الواشمة والمستوشمة المصور
   صحيح البخاريثمن الكلب ثمن الدم نهى عن الواشمة والموشومة آكل الربا وموكله لعن المصور
   بلوغ المراملعن رسول الله آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2086 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2086  
حدیث حاشیہ:
اکثر علماءکے نزدیک کتے کی بیع درست نہیں ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کتے کا بیچنا اوراس کی قیمت کھانا جائز رکھا ہے اور اگر کوئی کسی کا کتا مار ڈالے تو اس پر تاوان لازم کیا گیا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ہذا کی رو سے کتے کی بیع مطلقاً ناجائز قرار دی ہے۔
پچھنا لگانے کی اجرت کے بارے میں ممانعت تنزیہی ہے کیوں کہ دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پچھنا لگوایا اور پچھنا لگانے والے کو مزدوری دی، اگر حرام ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہ دیتے۔
گدوانا، گودنا حرام ہے اور جانداروں کی مورت بنانا بھی حرام ہے جیسا کہ یہاں ایسے سب پیشہ والوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2086   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2086  
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں وضاحت ہے،حضرت عون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میرے باپ نے ایک غلام خریدا جو پچھنے لگاتا تھا۔
میرے باپ نے اس کے وہ تمام آلات توڑ دیے جن کے ذریعے سے وہ پچھنے لگاتا تھا۔
میں نے اس کے آلات توڑنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے یہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہے۔
(صحیح البخاری،البیوع،حدیث: 2238) (2)
اس حدیث میں چھ احکام بیان ہوئے ہیں جن میں ایک سود کھانے اور کھلانے سے متعلق ہے۔
اگرچہ سود کا نفع کھانے والے کو حاصل ہوتا ہے،تاہم گناہ میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جاندار کی تصویر کشی حرام ہے۔
تصویر خواہ عکسی ہویا مجسم دونوں کا ایک ہی حکم ہے،البتہ بے جان چیزوں کی تصویر بنانے میں کوئی حرج نہیں،مثلاً:
درخت، پہاڑ یا دریا وغیرہ کیونکہ ان کی تصویر کسی قسم کے فتنے کا باعث نہیں ہے۔
تصویر کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب الادب میں بیان کریں گے۔
ان شاء الله.علاوہ ازیں کتے کی خریدو فروخت،سینگی لگوانے کی اجرت،جسم کے کسی حصے میں سرمہ بھرنا،ان کے مسائل بھی آئندہ بیان ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2086   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 695  
´سود کا بیان`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، دینے والے اور اس کے تحریر کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ نیز فرمایا کہ (گناہ کے ارتکاب میں) دہ سب مساوی اور برابر ہیں۔ مسلم اور بخاری میں ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی اسی طرح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 695»
تخریج:
«أخرجه مسلم، المساقاة، باب لعن آكل الربا وموكله، حديث:1598، والبخاري، البيوع، باب موكل الربا، حديث:2086 من حديث أبي جحيفة.»
تشریح:
1. اس حدیث میں سود کی حرمت‘ نیز سود لینے والے‘ دینے والے‘ تحریر کرنے والے اور اس پر گواہیاں ثبت کرنے والے پر لعنت کا ذکر ہے۔
2. سود نص قرآنی سے حرام ہے‘ اس سے باز نہ آنے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔
3. یہ ایسی لعنت ہے جس میں اکثر لوگ گرفتار اور مبتلا ہیں۔
ہر مسلمان کو اس لعنت سے چھٹکارے کی صدق دل سے کوشش کرنی چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 695   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2238  
2238. ت عون بن ابوجحیفہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد گرامی کو دیکھا کہ انھوں نے سینگی لگانے والا ایک غلام خریدا، تو اس کے آلات توڑنے کا حکم دیا۔ میں نے اسکے متعلق پوچھا توانھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے خون اور کتے کی قیمت اور لونڈی (زانیہ) کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔ اور جلد میں سوئی کے ساتھ سرمہ بھرنے والی اور بھروانے والی، سود کھانے اور کھلانے والے نیز تصویر بنانے والے سب پر لعنت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2238]
حدیث حاشیہ:
خون کی قیمت سے پچھنا لگانے والے کی اجرت مراد ہے۔
اس حدیث سے عدم جواز ظاہر ہوا مگر دوسری حدیث جو مذکور ہوئی اس سے یہ حدیث منسوخ ہو چکی ہے۔
اس حدیث میں صاف مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود پچھنا لگوایا اور اس پچھنا لگانے والے کو اجرت ادا فرمائی۔
جس سے جواز ثابت ہوا۔
کتے کی قیمت کے متعلق ابوداؤد میں مرفوعاً موجود ہے کہ جو کوئی تم سے کتے کی قیمت طلب کرے اس کے ہاتھ میں مٹی ڈال دو، مگر نسائی میں جابر ؓ کی روایت ہے کہ آپ نے شکاری کتے کو مستثنیٰ فرمایا کہ اس کی خرید و فروخت جائز ہے۔
زانیہ کی اجرت جو وہ زنا کرانے پر حاصل کرتی ہے، اس کا کھانا بھی ایک مسلمان کے لیے قطعاً حرام ہے، مجازاً یہاں اس اجرت کو لفظ مہر سے تعبیر کیا گیا۔
کاہن سے مراد فال کھولنے والے، ہاتھ دیکھنے والے، غیب کی خبریں بتلانے والے اور اس قسم کے سب وہ لوگ شامل ہیں جو ایسے پاکھنڈوں سے پیسہ حاصل کرتے ہیں۔
وهو حرام بالإجماع لما فیه من أخذ العوض علی أمر باطل یہ جھوٹ پر اجرت لینا ہے جو بالاجماع حرام ہے۔
گودنے والیاں اور گدوانے والیاں جو انسانی جسم پر سوئی سے گود کر اس میں رنگ بھر دیتی ہیں یہ پیشہ بھی حرام اور اس کی آمدنی بھی حرام ہے۔
ا س لیے کہ کسی مسلمان مرد، عورت کو زیبا نہیں کہ وہ اس کا مرتکب ہو۔
سود لینے والوں پر، اسی طرح سود دینے والوں پر، ہر دو پرلعنت کی گئی ہے بلکہ گواہ اور کاتب اور ضامن تک پر لعنت وارد ہوئی ہے کہ سود کا دھندا اتنا ہی برا ہے۔
تصویر بنانے والوں سے جانداروں کی تصویر بنانے والے لوگ مراد ہیں۔
ان سب پر لعنت کی گئی اور ان کا پیشہ ناجائز قرار دیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2238   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2238  
2238. ت عون بن ابوجحیفہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد گرامی کو دیکھا کہ انھوں نے سینگی لگانے والا ایک غلام خریدا، تو اس کے آلات توڑنے کا حکم دیا۔ میں نے اسکے متعلق پوچھا توانھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے خون اور کتے کی قیمت اور لونڈی (زانیہ) کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔ اور جلد میں سوئی کے ساتھ سرمہ بھرنے والی اور بھروانے والی، سود کھانے اور کھلانے والے نیز تصویر بنانے والے سب پر لعنت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2238]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان دو احادیث میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں جن کے متعلق شریعت نے حکم امتناعی جاری کیا ہے:
٭ کتے کی قیمت۔
٭ فاحشہ عورت کی کمائی۔
٭ کاہن کی شیرینی۔
٭ خون کی خریدو فروخت۔
٭ لونڈی سے پیشہ کرانا۔
اس کے علاوہ تین کاموں کی نشاندہی کی گئی ہے جو باعث لعنت وپھٹکار ہیں۔
(ا)
خوبصورتی کے لیے جسم کے کسی حصے میں سرمہ بھرنے بھرانے کا پیشہ کرنا۔
(ب)
سودی کاروبار کرنا،یعنی اسے لینا دینا۔
(ج)
فوٹو گرافی اور تصویر کشی کو اختیار کرنا۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد صرف کتے کی قیمت کے متعلق ہمیں آگاہ کرنا ہے کہ یہ حرام اور ناجائز ہے۔
جمہور محدثین کے نزدیک ہر قسم کے کتے کی قیمت حرام ہے، خواہ سدھایا ہوا ہو یا اس کے علاوہ ہو۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اسے مار ڈالے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہوگا۔
(فتح الباري: 538/4)
لیکن اس دور میں کتوں سے بہت کام لیے جاتے ہیں، مثلاً:
جاسوسی،سراغ رسانی اور شکار کرنے کے لیے ان کا استعمال بہت مشہور ہے۔
کسٹم اور دیگر شعبہ جات میں کتوں کی بہت اہمیت ہے۔
گھر کی حفاظت کے لیے کتے رکھنا بھی ہمارے ہاں معمول ہے اور اصول فقہ کا قاعدہ ہے کہ جس چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے اس کی خریدوفروخت بھی جائز ہے۔
احادیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں شکاری کتے کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شکاری کتے کے علاوہ کسی بھی کتے کی قیمت لینے سے منع کیا ہے۔
(سنن النسائي، البیوع، حدیث: 4672)
اس رویت کو اگرچہ امام نسائی ؒ نے منکر کہا ہے تاہم محدث العصر علامہ البانی ؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
(صحیح سنن النسائي، البیوع، حدیث: 4353) (3)
واضح رہے کہ کتوں میں سونگھنے کی بہت قوت ہوتی ہے۔
یہ سونگھ کر مجرم کا کھوج لگاتے ہیں۔
ان کی باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے۔
ان پر بہت خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے، پھر ان تربیت یافتہ کتوں کی بہت بھاری قیمتیں ہوتی ہیں۔
بہر حال شوقیہ کتے رکھنا یا دوڑ میں مقابلے کےلیے انھیں پالنے کی شرعاً اجازت نہیں، البتہ کسی ضرورت کے پیش نظر انھیں رکھنا جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2238   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5945  
5945. حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خون کی قیمت اور کتے کی قیمت سے منع فرمایا ہے: نیز آپ نے سود دینے والے، سود لینے والے، سرمہ بھرنے والی اور بھروانے والی(پر لعنت بھیجی ہے) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5945]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام ابوداود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ واشمہ وہ ہے جو چہرے کی جلد پر سرمے یا سیاہی سے تِل وغیرہ بناتی ہو اور مستوشمہ وہ ہے جو یہ کام کرواتی ہو۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4170)
اس وضاحت میں چہرے کا ذکر اغلبیت کی بنا پر ہے کیونکہ یہ عمل ہر صورت میں حرام ہے، خواہ وہ چہرے پر ہو یا ہاتھ میں یا پیشانی وغیرہ میں۔
اس کی کئی صورتیں ہیں، مثلاً:
بیل بوٹے بنائے جاتے ہیں، کبھی چاند ستارہ بنایا جاتا ہے، بعض اوقات کسی دوست کا نام لکھوا لیا جاتا ہے۔
بہرحال یہ کام حرام ہے کیونکہ اس کے ارتکاب پر لعنت کی وعید ہے۔
اس نشان کا ختم کرنا ضروری ہے، خواہ وہ جگہ زخمی ہو جائے۔
اگر اس محل کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے باقی رکھا جا سکتا ہے لیکن اس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔
اس عمل سے مرد اور عورت دونوں برابر ہیں، یعنی دونوں کے لیے حرام اور ناجائز ہے۔
(فتح الباري: 457/10) (2)
قیس بن ابو حازم کہتے ہیں کہ میں اپنے باپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر گیا تو میں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے ہاتھ پر سرمہ بھرنے کے نشانات دیکھے تھے، ممکن ہے کہ انہوں نے ممانعت سے پہلے یہ عمل کیا ہو۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہاتھ میں کوئی زخم ہو، انہوں نے دوا کے طور پر وہاں سرمہ لگایا ہو اور زخم مندمل ہونے کے بعد سرمے کے نشانات ہاتھ میں باقی رہ گئے۔
(فتح الباري: 462/10)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5945   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5962  
5962. حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے سینگی لگانے والا ایک غلام خریدا، پھر کہا کہ نبی ﷺ نےخون نکالنے کی اجرت، کتے کی قیمت اور فاحشہ عورت کی کمائی سے منع فرمایا: نیز آپ نے سود لینے والے، سرمہ بھرنے والی، اور تصویر کشی کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5962]
حدیث حاشیہ:
(1)
تصاویر بنانا باعث لعنت فعل ہے، اسی طرح گھروں میں انسانوں یا حیوانوں کی تصویریں رکھنا، ٹیلی ویژن، وی سی آر اور کیبل وغیرہ سے فلمیں دیکھنا، گھر سے اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت کے ختم ہونے کا باعث ہے، ایسی چیزوں سے بچنا ضروری ہے۔
(2)
کرنسی نوٹ، شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور داخلہ فارم کی تصاویر کا گناہ بھی بنانے والے کو ہو گا بشرطیکہ رکھنے والے کے دل میں اس کی نفرت ہو اور اس کے دل میں یہ جذبہ ہو کہ اگر اس کے ہاتھ میں اختیار ہو تو وہ ایسی تصاویر بنانا بند کروائے، اور ان کے بجائے کوئی جائز طریقہ وضع کرے گا۔
شوقیہ تصاویر بنانا اور انہیں اپنے پاس رکھنا دونوں مساوی جرم ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5962