فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3514
´شوہر اگر بچے کا انکار نہ کرے تو جس کی عورت ہو گی بچہ اسی کا مانا جائے گا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا ایک بچے کے سلسلہ میں ٹکراؤ اور جھگڑا ہو گیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ہے، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ ان کا بیٹا ہے (میں اسے حاصل کر لوں)، آپ اس کی ان سے مشابہت دیکھئیے (کتنی زیادہ ہے)، عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3514]
اردو حاشہ:
(1) جس بچے کے بارے میں جھگڑا تھا‘ وہ زمعہ کی لونڈی سے پیدا ہوا تھا۔ حقیقتاً وہ عتبہ کے ناجائز نطفے سے تھا۔ جاہلیت میں لونڈیوں سے زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو دعویٰ کرنے والے زانی کی طرف منسوب کردیا جاتا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا دعویٰ اسی جاہلی رواج کی بنا پر تھا لیکن اسلام نے اس قبیح رسم کو ختم کیا اب زانی کی طرف بچہ منسوب نہیں ہوگا۔ عورت کا خاوند یا مالک انکار نہ کرے تو اسی کا بیٹا ہوگا۔ اگر وہ انکار کردے تو جننے والی ماں کی طرف منسوب ہوگا۔
(2) رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت سودہؓ بھی زمعہ کی بیٹی تھیں۔ اس ناتے وہ بچہ ان کا بھی بھائی بنتا تھا مگر چونکہ حقیقتاً وہ عتبہ کے نطفے سے تھا‘ لہٰـذا قانونی بھائی ہونے کے باوجود اس سے پردے کا حکم دیا کیونکہ وہ حقیقی بھائی نہ تھا۔ یہ جھگڑا فتح مکہ کے موقع پر ہوا تھا۔
(3) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ قیافہ شناسی وہاں معتبر ہوگی جہاں اس کے معارض کوئی اس سے قوی دلیل نہ ہو۔ نبی اکرم ﷺ نے یہاں مشابہت کا اعتبار نہیں کیا اور نہ لعان میں کیا ہے کیونکہ یہاں اس کے معارض اس سے قوی دلائل موجود ہیں‘ یعنی یہ شرعی اصول کہ بچہ بستر والے کی طرف منسوب ہوگا‘ اور لعان کی مشروعیت جبکہ زید بن حارثہ والے واقعے میں اس کا اعتبار کیا ہے کیونکہ وہاں اس کے معارض کوئی اس سے قوی دلیل موجود نہیں۔ واللہ أعلم۔ حاکم یا جج کا فیصلہ کیس کی حقیقت اور اصلیت کو نہیں بدلے گا اگرچہ وہ فیصلہ ظاہری دلائل کی روشنی میں کرے گا جیسے کوئی جھوٹی گواہی دے اور جج اس کے مطابق فیصلہ کردے تو جس کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ ہوا ہے اس کے لیے وہ چیز شرعاً حلال نہیں ہوگی۔ آپ نے اس بچے کو عبد بن زمعہ کا بھائی قراردیا‘ شرعی اصول کی بنا پر‘ لیکن سودہ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا‘ اس لیے کہ حقیقتاً وہ ان کا بھائی نہیں تھا کیونکہ اس کی عتبہ سے واضح مشابہت موجود تھی۔ اس سلسلے میں نبیﷺ کا واضح فرمان بھی موجود ہے کہ اگر میں ظاہری دلائل کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کسی حق میں کردوں تو اس سے وہ چیز اس کے لیے واقعتا حلال نہیں ہوجائے گی بلکہ وہ ایسے سمجھے کہ میں اسے جہنم کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔ اسے وہ نہیں لینا چاہیے۔ (صحیح البخاري‘ الشھادات‘ حدیث: 2680‘ وصحیح مسلم‘ الأقضیة‘ حدیث: 1713)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3514
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3517
´لونڈی مالک کا بچھونا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا زمعہ کے بیٹے کے بارے میں جھگڑا ہو گیا (کہ وہ کس کا ہے اور کون اس کا حقدار ہے) سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب تم مکہ جاؤ تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھو (اور اسے حاصل کر لو) وہ میرا بیٹا ہے۔ چنانچہ عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو میرے باپ کے بستر پر (یعنی اس کی ملکیت میں) پیدا ہوا ہے (اس لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3517]
اردو حاشہ:
باپ کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح بیوی کی اولاد خاوند ہی کی شمار ہوتی ہے‘ اسی طرح لونڈی کی اولاد بھی مالک ہی کی شمار ہوگی بشرطیکہ خاوند یا مالک انکار نہ کرے۔ بیوی بھی فراش ہے لونڈی بھی۔ یہ جمہور کا مسلک ہے۔ احناف لونڈی کو فراش نہیں مانتے۔ اور لونڈی سے بچے کو مالک کا نہیں سمجھتے جب تک وہ دعویٰ نہ کرے۔ لیکن یہ درست نہیں۔ یہ حدیث صراحتاً لونڈی کو فراش ثابت کرتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3517
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2421
2421. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبد بن زمعہ اور سعد بن ابی وقاص ؓ نے زمعہ کی لونڈی کے بیتے کامقدمہ نبی کریم ﷺ کے حضور پیش کیا۔ حضرت سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ آؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو نگاہ میں رکھوں اور اسے قبضہ میں لے لوں کیونکہ وہ میرا بیٹا ہے۔ عبد بن زمعہ ؓ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ میرے باپ کے بستر پر پیدا ہو ہے۔ نبی کریم ﷺ نے (بچے کی عتبہ سے) واضح مشابہت دیکھی تو فرمایا: ”اے عبد بن زمعہ!یہ تجھے ملے گا کیونکہ بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو۔ اور اے سودہ!تم اس سے پردہ کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2421]
حدیث حاشیہ:
حضرت سعد ؓ اپنے کافر بھائی کی طرف سے وصی تھے۔
اس لیے انہوں نے اس کی طرف سے دعویٰ کیا۔
جس میں کچھ اصلیت تھی۔
مگر قانون کی رو سے وہ دعویٰ صحیح نہ تھا۔
کیوں کہ اسلامی قانون یہ ہے الولدُ لِلفِراشِ و لِلعَاهِرِ الحجرُ۔
اس لیے آپ نے ان کا دعویٰ خارج کر دیا۔
مگر اتقوا الشبهات کے تحت حضرت سودہ ؓ کو اس لڑکے سے پردہ کرنے کا حکم فرمادیا۔
بعض دفعہ حاکم کے سامنے کچھ ایسے حقائق آجاتے ہیں کہ ان کو جملہ دلائل سے بالا ہو کر اپنی صوابدید پر فیصلہ کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2421
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2745
2745. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محتر مہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا فرزند میرے نطفے سے ہے، اسے اپنے قبضے میں لے لینا، چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔ اس کے متعلق میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی۔ تب عبد بن زمعہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یہ تو میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنا جھگڑا لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے اور اس نے مجھے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2745]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ عتبہ نے کہا میرے لڑکے کا خیال رکھو‘ اس کو لے لینا اور سعد ؓنے جو اپنے بھائی کے وصی تھے اس کا دعویٰ کیا۔
اس بچے کا نام عبد الرحمٰن تھا حالانکہ آپ ﷺ نے فیصلہ کردیا کہ وہ زمعہ کا بیٹا ہے تو سودہ کا بھائی ہوا مگر چونکہ اس کی صورت عتبہ سے ملتی تھی اس لئے احتیاطاً حضرت سودہ ؓ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2745
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7182
7182. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کی یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے، تم اسے اپنی پرورش میں لے لینا، چنانچہ فتح مکہ کے دن سیدنا سعد ؓ نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور مجھے میرے بھائی نے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ اس دوران میں عبد بن زمعہ کھڑے ہوئے اور کہا: یہ میرا بھائی ہے میرے والد کی لونڈی کا لڑکا ہے اور انھی کے بستر پر پیدا ہوا ہے چنانچہ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر گئے۔ سیدنا سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور اسی کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عبد بن زمعہ! یہ تمہارا (بھائی) ہے“ اس کےبعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”بچہ بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی بدکار کے لیے تو پتھر ہیں۔ آپ نے سیدہ سودہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7182]
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ! امام بخاری رحمہ اللہ کے باریک فہم پر آفریں۔
انہوں نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ اگر قاضی کی قضا ظاہر اور باطن یعنی عند الناس وعند اللہ دونوں طرح نافذ ہو جاتی جیسے حنفیہ کہتے ہیں تو جب آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بچہ زمعہ کا بیٹا ہے تو سودہ کا بھائی ہو جاتا ہے اور اس وقت آپ سودہ رضی اللہ عنہ کو اس سے پردہ کرنے کا کیوں حکم دیتے۔
جب پردے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ قضائے قاضی سے باطنی اور حقیقی امر نہیں بدلتا گو ظاہر میں وہ سودہ کا بھائی ٹھہرا مگر حقیقتاًعند اللہ بھائی نہ ٹھہرا‘ اسی وجہ سے پردہ کا حکم دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7182
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2218
2218. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ سعد بن ابی وقاص ؓ اور عبد بن زمعہ ؓ نے ایک لڑکے کے متعلق جھگڑا کیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا لڑکا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔ آپ اس کی شکل وصورت کو ملاحظہ فرمالیں۔ عبد بن زمعہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے بستر پر ان کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اس کی شکل وصو رت دیکھی تو عتبہ سے واضح طور پر ملتی جلتی تھی، پھر آپ نے فرمایا: ”اے عبد!یہ تیرا (بھائی) ہے۔ لڑکا اس کو ملتا ہے جس کے گھر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ اے سودہ بنت زمعہ! تم اس لڑکے سے پردہ کرو۔“ چنانچہ حضرت سودہ ؓ نے پھر اسے کبھی نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2218]
حدیث حاشیہ:
حالانکہ از روئے قاعدہ شرعی آپ نے اس بچہ کو زمعہ کا بیٹا قرار دیا، تو ام المومنین سودہ ؓ اس کی بہن ہو گئیں۔
مگر احتیاطاً ان کو اس بچہ سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
اس لیے کہ ا س کی صورت عتبہ سے ملتی تھی۔
اور گمان غالب ہوتا تھا کہ وہ عتبہ کا بیٹا ہے۔
حدیث سے نکلا کہ شرعی اور باقاعدہ ثبوت کے مقابل مخالف گمان پر کچھ نہیں ہوسکتا۔
باب کی مطابقت اس طرح پر ہے کہ آپ ﷺ نے زمعہ کی ملک مسلم رکھی، حالانکہ زمعہ کافر تھا، اور اس کو اپنی لونڈی پر وہی حق ملا جو مسلمانوں کو ملتا ہے تو کافر کا تصرف بھی اپنی لونڈی غلاموں میں جیسے بیع ہبہ وغیرہ نافذ ہوگا۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2218
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2533
2533. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا اپنے قبضے میں لے لے، عتبہ نے کہا: بلاشبہ وہ میرا بیٹا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے وقت مکہ مکرمہ تشریف لائے تو حضرت سعد ؓ نے زمعہ کی لونڈی کا بیٹا پکڑ لیا اور اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ ان کے ہمراہ عبد بن زمعہ بھی آئے۔ حضرت سعد ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھتیجا ہے۔ بھائی نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کابیٹا ہے۔ عبد بن زمعہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھائی اور زمعہ کا بیٹا ہے، اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھا تو وہ سب لوگوں میں عتبہ کے زیادہ مشابہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے عبد بن زمعہ!یہ تیرا (بھائی) ہے کیونکہ وہ ان کے والد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2533]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ام ولد کا ذکر ہے۔
یہاں یہ حدیث لانے کا یہی مطلب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2533
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2218
2218. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ سعد بن ابی وقاص ؓ اور عبد بن زمعہ ؓ نے ایک لڑکے کے متعلق جھگڑا کیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا لڑکا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔ آپ اس کی شکل وصورت کو ملاحظہ فرمالیں۔ عبد بن زمعہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے بستر پر ان کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اس کی شکل وصو رت دیکھی تو عتبہ سے واضح طور پر ملتی جلتی تھی، پھر آپ نے فرمایا: ”اے عبد!یہ تیرا (بھائی) ہے۔ لڑکا اس کو ملتا ہے جس کے گھر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ اے سودہ بنت زمعہ! تم اس لڑکے سے پردہ کرو۔“ چنانچہ حضرت سودہ ؓ نے پھر اسے کبھی نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2218]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس مقدمے میں بات حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی مانی جاتی یا عبد بن زمعہ کی تسلیم کی جاتی دونوں صورتوں میں بیٹا کافروں کا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس مقدمے کی سماعت فرمائی۔
زمعہ کی لونڈی اور اس کی ملکیت کو برقرار رکھا اور اس کا انکار نہ کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مشرک کا اپنی ملکیت میں ہر طرح کا تصرف جائز ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ کفار کا آزاد کرنا معتبر ہے۔
ان کی لونڈیاں اور ان کی جائیداد ان کی ملکیت ہوں گی اور دیگر معاملات میں بھی ان کے حقوق کو تسلیم کیا جائے گا۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ چونکہ یہ لوگ کافر ہیں، اس لیے ان کا کوئی اعتبار نہیں۔
اگر ان سے جنگ کا معاملہ پیش آجائے تو اس کے اصول وضوابط الگ ہیں۔
(3)
قانونی اعتبار سے شکل وصورت کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ اس کا بیٹا تسلیم کیا جائے گا جس کے گھر اس کی پیدائش ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت سودہ ؓ کو احتیاطاً پردے کا حکم دیا کیونکہ اس کی شکل وصورت عتبہ بن ابی وقاص سے ملتی جلتی تھی۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2218
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2421
2421. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبد بن زمعہ اور سعد بن ابی وقاص ؓ نے زمعہ کی لونڈی کے بیتے کامقدمہ نبی کریم ﷺ کے حضور پیش کیا۔ حضرت سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ آؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو نگاہ میں رکھوں اور اسے قبضہ میں لے لوں کیونکہ وہ میرا بیٹا ہے۔ عبد بن زمعہ ؓ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ میرے باپ کے بستر پر پیدا ہو ہے۔ نبی کریم ﷺ نے (بچے کی عتبہ سے) واضح مشابہت دیکھی تو فرمایا: ”اے عبد بن زمعہ!یہ تجھے ملے گا کیونکہ بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو۔ اور اے سودہ!تم اس سے پردہ کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2421]
حدیث حاشیہ:
(1)
عتبہ بن ابی وقاص بحالت کفر مر چکا تھا، اس نے اپنے بھائی سے ایک دعویٰ کرنے کے متعلق کہا، چنانچہ فتح مکہ کے وقت حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اس کی تعمیل کرتے ہوئے زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
جب عبد بن زمعہ ؓ نے اس کے متعلق جھگڑا کیا تو دونوں مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مرنے والا جس کی وصیت کر جائے وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے دعویٰ کر سکتا ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔
گویا امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے اس اجماع امت کا ماخذ بیان کیا ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا قیافہ کسی فیصلے کی بنیاد نہیں بن سکتا بلکہ اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کیونکہ قیافہ کو بنیاد قرار دینے سے بہت سے جھگڑے پیدا ہو سکتے ہیں۔
(فتح الباري: 94/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2421
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2533
2533. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا اپنے قبضے میں لے لے، عتبہ نے کہا: بلاشبہ وہ میرا بیٹا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے وقت مکہ مکرمہ تشریف لائے تو حضرت سعد ؓ نے زمعہ کی لونڈی کا بیٹا پکڑ لیا اور اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ ان کے ہمراہ عبد بن زمعہ بھی آئے۔ حضرت سعد ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھتیجا ہے۔ بھائی نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کابیٹا ہے۔ عبد بن زمعہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھائی اور زمعہ کا بیٹا ہے، اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھا تو وہ سب لوگوں میں عتبہ کے زیادہ مشابہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے عبد بن زمعہ!یہ تیرا (بھائی) ہے کیونکہ وہ ان کے والد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2533]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ دیا کہ مذکورہ لڑکا عبد بن زمعہ کا بھائی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اس لڑکے کی ماں، یعنی زمعہ کی لونڈی ام ولد ہے۔
اس واقعے میں ام ولد کی آزادی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اسے زمعہ کا فراش قرار دیا گیا ہے۔
اس اعتبار سے وہ اور زمعہ کی بیوی دونوں برابر ہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ اس حدیث سے ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ اگر لونڈی بچے کو جنم دے تو وہ صاحب فراش کا نہیں ہو گا جب تک مالک اس کا اقرار نہ کرے۔
یہ موقف اس حدیث کے خلاف ہے۔
چونکہ اس لڑکے کی مشابہت عتبہ سے ملتی جلتی تھی، اس لیے احتیاط کے طور پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت سودہ ؓ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا بصورت دیگر بھائی سے پردہ کرنا چہ معنی دارد؟
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2533
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2745
2745. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محتر مہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا فرزند میرے نطفے سے ہے، اسے اپنے قبضے میں لے لینا، چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔ اس کے متعلق میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی۔ تب عبد بن زمعہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یہ تو میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنا جھگڑا لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے اور اس نے مجھے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2745]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا قائم کیا ہوا عنوان دو اجزاء پر مشتمل ہے:
٭ وصیت کرنے والے کا وصی سے اپنے بچے کی نگہداشت کا کہنا۔
٭ وصی کسی قسم کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اپنے بھائی عتبہ کے وصی تھے۔
اس نے حضرت سعد ؓ سے کہا تھا کہ میرے نطفے سے پیدا ہونے والے بچے کی نگہداشت کرنا اور اسے اپنے پاس رکھنا۔
اس سے معلوم ہوا کہ وصیت کرنے والا کسی کو اپنی اولاد کی نگہداشت کے متعلق کہہ سکتا ہے۔
اس میں شرعی طور پر کوئی خرابی نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کا انکار نہیں کیا، نیز وصی کسی کے متعلق یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ فلاں لڑکا فلاں کا بیٹا ہے۔
حضرت سعد ؓ نے اس قسم کا دعویٰ کیا اگرچہ فیصلہ اس کے خلاف ہوا، تاہم دعویٰ کرنے میں شرعی طور پر کوئی خرابی نہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے کتاب الخصومات میں بھی ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب دعوی الوصي للميت)
”وصی کا میت کی طرف سے دعویٰ کرنا۔
“ وہاں بھی ثبوت کے لیے یہی حدیث پیش کی ہے۔
بہرحال اس حدیث سے عنوان کے دونوں جز ثابت ہوتے ہیں۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2745
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6765
6765. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: سعد بن ابی وقاص اور عبدبن زمعہ ؓ کا ایک لڑکے کے متعلق جھگڑا ہوا۔ سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ لڑکا میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا بیٹا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی وہ اس کا بیٹا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔ آپ اس کی شکل و صورت پر نظر فرمائیں۔ عبد بن زمعہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرا بھائی ہے۔ میرے والد کے بستر پر ان کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لڑکے کی شکل وصورت دیکھی تو اس کی عتبہ سے واضح طور پر مشابہت تھی، چنانچہ آپ نے فرمایا: ”اے عبد بن زمعہ! یہ لڑکا آپ کے لیے ہے کیونکہ بچہ بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ اور اسے سودہ بنت زمعہ! تم اس لڑکے سے پردہ کرو۔“ چنانچہ پھر اس لڑکے نے حضرت سودہ ؓ کو نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6765]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس لڑکے کے متعلق اپنا بھتیجا ہونے کا دعویٰ کیا جبکہ عبد بن زمعہ نے اس کے متعلق اپنے بھائی ہونے کا دعویٰ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فراش کو بنیاد بنا کر اس بیٹے کا الحاق عبد بن زمعہ سے کر دیا اور واضح مشابہت کی وجہ سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
(2)
بہرحال دعویٰ کرنے سے نسب ثابت نہیں ہوتا، چنانچہ جب کوئی شخص فوت ہو جائے اور ایک بیٹا چھوڑ جائے اور اس کا کوئی دوسرا وارث نہ ہو، پھر بیٹا کسی کے متعلق اقرار کرے کہ فلاں اس کا بھائی ہے تو امام مالک رحمہ اللہ اور اہل کوفہ کے نزدیک اس اقرار سے اس کا نسب ثابت نہیں ہوگا اور نہ اسے وراثت سے حصہ ہی دیا جائے گا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ بیٹا اپنے والد کے قائم مقام ہے، لہٰذا اس کا اقرار ایسا ہے جیسے میت نے زندگی میں اس کا اقرار کیا تھا لیکن پہلا موقف زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ کسی کو اپنا بھائی کہنا باپ کی طرف اس کے بیٹا ہونے کی نسبت کرنا ہے، حالانکہ غیر کی طرف کسی کو منسوب کرنا جائز نہیں۔
ہاں اس کے قرائن موجود ہوں تو دوسری بات ہے۔
اس صورت میں کوئی قرینہ نہیں ہے جس کی بنا پر بھائی کے اقرار سے کسی کو باپ کا بیٹا ثابت کر دیا جائے۔
(عمدة القاري: 47/16)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6765
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7182
7182. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کی یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے، تم اسے اپنی پرورش میں لے لینا، چنانچہ فتح مکہ کے دن سیدنا سعد ؓ نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور مجھے میرے بھائی نے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ اس دوران میں عبد بن زمعہ کھڑے ہوئے اور کہا: یہ میرا بھائی ہے میرے والد کی لونڈی کا لڑکا ہے اور انھی کے بستر پر پیدا ہوا ہے چنانچہ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر گئے۔ سیدنا سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور اسی کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”عبد بن زمعہ! یہ تمہارا (بھائی) ہے“ اس کےبعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”بچہ بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی بدکار کے لیے تو پتھر ہیں۔ آپ نے سیدہ سودہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7182]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بہت باریک بینی سے اپنے قائم کیے ہوئے عنوان کو ثابت کیا ہے وہ اس طرح کہ اگر قاضی کا فیصلہ ظاہر دونوں طرح نافذ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی بن جاتا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پردے کا حکم نہ دیتے جب پردے کا حکم دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ صرف ظاہری جھگڑا ختم کرنے کے لیے تھا حقیقت اور باطن کو بدلنے کے لیے نہ تھا۔
2۔
اگرچہ ظاہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کو حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی ٹھرایا لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ان کا بھائی نہیں تھا، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
اگر یہ فیصلہ باطن میں بھی نافذ العمل ہوتا تو بھائی سے پردے کا حکم نہ دیا جاتا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7182