الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
8. بَابُ التِّجَارَةِ فِي الْبَرِّ:
8. باب: خشکی میں تجارت کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2061
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، قَالَ: كُنْتُ أَتَّجِرُ فِي الصَّرْفِ، فَسَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنِي الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، وَعَامِرُ بْنُ مُصْعَبٍ، أَنَّهُمَا سَمِعَا أَبَا الْمِنْهَالِ، يَقُولُ: سَأَلْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، وَزَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ عَنِ الصَّرْفِ، فَقَالَا: كُنَّا تَاجِرَيْنِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَسَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّرْفِ؟ فَقَالَ: إِنْ كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَلَا بَأْسَ، وَإِنْ كَانَ نَسَاءً فَلَا يَصْلُحُ".
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی اور ان سے ابوالمنہال نے بیان کیا کہ میں سونے چاندی کی تجارت کیا کرتا تھا۔ اس لیے میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اور مجھ سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا کہ ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن دینار اور عامر بن مصعب نے خبر دی، ان دونوں حضرات نے ابوالمنہال سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے سونے چاندی کی تجارت کے متعلق پوچھا، تو ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تاجر تھے، اس لیے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سونے چاندی کے متعلق پوچھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب یہ دیا تھا کہ (لین دین) ہاتھوں ہاتھ ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن ادھار کی صورت میں جائز نہیں ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2061]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريما كان يدا بيد فليس به بأس وما كان نسيئة فلا يصلح
   صحيح البخاريإن كان يدا بيد فلا بأس وإن كان نساء فلا يصلح
   صحيح مسلمما كان يدا بيد فلا بأس به وما كان نسيئة فهو ربا
   سنن النسائى الصغرىما كان يدا بيد فلا بأس وما كان نسيئة فهو ربا
   سنن النسائى الصغرىإن كان يدا بيد فلا بأس وإن كان نسيئة فلا يصلح

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2061 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2061  
حدیث حاشیہ:
مثلاً ایک شخص نقد روپیہ دے اور دوسرا کہے میں اس کے بدل کا روپیہ ایک مہینہ کے بعد دوں گا تو یہ درست نہیں ہے۔
بیع صرف میں سب کے نزدیک تقابض یعنی دونوں بدلوں کا نقدانقد دیا جانا شرط ہے اور میعاد کے ساتھ درست نہیں ہوتی اب اس میں اختلاف ہے کہ اگر جنس ایک ہی ہو مثلاً روپے کو روپے سے یا اشرفیوں کو اشرفیوں سے تو کمی یا زیادتی درست ہے یا نہیں؟ حنفیہ کے نزدیک کمی اور زیادتی جب جنس ایک ہو تو درست نہیں اور ان کے مذہب پر کلدار اور حالی سکہ کا بدلنا مشکل ہو جاتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ کچھ پیسے شریک کردے، تاکہ کمی اور زیادتی سب کے نزدیک جائز ہو جائے۔
(وحیدی)
اس حدیث کے عموم سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا ہے کہ خشکی میں تجارت کرنا درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2061   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2061  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے آیت کریمہ اور حدیث کے عموم سے خشکی وغیرہ میں تجارت کرنے کو ثابت کیا ہے،چنانچہ حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم ؓ نے فرمایا:
ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے ہی میں پیشۂ تجارت سے منسلک تھے۔
ان الفاظ سے امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔
(2)
سونے چاندی کے سکوں کا باہمی تبادلہ"صرف" کہلاتا ہے۔
اس کی دو صورتیں ہیں:
٭چاندی کے بدلے چاندی اور سونے کے بدلے سونا۔
اس کے جائز ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں:
٭ دونوں کا وزن برابر ہو۔
٭دست بدست ہوں۔
اگر ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار ہویا نقد کی صورت میں وزن میں کمی بیشی کی گئی تو معاملہ حرام ہوجائے گا۔
٭ سونے کو چاندی یا چاندی کو سونے کے عوض خریدنا۔
اس صورت میں وزن کا برابر ہونا تو ضروری نہیں،تاہم اس کا نقد بنقد ہونا ضروری ہے۔
اگر کمی بیشی کے ساتھ معاملہ ادھار ہوا تو جائز نہیں ہوگا۔
اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے،البتہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے عموم سے خشکی میں تجارت کے جائز ہونے کو ثابت کیا ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2061   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4580  
´سونے کے بدلے چاندی ادھار بیچنے کا بیان۔`
ابومنہال کہتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم دونوں تاجر تھے، ہم نے آپ سے بیع صرف (اثمان کی خرید و فروخت) کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: اگر وہ نقدا نقد ہو تو کوئی حرج نہیں اور اگر ادھار ہو تو یہ صحیح نہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4580]
اردو حاشہ:
سونے چاندی کے تبادلے سے مراد سونا دے کر چاندی لینا اور چاندی دے کر سونا لینا ہے۔ دوسرے لفظوں میں دینار کے بدلے درہم لینا یا درہم کے بدلے دینار لینا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ سونے چاندی کے باہمی تناسب میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور بھاؤ بدلنے رہتے ہیں، اس لیے نقد تبادلہ تو جائز ہے مگر ادھار جائز نہیں کیونکہ ممکن ہے ادائیگی تک بھاؤ میں فرق پڑ جائے، پھر تنازع کا امکان پیدا ہو جائے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4580   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4071  
ابو منہال بیان کرتے ہیں کہ میرے ایک شریک (ساجھی) نے، چاندی حج کے موسم یا حج تک ادھار فروخت کی، پھر آ کر مجھے اس کی اطلاع دی، تو میں نے کہا، یہ معاملہ درست نہیں ہے، اس نے کہا، میں نے اسے بازار میں فروخت کیا، تو اس پر کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا، تو میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا، اور ان سے، اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، تو ہم اس قسم کی خرید و فروخت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4071]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابو منہال کے ساجھی کا مقصد یہ تھا،
اگر سونے اور چاندی کا باہمی تبادلہ ادھار کی صورت میں جائز نہ ہوتا،
تو بازار والے لوگ اس پر اعتراض کرتے،
ان کا اعتراض نہ کرنا،
اس کے جائز ہونے کی دلیل ہے،
لیکن اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوا،
اگر بازار کے لوگ واقفیت کے باوجود اعتراض نہ کریں،
تو یہ جواز کی دلیل نہیں ہے،
اس کا سبب کوئی اور بھی ہو سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4071   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3940  
3940. حضرت عبدالرحمٰن بن مطعم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میرے ایک ساتھی نے بازار میں چند درہم ادھار پر فروخت کیے تو میں نے کہا: سبحان اللہ! کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اس نے کہا:سبحان اللہ! اللہ کی قسم! میں نے انہیں بازار میں فروخت کیا ہے۔ کسی نے بھی اس خریدوفروخت پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ میں نے حضرت براء بن عازب ؓ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ہم اس طرح خریدوفروخت کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جو نقد ہو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ ادھار پر اس طرح کی خریدوفروخت جائز نہیں۔ تم حضرت زید بن ارقم ؓ کے پاس جاؤ، اس خریدوفروخت کے متعلق ان سے دریافت کرو کیونکہ وہ ہم سے بہت بڑے تاجر تھے۔ میں نے حضرت زید بن ارقم ؓ سے پوچھا تو انہوں نے یہی جواب دیا۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان کبھی اس کو بایں الفاظ بیان کرتے تھے کہ نبی ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ہم اس طرح کی خریدوفروخت کرتے تھے اور کبھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3940]
حدیث حاشیہ:
یہ بیع جائز نہیں ہے، کیونکہ بیع صرف میں تقابض اسی مجلس میں ضروری ہے جیسے کہ کتاب البیوع میں گزر چکا ہے، آخر حدیث میں راوی کو شک ہے کہ موسم کا لفظ کہا یا حج کا مطابقت باب اس سے نکالی کہ آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3940   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3940  
3940. حضرت عبدالرحمٰن بن مطعم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میرے ایک ساتھی نے بازار میں چند درہم ادھار پر فروخت کیے تو میں نے کہا: سبحان اللہ! کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اس نے کہا:سبحان اللہ! اللہ کی قسم! میں نے انہیں بازار میں فروخت کیا ہے۔ کسی نے بھی اس خریدوفروخت پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ میں نے حضرت براء بن عازب ؓ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ہم اس طرح خریدوفروخت کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جو نقد ہو اس میں کوئی حرج نہیں، البتہ ادھار پر اس طرح کی خریدوفروخت جائز نہیں۔ تم حضرت زید بن ارقم ؓ کے پاس جاؤ، اس خریدوفروخت کے متعلق ان سے دریافت کرو کیونکہ وہ ہم سے بہت بڑے تاجر تھے۔ میں نے حضرت زید بن ارقم ؓ سے پوچھا تو انہوں نے یہی جواب دیا۔ (راوی حدیث) حضرت سفیان کبھی اس کو بایں الفاظ بیان کرتے تھے کہ نبی ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ہم اس طرح کی خریدوفروخت کرتے تھے اور کبھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3940]
حدیث حاشیہ:

یعنی سفیان روایت کرتے وقت کبھی تو ادھار کی مدت کا تعین نہیں کرتے تھے اور کبھی ادھار کی مدت بیان کرتے کہ وہ موسم یا حج تک مدت ادھار کرتے تھے۔

بہرحال اس طرح کہ خریدوفروخت جائز نہیں کیونکہ کرنسی کی خریدوفروخت میں ادھار جائز نہیں ہوتا بلکہ اسی مجلس میں لین دین کرنا ضروری ہے، جیسا کہ کتاب البیوع میں یہ مسئلہ بیان ہواہے۔

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3940