مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 675
675. حضرت عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو شانے کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھاتے ہوئے دیکھا، اتنے میں آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا، آپ نے چھری کو وہیں پھینک دیا اور نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، چنانچہ آپ نے نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:675]
حدیث حاشیہ:
اس باب اور ا س کے تحت اس حدیث کے لانے سے حضرت امام بخاری ؒ کا یہ ثابت کرنا منظور ہے کہ پچھلی حدیث کا حکم استحباباً تھا وجوباً نہ تھا۔
ورنہ آنحضرت ﷺ کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے کیوں جاتے بعض کہتے ہیں کہ امام کا حکم علیحدہ ہے۔
اسے کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے جانا چاہئے۔
حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 675
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2923
2923. حضرت عمرو بن امیہ ضمری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کو شانے کا گوشت کاٹ کاٹ کرکھاتے دیکھا۔ اس دوران میں آپ کو نمازکے لیے بلایا گیا تو آپ نے نماز پڑھی لیکن وضو نہ کیا۔ ایک روایت میں امام زہری ؓ سے یہ اضافہ ہے کہ آپ نے چھری کو پھینک دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2923]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الوضوء میں گزر چکی ہے اور یہاں امام بخاری ؒ اس کو اس لئے لائے کہ جب چھری کا استعمال درست ہوا تو جہاد میں بھی اس کو رکھ سکتے ہیں۔
یہ بھی ایک ہتھیار ہے۔
مجاہدین کو بہت سی ضروریات میں چھری بھی کام آسکتی ہے‘ اس لئے اس کا بھی سفر میں ساتھ رکھنا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2923
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:675
675. حضرت عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو شانے کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھاتے ہوئے دیکھا، اتنے میں آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا، آپ نے چھری کو وہیں پھینک دیا اور نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، چنانچہ آپ نے نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:675]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تقدیم طعام کا حکم بطور استحباب ہے۔
بعض حضرات نے اس سلسلے میں اس طرح وضاحت کی ہے کہ تقدیم طعام کی اجازت اس شخص کے لیے ہے جس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا اور جس نے اقامت سے پہلے کھانا شروع کردیا تھا، پھر نماز کے لیے تکبیر ہوئی تو اسے نماز کے لیے اٹھ جانا چاہیے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
گویا امام بخاری ؒ کے نزدیک دونوں صورتوں کا حکم الگ الگ ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری کے نزدیک امام اور غیر امام کا حکم الگ الگ ہو، یعنی تقدیم طعام کا حکم عام لوگوں کےلیے ہے اور امام کے لیے یہ ہے کہ وہ پہلے نماز پڑھائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسی وقت کھانا چھوڑ دیا تھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی اگر کھانے میں مشغول رہتا ہے تو اس کی وجہ سے لوگ پریشان ہوں گے اور انھیں بلاوجہ انتظار کی زحمت برداشت کرنا پڑے گی۔
(2)
علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ تقدیم طعام اس صورت میں ہے جب بھوک شدید ہو اور کھانا چھوڑ کر نماز شروع کرنے میں خشوع کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ وہ کھانا کھا رہے تھے اور تنور میں گوشت بھونا جا رہا تھا، اتنے میں مؤذن نے تکبیر کہنے کا ارداہ کیا تو حضرت ابن عباس ؓ نے اسے فرمایا:
جلدی مت کرو! مبادا دوران نماز میں ہمارا خیال ادھر رہے۔
البتہ جب نمازی اپنی اس قدر حاجت پوری کرچکا ہو کہ خشوع کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو نماز کو مقدم رکھنا چاہیے۔
(حاشیة السندي: 123/1)
کھانا کھانے کی رخصت کو انتہائی مجبوری کی صورت پر محمول کرنا چاہیے، اسے عادت اور معمول نہیں بنانا چاہیے۔
اور بلاوجہ نماز باجماعت ترک نہیں کرنی چاہیے۔
انسان کو دنیا میں زیادہ سے زیادہ اعمال خیر ذخیرہ کرنے چاہئیں تاکہ قیامت کے دن کام آئیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ﴿وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ﴾ ”ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ اس نے کل آخرت کے لیے کیا ذخیرہ کیا ہے؟“
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 675
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2923
2923. حضرت عمرو بن امیہ ضمری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ کو شانے کا گوشت کاٹ کاٹ کرکھاتے دیکھا۔ اس دوران میں آپ کو نمازکے لیے بلایا گیا تو آپ نے نماز پڑھی لیکن وضو نہ کیا۔ ایک روایت میں امام زہری ؓ سے یہ اضافہ ہے کہ آپ نے چھری کو پھینک دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2923]
حدیث حاشیہ:
چھری سے گوشت کاٹ کاٹ کر کھانا سنت ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ گوشت سخت ہو۔
اس لیے چھری کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اس سے کاٹ کر گوشت کھایا۔
چونکہ چھری آلات حرب سے ہے۔
اس لیے مجاہد اسے میدان جنگ میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے اور بوقت ضرورت اسے استعمال بھی کر سکتا ہے میدان جنگ کے علاوہ دوران سفر میں بھی بہت سی ضروریات میں چھری کام آسکتی ہے۔
اس لیے سفر میں اسے ساتھ رکھنا جائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2923
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5408
5408. سیدنا عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں بکری کا شانہ تھا جسے آپ چھری سے کاٹ کر کھا رہے تھے۔ پھر آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ نے وہ شانہ اور چھری جس سے گوشت کاٹ رہے تھے دونوں کو پھینک دیا، پھر کھڑے ہوئے نماز پڑھی اور (نیا) وضو نہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5408]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چھری سے گوشت کاٹ کر کھانا جائز ہے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”گوشت، چھری سے کاٹ کر نہ کھاؤ کیونکہ یہ عجمی لوگوں کی عادت ہے بلکہ اسے دانتوں سے نوچ کر کھاؤ۔
“ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3778)
امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند مضبوط نہیں ہے۔
اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو تطبیق کی یہ صورت ہو گی کہ چھری کانٹے سے کاٹ کر ہاتھ سے کھایا جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شانے کا گوشت کاٹ کر کھاتے تھے۔
یہ بھی احتمال ہے کہ ممانعت اس طرح کھانے سے ہو جیسے عجمی لوگ کھاتے ہیں کہ چھری کانٹے سے کھایا جائے لیکن ہاتھ سے نہ اٹھایا جائے۔
ہمارے رجحان کے مطابق چھری سے کاٹنے کی ممانعت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5408
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5422
5422. سیدنا عمرو بن امیہ ضمری ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ بکری کے شانے سے گوشت کاٹ رہے تھے پھر آپ نے اسے کھایا۔ پھر آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ فوراً کھڑے ہو گئے اور چھری کو وہیں پھینک دیا چنانچہ آپ نے فرمایا نماز پڑھی لیکن نیا وضو نہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5422]
حدیث حاشیہ:
دستی کا گوشت آپ کو بہت مرغوب تھا، اسے خوشی سے تناول فرماتے، اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں چانپ کا ذکر کیا ہے۔
گویا آپ نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھنی ہوئی چانپ پیش کی۔
آپ نے اسے کھایا، پھر آپ نماز پڑھنے کے لیے چلے گئے اور وضو نہ کیا۔
(جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث: 1829)
اسی طرح حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں مہمان ٹھہرا تو آپ نے چانپ بھوننے کا حکم دیا، پھر آپ چھری سے کاٹ کاٹ کر مجھے دیتے تھے۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 188)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5422
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5462
5462. سیدنا عمرو بن امیہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے بکری کے شانے کا چھری کے ساتھ گوشت کاٹ رہے تھے۔ اس دوران میں آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ نے شانہ اور اس چھری کو پھینک دیا جس کے ساتھ گوشت کاٹ رہے تھے۔ پھر آپ کھڑے ہوئے نماز پڑھی اور وضو نہ کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5462]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بکری کا شانہ چھری سے کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔
اس دوران میں آپ کو نماز کے لیے بلایا گیا تو آپ نے گوشت کھانے کے بجائے چھری اور شانے کو پھینک دیا اور نماز ادا فرمائی کیونکہ اس وقت کھانے کی شدید خواہش نہ تھی بلکہ بھوک کافی حد تک ختم ہو چکی تھی۔
(2)
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر فاقہ اور شدید بھوک نہ ہو تو کھانے میں مصروف رہنے کے بجائے نماز پڑھ لینا درست ہے اور اگر بھوک لگی ہو تو پہلے کھانا کھا لیا جائے، پھر نماز پڑھی جائے جیسا کہ آئندہ احادیث سے ثابت ہو گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5462