الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
3. بَابُ تَفْسِيرِ الْمُشَبَّهَاتِ:
3. باب: ملتی جلتی چیزیں یعنی شبہ والے امور کیا ہیں؟
حدیث نمبر: 2053
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، أَنَّ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ مِنِّي، فَاقْبِضْهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عَامَ الْفَتْحِ، أَخَذَهُ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَقَالَ ابْنُ أَخِي: قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ، فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَتَسَاوَقَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي كَانَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ"، ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْتَجِبِي مِنْهُ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ، فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ.
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص (کافر) نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص (مسلمان) کو (مرتے وقت) وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کا لڑکا میرا ہے۔ اس لیے اسے تم اپنے قبضہ میں لے لینا۔ انہوں نے کہا کہ فتح مکہ کے سال سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص نے اسے لے لیا، اور کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور وہ اس کے متعلق مجھے وصیت کر گئے ہیں، لیکن عبد بن زمعہ نے اٹھ کر کہا کہ میرے باپ کی لونڈی کا بچہ ہے، میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ آخر دونوں یہ مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور مجھے اس کی انہوں نے وصیت کی تھی۔ اور عبد بن زمعہ نے عرض کیا، یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے۔ انہیں کے بستر پر اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبد بن زمعہ! لڑکا تو تمہارے ہی ساتھ رہے گا۔ اس کے بعد فرمایا، بچہ اسی کا ہوتا ہے جو جائز شوہر یا مالک ہو جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہو۔ اور حرام کار کے حصہ میں پتھروں کی سزا ہے۔ پھر سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں، فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کیا کر، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کی شباہت اس لڑکے میں محسوس کر لی تھی۔ اس کے بعد اس لڑکے نے سودہ رضی اللہ عنہ کو کبھی نہ دیکھا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ/حدیث: 2053]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريإن عتبة بن أبي وقاص عهد إلى أخيه سعد بن أبي وقاص أن يقبض إليه ابن وليدة زمعة قال عتبة إنه ابني فلما قدم رسول الله زمن الفتح أخذ سعد ابن وليدة زمعة فأقبل به إلى رسول الله وأقبل معه بعبد بن زمعة فقال سعد يا رسول الله
   صحيح البخاريهو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة فلم تره سودة قط
   صحيح البخاريهو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   صحيح البخاريهو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاريهو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر لسودة بنت زمعة احتجبي منه
   صحيح البخاريهو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاريهو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   صحيح البخاريهو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر لسودة بنت زمعة احتجبي منه لما رأى من شبهه بعتبة فما رآها حتى لقي الله
   صحيح البخاريالولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح مسلمهو لك يا عبد الولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة
   سنن أبي داودالولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي عنه يا سودة
   سنن النسائى الصغرىالولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة
   سنن النسائى الصغرىالولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   سنن ابن ماجههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي عنه يا سودة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسمالولد للفراش وللعاهر الحجر
   مسندالحميديهو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش واحتجبي منه يا سودة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2053 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2053  
حدیث حاشیہ:
روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ عتبہ بن ابی وقاص حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ مشہور صحابی کا بھائی تھا۔
عتبہ اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں سے تھا اور کفر ہی پر اس کی موت ہوئی، زمعہ نامی ایک شخص کی لونڈی سے اسی عتبہ نے زنا کیا اور وہ حاملہ ہو گئی۔
عتبہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے بھائی حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا حمل مجھ سے ہے۔
لہٰذا اس کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہو اس کو تم اپنی تحویل میں لے لینا، چنانچہ زمعہ کی لونڈی کے بطن سے لڑکا پیدا ہوا۔
اور وہ ان ہی کے ہاں پرورش پاتا رہا۔
جب مکہ فتح ہوا تو حضرت سعد بن ابی وقاص ؓنے چاہا کہ اپنے بھائی کی وصیت کے تحت اس بچہ کو اپنی پرورش میں لے لیں۔
مگر زمعہ کا بیٹا عبد بن زمعہ کہنے لگا کہ یہ میرے والد کی لونڈی کا بچہ ہے۔
اس لیے اس کا وارث میں ہوں جب یہ مقدمہ عدالت نبوی میں پیش ہوا تو آپ ﷺ نے یہ قانون پیش فرمایا کہ الولدُ للفراشِ و للعاهرِ الحجرُ بچہ اسی کا گردانا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہے اگرچہ وہ کسی دوسرے فرد کے زنا کا نتیجہ ہے۔
اس فرد کے حصہ میں شرعی سنگساری ہے۔
اس قانون کے تحت آنحضرت ﷺ نے وہ بچہ عبد بن زمعہ ہی کو دے دیا، مگر بچہ کی مشابہت عتبہ بن ابی وقاص ہی سے تھی، اس لیے اس شبہ کی بناءپر آنحضرت ﷺ نے حضرت ام المومنین سودہ ؓ کو حکم فرمایا کہ وہ زمعہ کی بیٹی ہونے کے ناطے بظاہر اس لڑکے کی بہن تھیں۔
مگر لڑکا مشتبہ ہو گیا لہٰذا مناسب ہوا کہ وہ اس سے غیروں کی طرح پردہ کریں۔
حضرت امام بخاری ؒ کے نزدیک سودہ ؓ کو پردہ کا حکم اسی اشتباہ کی وجہ سے احتیاطا دیا گیا تھا کہ باندی کے ناجائز تعلقات عتبہ سے تھے اور بچے میں اسی کی شباہت تھی۔
امام بخاری ؒ کا مقصد مشتبہات کی تفسیر اور ان سے بچنے کا حکم ثابت فرمانا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
و وجه الدلالة منه قوله صلی اللہ علیه وسلم احتجبي منه یا سودة مع حکمه بأنه أخوها لأبیها لکن لما رأی الشبه البین فیه من غیر زمعة أمر سودة بالاحتجاب منه احتیاطا في قول الأکثر۔
(فتح الباري)
یعنی یہاں مشتبہات کی دلیل آنحضرت ﷺ کا وہ ارشاد مبارک ہے جو آپ نے حضرت سودہ ؓ کو فرمایا کہ بظاہر تمہارا بھائی ہے اور اسلامی قانون بھی اسی کو ثابت کرتا ہے مگر شبہ یقینا ہے کہ یہ عتبہ کا ہی لڑکا ہو جیسا کہ اس میں اس سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔
پس بہتر ہے کہ تم اس سے پردہ کرو۔
حضرت سودہ ؓ نے اس ارشاد نبوی پر عمل کیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔
الولد للفراش کا مطلب الوالد لصاحب الفراش یعنی بچہ قانوناً اسی کا تسلیم کیا جائے گا جو اس بستر کا مالک ہے جس پر بچہ پیدا ہوا ہے یعنی جو اس کا شرعی و قانونی مالک یا خاوند ہے۔
بچہ اسی کا مانا جائے گا اگرچہ وہ کسی دوسرے کے نطفہ ہی سے کیوں نہ ہو اگر ایسا مقدمہ ثابت ہو جائے تو پھر زانی کے لیے محض سنگساری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2053   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2053  
حدیث حاشیہ:
(1)
دور جاہلیت میں لونڈیاں زنا کرتی تھیں اور بڑے بڑے امراء ان کے پاس آتے تھے، جب کوئی لونڈی اس غلط کاری کے نتیجے میں حاملہ ہوجاتی تو کبھی اس کا مالک دعوی کرتا اور کبھی زانی اقرار کرتا کہ یہ حمل اس کا ہے۔
حضرت ام المومنین سودہ ؓ کے والد زمعہ کی لونڈی کا معاملہ بھی کچھ ایسا تھا، اس سے عقبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا جس سے وہ حاملہ ہوگئی۔
اس نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا حمل میرے نطفے سے ہے۔
جب وہ بچہ جنم لے تو اسے اپنی تحویل میں لے لینا۔
فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے اپنے قبضے میں لے لینا چاہا لیکن زمعہ کا بیٹا آڑے آیا کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے جاہلیت کا قانون باطل قرار دیتے ہوئے عبد بن زمعہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا:
بچہ صاحب فراش(بستر والے)
کا ہے اور زانی اس سے محروم ہے۔
مگر بچے کی مشابہت عقبہ بن ابی وقاص سے تھی، اس شبہے کی بنیاد پر آپ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ اس لڑکے سے پردہ کریں اگرچہ زمعہ کی بیٹی ہونے کے ناتے سے اس لڑکے کی بہن تھیں۔
(2)
امام بخاری ؒ کے نزدیک حضرت سودہ ؓ کو پردے کا حکم اسی اشتباہ کی وجہ سے احتیاطاً دیا گیا کیونکہ باندی کے ناجائز تعلقات عقبہ کے ساتھ تھے اور بچے کی شکل و صورت بھی اس سے ملتی جلتی تھی۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے اشتباہ کی تفسیر فرمائی اور اس سے اجتناب کرنے کا حکم ثابت کیا۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کا حضرت سودہ ؓ کو اس بچے سے پردہ کرنے کا حکم دینا ہے،حالانکہ نبی ﷺ نے قانون اور شرعی اعتبار سے اسے ان کا بھائی قرار دیا تھا مگر اس بات کا قومی شبہ تھا کہ وہ عقبہ ہی کا لڑکا ہو جیسا کہ شکل وصورت کی ہم آہنگی سے پتہ چلتا تھا،اس لیے احتیاط کے پیش نظر آپ نے پردے کا حکم دیا۔
(فتح الباري: 371/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2053   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 360  
´بچہ صاحب بستر کا ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولد للفراش وللعاهر الحجر . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارے سپرد ہے، اولاد اسی کی شمار ہو گی جس کے بستر پر پیدا ہو، اور زانی کے لئے پتھر (سنگسار کرنا) ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 360]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6749، من حديث مالك به ورواه مسلم 1457 من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ ایک آدمی کی ایک عورت سے شادی ہوئی پھر اس کے (نو مہینے) بعد اس عورت کا بچہ یا بچی پیدا ہوئی۔ یہ بچہ یا بچی اس آدمی کے بستر پر پیدا ہوئی ہے لہٰذا اس حدیث کی رو سے ثابت ہوا کہ یہ اسی آدمی کا بچہ یا بچی ہے الا یہ کہ باپ اس کا انکار کر دے یا کوئی شرعی قرینہ پایا جائے۔
● بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں آدمی کا بیٹا ہے، اس کا ثبوت تقلید کرنے سے ہی ملتا ہے۔‏‏‏‏ ان لوگوں کا یہ قول باطل ہے کیونکہ بیٹے یا بیٹی کا ثبوت اس صحیح حدیث (اور دوسری احادیث) سے ملتا ہے۔ جب نکاح ثابت ہو جائے تو اولاد خود بخود ثابت ہو جاتی ہے جو اس نکاح کے بعد باپ کے بستر پر پیدا ہوئی ہے۔ باپ کے بستر سے مراد یہ ہے کہ وہ فلاں عورت کا شوہر ہے۔
➋ احتیاط کرنا اور مشتبہ اشیاء سے بچنا افضل ہے۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: «دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ» جس چیز کے بارے میں تمہیں شک و شبہ ہو تو اسے چھوڑ دو اور جس چیز کے بارے میں شک و شبہ نہ ہو (یقین ہو) اسے لے لو۔ [سنن الترمذي: 2518 وسنده صحيح، وقال الترمذي: هٰذا حديث صحيح و صححه ابن خزيمة: 2348 وابن حبان، الموارد:512 والحاكم 13/2 والذهبي]
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں امہات المومنین اور صحابہ کرام ہر وقت پیش پیش اور مستعد رہتے تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
➍ بغیر کسی شری قرینے کے تمام نصوص شرعیہ کے ظاہر پر عمل ہو گا۔
➎ زنا کی سزا رجم (سنگسار / پتھر مار مار کر مار دینا) ہے بشرطیکہ زنا کرنے والا شادی شدہ ہو۔ «الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ» والی حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار المتناثره فى الاخبار المتواتره 82 و نظم المتناثر من الحديث المتواتر 181]
● اسی طرح یہ بھی متواتر ہے کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو زنا کی وجہ سے سنگسار کیا گیا تھا۔ دیکھئے: [قطف الازهار 83 ولفظ الآلي المتناثره فى الأحاديث المتواتره 47 ونظم المتناثر 182]
◄ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ شادی شدہ زانی کو سزائے رجم دینا متواتر، قطعی اور یقینی احادیث سے ثابت ہے۔ بعض منکرین حدیث کا سزائے رجم کا انکار کرنا باطل اور مردود ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 54، البخاري: 6633, 6634]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 41   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3514  
´شوہر اگر بچے کا انکار نہ کرے تو جس کی عورت ہو گی بچہ اسی کا مانا جائے گا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا ایک بچے کے سلسلہ میں ٹکراؤ اور جھگڑا ہو گیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا ہے، انہوں نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ ان کا بیٹا ہے (میں اسے حاصل کر لوں)، آپ اس کی ان سے مشابہت دیکھئیے (کتنی زیادہ ہے)، عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے، میرے باپ کی لونڈی سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3514]
اردو حاشہ:
(1) جس بچے کے بارے میں جھگڑا تھا‘ وہ زمعہ کی لونڈی سے پیدا ہوا تھا۔ حقیقتاً وہ عتبہ کے ناجائز نطفے سے تھا۔ جاہلیت میں لونڈیوں سے زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو دعویٰ کرنے والے زانی کی طرف منسوب کردیا جاتا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا دعویٰ اسی جاہلی رواج کی بنا پر تھا لیکن اسلام نے اس قبیح رسم کو ختم کیا اب زانی کی طرف بچہ منسوب نہیں ہوگا۔ عورت کا خاوند یا مالک انکار نہ کرے تو اسی کا بیٹا ہوگا۔ اگر وہ انکار کردے تو جننے والی ماں کی طرف منسوب ہوگا۔
(2) رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت سودہؓ بھی زمعہ کی بیٹی تھیں۔ اس ناتے وہ بچہ ان کا بھی بھائی بنتا تھا مگر چونکہ حقیقتاً وہ عتبہ کے نطفے سے تھا‘ لہٰـذا قانونی بھائی ہونے کے باوجود اس سے پردے کا حکم دیا کیونکہ وہ حقیقی بھائی نہ تھا۔ یہ جھگڑا فتح مکہ کے موقع پر ہوا تھا۔
(3) اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ قیافہ شناسی وہاں معتبر ہوگی جہاں اس کے معارض کوئی اس سے قوی دلیل نہ ہو۔ نبی اکرم ﷺ نے یہاں مشابہت کا اعتبار نہیں کیا اور نہ لعان میں کیا ہے کیونکہ یہاں اس کے معارض اس سے قوی دلائل موجود ہیں‘ یعنی یہ شرعی اصول کہ بچہ بستر والے کی طرف منسوب ہوگا‘ اور لعان کی مشروعیت جبکہ زید بن حارثہ والے واقعے میں اس کا اعتبار کیا ہے کیونکہ وہاں اس کے معارض کوئی اس سے قوی دلیل موجود نہیں۔ واللہ أعلم۔ حاکم یا جج کا فیصلہ کیس کی حقیقت اور اصلیت کو نہیں بدلے گا اگرچہ وہ فیصلہ ظاہری دلائل کی روشنی میں کرے گا جیسے کوئی جھوٹی گواہی دے اور جج اس کے مطابق فیصلہ کردے تو جس کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ ہوا ہے اس کے لیے وہ چیز شرعاً حلال نہیں ہوگی۔ آپ نے اس بچے کو عبد بن زمعہ کا بھائی قراردیا‘ شرعی اصول کی بنا پر‘ لیکن سودہ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا‘ اس لیے کہ حقیقتاً وہ ان کا بھائی نہیں تھا کیونکہ اس کی عتبہ سے واضح مشابہت موجود تھی۔ اس سلسلے میں نبیﷺ کا واضح فرمان بھی موجود ہے کہ اگر میں ظاہری دلائل کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کسی حق میں کردوں تو اس سے وہ چیز اس کے لیے واقعتا حلال نہیں ہوجائے گی بلکہ وہ ایسے سمجھے کہ میں اسے جہنم کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔ اسے وہ نہیں لینا چاہیے۔ (صحیح البخاري‘ الشھادات‘ حدیث: 2680‘ وصحیح مسلم‘ الأقضیة‘ حدیث: 1713)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3514   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3517  
´لونڈی مالک کا بچھونا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما کا زمعہ کے بیٹے کے بارے میں جھگڑا ہو گیا (کہ وہ کس کا ہے اور کون اس کا حقدار ہے) سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب تم مکہ جاؤ تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھو (اور اسے حاصل کر لو) وہ میرا بیٹا ہے۔ چنانچہ عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو میرے باپ کے بستر پر (یعنی اس کی ملکیت میں) پیدا ہوا ہے (اس لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3517]
اردو حاشہ:
باپ کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح بیوی کی اولاد خاوند ہی کی شمار ہوتی ہے‘ اسی طرح لونڈی کی اولاد بھی مالک ہی کی شمار ہوگی بشرطیکہ خاوند یا مالک انکار نہ کرے۔ بیوی بھی فراش ہے لونڈی بھی۔ یہ جمہور کا مسلک ہے۔ احناف لونڈی کو فراش نہیں مانتے۔ اور لونڈی سے بچے کو مالک کا نہیں سمجھتے جب تک وہ دعویٰ نہ کرے۔ لیکن یہ درست نہیں۔ یہ حدیث صراحتاً لونڈی کو فراش ثابت کرتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3517   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2273  
´بچہ صاحب فراش کا ہو گا (یعنی جس کی بیوی یا لونڈی ہو گی بچہ اسی کو ملے گا)۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا جھگڑا لے آئے، سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں تو اس کو لے لوں کیونکہ وہ انہیں کا بیٹا ہے، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، اور میرے والد کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2273]
فوائد ومسائل:

چونکہ یہ معاملات جاہلیت کے تھے اور وہ لوگ اس انداز کے اعمال میں ملوث تھے تو ان بچوں سے بھی کوئی عار نہ سمجھتے تھے مگر اسلام نے یہ قائدہ قانون دیا ہے۔
کہ بچہ بستر والے کا ہوتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بچے کی شکل سے نمایاں تھا کہ یہ ولد الزنا ہےاور عتبہ کا لڑکا ہے مگر قاعدہ اور اصول کو ترجیح دی گئی اور اسے صاحب فراش کے ساتھ ملحق کردیا گیا۔
قانونئ اعتبار سے یہ اگرچہ حضرت سودہ کا بھائی بنا مگر دعوی اور شکل وصورت زانی کے ساتھ ملتی تھی اس لیے اس کا نسب مشتبہ ٹھرا۔
تو نبی ﷺ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو پردے کا حکم دیا کیونکہ اس کا بھائی ہونا مشکوک تھا۔
اگرچہ قاعدے کی رو سے ان کے خاندان کا فرد بنا دیا گیا تھا۔


(وللعاهرِ الحجرُ) کا ایک ترجمہ زانی کے لیے محرومی ہے اس صورت میں جیم پر زبر کے بجائے سکون یعنی جزم آئے گی۔
مطلب دونوں صورتوں میں یہی ہوگا کہ اولاد کا مستحق زانی نہیں ہوگا بلکہ اس کے حصے میں سزا آئے گی۔
حد رجم یا سو کوڑے اور بچے سے وہ محروم ہی رہے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2273   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2004  
´بچے کا حقدار بستر والا (شوہر) ہے اور پتھر کا مستحق زانی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عبد بن زمعہ اور سعد رضی اللہ عنہما دونوں زمعہ کی لونڈی کے بچے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بھائی (عتبہ بن ابی وقاص) نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں، اور اس کو لے لوں، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے، میرے باپ کے بستر پہ پیدا ہوا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچہ کی مشابہت عتبہ سے پائی تو فرمایا: عبد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2004]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دور جاہلیت میں کسی کی لونڈی سے ناجائز تعلق قائم کرنا برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اسلام میں صرف اپنی بیوی اور اپنی مملوکہ سے صنفی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔
باقی ہر قسم کا صنفی تعلق قابل سزا جرم ہے۔ (دیکھئے: سورۃ مومنون، آیت: 5، 6، 7)
جس طرح بیوی سے پیدا ہونے والا لڑکا مرد کا بیٹا ہوتا ہے، اسی طرح اپنی مملوکہ لونڈی سے پیدا ہونے والا لڑکا بھی مرد کا آزاد بیٹا ہوتاہے، غلام نہیں۔

(3)
جاہلیت میں ناجائز تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ اسی شخص کا بیٹا سمجھا جاتا تھا جس کے تعلقات کے نتیجے میں وہ پیدا ہوا۔
جاہلیت کے اسی رواج کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاص، زمعہ کی لونڈی سے پیدا ہونےوالے بچے کو اپنے بھا ئی کا بچہ قرار دیتے ہوئے اسے اپنی کفالت میں رکھنا چاہتے تھے۔

(4)
حضرت عبد بن زمعہ کا موقف یہ تھا کہ وہ بچہ قانونی طور پر ان کا بھائی ہے کیونکہ ان کے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کا حقیقی باپ کوئی بھی ہو۔

(5)
  بچے کی ظاہری شکل و شباہت سے یہی ثابت ہورہا تھا کہ وہ حضرت سعد کے بھائی سے پیدا ہوا ہے لیکن قانونی طور پر وہ حضرت عبد بن زمعہ کا بھائی قرار پایا۔

(6)
چونکہ واضح ہورہاتھا کہ وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا قانونی بھائی ہونے کے باوجود اصل میں بھائی نہیں، اس لیے رسول اللہﷺ نے ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔

(7)
  بعض اوقات ایک مسئلے کے دو پہلو ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے دو مختلف حکم مرتب ہوتےہیں۔
ایک معاملے میں ایک پہلو کو ترجیح دی جاتی ہے اور دوسرے معاملے میں دوسرے پہلو کو، جیسے اس لڑکے کو زمعہ کا بیٹا قرار دیے جانے کے باوجود اس کی بہن حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2004   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:240  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا، نیز اس حدیث میں بیان کردہ، زانی کے لیے پتھر ہیں، یہ حدیث سے صحيح ثابت ہے۔ اس مسئلہ پر تقصیل ایک جگہ گزر چکی ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اختلافی مسئلہ میں مکمل تحقیق کرنی چاہیے۔ کفار سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے نسب کے بارے میں باتیں کرتے تھے، کیونکہ یہ سخت سیاہ تھے، اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ سخت سفید تھے۔ قیافہ شناس اگر ایسی بات کر دے جس کے صحیح ہونے پر ایک قرینہ مل جائے تو اس کی بات مانی جائے گی، اس موقع پر قیافہ شناس کی بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش رہنا اس کی بات کے صحیح ہونے پر دلیل ہے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ضروری نہیں کہ اولاد میں سے تمام بچے اپنے والد میں سے نقش و نگار اور ان کی رنگت پر ہوں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 240   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3613  
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سند سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کرتے ہیں کہ ایک بچے کے بارے میں حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد بن زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جھگڑا کیا۔ حضرت سعد نے کہا، یہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے بھائی کا بیٹا ہے اور میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص نے مجھے یہ تلقین کی تھی کہ یہ میرا بیٹا ہے، آپ اس کی (عتبہ سے) مشابہت پر نظر دوڑا لیں، اور عبد بن زمعہ نے کہا، یہ میرا بھائی ہے۔ اے اللہ کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3613]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
لِلْعَاهِرِالْحَجَرُ:
عربوں کے محاورہ کےمطابق (لَهُ الْحَجَرُ يا بفِيْهِ الْحَجَرُ)
کا معنی ناکامی اور نامرادی ہوتا ہے۔
اور اس حدیث میں یہی معنی مراد ہے،
اگرچہ عام معنی کی رو سے یہ معنی بنتا ہے،
زانی کے لیے پتھر ہیں۔
فوائد ومسائل:
فراش سے مراد وہ عورت ہے جس سے مباشرت کی جائے۔
وہ آزاد ہو یا لونڈی یہ لڑکا جس کے بارے میں اختلاف ہوا۔
اس کا نام عبدالرحمان تھا جو حضر سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد زمعہ کی لونڈی سے تھا۔
جس سے حضرت سعد بن ابی وقاص کے بھائی نے زنا کیا تھا اور اس کے نتیجہ میں یہ بچہ پیدا ہوا تھا۔
اس لیے عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد کو یہ وصیت کی تھی کہ یہ میرا بچہ ہے۔
عتبہ کافر ہی فوت ہو گیا اور فتح مکہ کے وقت حضر ت سعد نے اس بچہ کو بھائی سے مشابہت کی بنا پر پکڑا۔
زمعہ فتح مکہ سے قبل ہی کفر کی حالت میں فوت ہو چکا تھا۔
اوراس کا بیٹا عبد فتح مکہ کے وقت مسلمان ہو گیا تھا۔
اس لیے اس نے حضرت سعد سے جھگڑا کیا کہ یہ تو میرے والد کی مفروشہ لونڈی کا ہے۔
اس لیے میرا بھائی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصول کے مطابق عبد کے حق میں کہا۔
کیونکہ زمعہ نے انکار نہیں کیا تھا اور اس کی مفروشہ لونڈی سے تھا۔
اس لیے اس کا ٹھہرا لیکن چونکہ اس کی مشابہت عتبہ کے ساتھ تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حزم واحتیاط اختیار کرنے کے لیے عبد کی بہن حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:
اس سے پردہ کرو۔
اور عورت مفروشہ تبھی بنتی ہے جب اس سے اس کے شوہر یا مالک نے صحبت کی ہو یا کم از کم صحبت کا امکان ہو۔
اگر صحبت کا امکان نہیں ہے۔
نکاح کے بعد رخصتی نہیں ہوئی اور نہ اس کے ملاپ کا امکان ہے نکاح کے وقت مرد امریکہ میں ہے اور عورت پاکستان میں۔
تو اس کے بعد جب مرد پاکستان آیا نہیں اور عورت امریکہ نہیں گئی لیکن اس کے باوجود عورت کو بچہ پیدا ہو گیا تو وہ بچہ ائمہ ثلاثہ اور جمور علماء کے نزدیک خاوند کا تصور نہیں ہو گا۔
لیکن احناف کے نزدیک چونکہ فراش ہونے کے لیے صرف نکاح ہی کافی ہے۔
اس لیے اگرصحبت کا امکان نہ بھی ہو تو وہ بچہ خاوند کا قرار پائے گا۔
بشرط یہ کہ حمل کا امکان ہو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3613   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2421  
2421. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبد بن زمعہ اور سعد بن ابی وقاص ؓ نے زمعہ کی لونڈی کے بیتے کامقدمہ نبی کریم ﷺ کے حضور پیش کیا۔ حضرت سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ آؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو نگاہ میں رکھوں اور اسے قبضہ میں لے لوں کیونکہ وہ میرا بیٹا ہے۔ عبد بن زمعہ ؓ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ میرے باپ کے بستر پر پیدا ہو ہے۔ نبی کریم ﷺ نے (بچے کی عتبہ سے) واضح مشابہت دیکھی تو فرمایا: اے عبد بن زمعہ!یہ تجھے ملے گا کیونکہ بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو۔ اور اے سودہ!تم اس سے پردہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2421]
حدیث حاشیہ:
حضرت سعد ؓ اپنے کافر بھائی کی طرف سے وصی تھے۔
اس لیے انہوں نے اس کی طرف سے دعویٰ کیا۔
جس میں کچھ اصلیت تھی۔
مگر قانون کی رو سے وہ دعویٰ صحیح نہ تھا۔
کیوں کہ اسلامی قانون یہ ہے الولدُ لِلفِراشِ و لِلعَاهِرِ الحجرُ۔
اس لیے آپ نے ان کا دعویٰ خارج کر دیا۔
مگر اتقوا الشبهات کے تحت حضرت سودہ ؓ کو اس لڑکے سے پردہ کرنے کا حکم فرمادیا۔
بعض دفعہ حاکم کے سامنے کچھ ایسے حقائق آجاتے ہیں کہ ان کو جملہ دلائل سے بالا ہو کر اپنی صوابدید پر فیصلہ کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2421   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2745  
2745. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محتر مہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا فرزند میرے نطفے سے ہے، اسے اپنے قبضے میں لے لینا، چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔ اس کے متعلق میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی۔ تب عبد بن زمعہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یہ تو میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنا جھگڑا لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے اور اس نے مجھے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2745]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ عتبہ نے کہا میرے لڑکے کا خیال رکھو‘ اس کو لے لینا اور سعد ؓنے جو اپنے بھائی کے وصی تھے اس کا دعویٰ کیا۔
اس بچے کا نام عبد الرحمٰن تھا حالانکہ آپ ﷺ نے فیصلہ کردیا کہ وہ زمعہ کا بیٹا ہے تو سودہ کا بھائی ہوا مگر چونکہ اس کی صورت عتبہ سے ملتی تھی اس لئے احتیاطاً حضرت سودہ ؓ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2745   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7182  
7182. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدنا عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کی یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے، تم اسے اپنی پرورش میں لے لینا، چنانچہ فتح مکہ کے دن سیدنا سعد ؓ نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور مجھے میرے بھائی نے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ اس دوران میں عبد بن زمعہ کھڑے ہوئے اور کہا: یہ میرا بھائی ہے میرے والد کی لونڈی کا لڑکا ہے اور انھی کے بستر پر پیدا ہوا ہے چنانچہ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر گئے۔ سیدنا سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور اسی کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عبد بن زمعہ! یہ تمہارا (بھائی) ہے اس کےبعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بچہ بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی بدکار کے لیے تو پتھر ہیں۔ آپ نے سیدہ سودہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7182]
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ! امام بخاری رحمہ اللہ کے باریک فہم پر آفریں۔
انہوں نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ اگر قاضی کی قضا ظاہر اور باطن یعنی عند الناس وعند اللہ دونوں طرح نافذ ہو جاتی جیسے حنفیہ کہتے ہیں تو جب آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بچہ زمعہ کا بیٹا ہے تو سودہ کا بھائی ہو جاتا ہے اور اس وقت آپ سودہ رضی اللہ عنہ کو اس سے پردہ کرنے کا کیوں حکم دیتے۔
جب پردے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ قضائے قاضی سے باطنی اور حقیقی امر نہیں بدلتا گو ظاہر میں وہ سودہ کا بھائی ٹھہرا مگر حقیقتاًعند اللہ بھائی نہ ٹھہرا‘ اسی وجہ سے پردہ کا حکم دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7182   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2218  
2218. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ سعد بن ابی وقاص ؓ اور عبد بن زمعہ ؓ نے ایک لڑکے کے متعلق جھگڑا کیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا لڑکا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔ آپ اس کی شکل وصورت کو ملاحظہ فرمالیں۔ عبد بن زمعہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے بستر پر ان کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اس کی شکل وصو رت دیکھی تو عتبہ سے واضح طور پر ملتی جلتی تھی، پھر آپ نے فرمایا: اے عبد!یہ تیرا (بھائی) ہے۔ لڑکا اس کو ملتا ہے جس کے گھر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ اے سودہ بنت زمعہ! تم اس لڑکے سے پردہ کرو۔ چنانچہ حضرت سودہ ؓ نے پھر اسے کبھی نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2218]
حدیث حاشیہ:
حالانکہ از روئے قاعدہ شرعی آپ نے اس بچہ کو زمعہ کا بیٹا قرار دیا، تو ام المومنین سودہ ؓ اس کی بہن ہو گئیں۔
مگر احتیاطاً ان کو اس بچہ سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
اس لیے کہ ا س کی صورت عتبہ سے ملتی تھی۔
اور گمان غالب ہوتا تھا کہ وہ عتبہ کا بیٹا ہے۔
حدیث سے نکلا کہ شرعی اور باقاعدہ ثبوت کے مقابل مخالف گمان پر کچھ نہیں ہوسکتا۔
باب کی مطابقت اس طرح پر ہے کہ آپ ﷺ نے زمعہ کی ملک مسلم رکھی، حالانکہ زمعہ کافر تھا، اور اس کو اپنی لونڈی پر وہی حق ملا جو مسلمانوں کو ملتا ہے تو کافر کا تصرف بھی اپنی لونڈی غلاموں میں جیسے بیع ہبہ وغیرہ نافذ ہوگا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2218   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2533  
2533. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا اپنے قبضے میں لے لے، عتبہ نے کہا: بلاشبہ وہ میرا بیٹا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے وقت مکہ مکرمہ تشریف لائے تو حضرت سعد ؓ نے زمعہ کی لونڈی کا بیٹا پکڑ لیا اور اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ ان کے ہمراہ عبد بن زمعہ بھی آئے۔ حضرت سعد ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھتیجا ہے۔ بھائی نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کابیٹا ہے۔ عبد بن زمعہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھائی اور زمعہ کا بیٹا ہے، اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھا تو وہ سب لوگوں میں عتبہ کے زیادہ مشابہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ!یہ تیرا (بھائی) ہے کیونکہ وہ ان کے والد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2533]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ام ولد کا ذکر ہے۔
یہاں یہ حدیث لانے کا یہی مطلب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2533   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2218  
2218. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ سعد بن ابی وقاص ؓ اور عبد بن زمعہ ؓ نے ایک لڑکے کے متعلق جھگڑا کیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ بچہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا لڑکا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔ آپ اس کی شکل وصورت کو ملاحظہ فرمالیں۔ عبد بن زمعہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ میرا بھائی ہے۔ میرے باپ کے بستر پر ان کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اس کی شکل وصو رت دیکھی تو عتبہ سے واضح طور پر ملتی جلتی تھی، پھر آپ نے فرمایا: اے عبد!یہ تیرا (بھائی) ہے۔ لڑکا اس کو ملتا ہے جس کے گھر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ اے سودہ بنت زمعہ! تم اس لڑکے سے پردہ کرو۔ چنانچہ حضرت سودہ ؓ نے پھر اسے کبھی نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2218]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس مقدمے میں بات حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی مانی جاتی یا عبد بن زمعہ کی تسلیم کی جاتی دونوں صورتوں میں بیٹا کافروں کا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس مقدمے کی سماعت فرمائی۔
زمعہ کی لونڈی اور اس کی ملکیت کو برقرار رکھا اور اس کا انکار نہ کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مشرک کا اپنی ملکیت میں ہر طرح کا تصرف جائز ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ کفار کا آزاد کرنا معتبر ہے۔
ان کی لونڈیاں اور ان کی جائیداد ان کی ملکیت ہوں گی اور دیگر معاملات میں بھی ان کے حقوق کو تسلیم کیا جائے گا۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ چونکہ یہ لوگ کافر ہیں، اس لیے ان کا کوئی اعتبار نہیں۔
اگر ان سے جنگ کا معاملہ پیش آجائے تو اس کے اصول وضوابط الگ ہیں۔
(3)
قانونی اعتبار سے شکل وصورت کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ اس کا بیٹا تسلیم کیا جائے گا جس کے گھر اس کی پیدائش ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت سودہ ؓ کو احتیاطاً پردے کا حکم دیا کیونکہ اس کی شکل وصورت عتبہ بن ابی وقاص سے ملتی جلتی تھی۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2218   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2421  
2421. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبد بن زمعہ اور سعد بن ابی وقاص ؓ نے زمعہ کی لونڈی کے بیتے کامقدمہ نبی کریم ﷺ کے حضور پیش کیا۔ حضرت سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ آؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو نگاہ میں رکھوں اور اسے قبضہ میں لے لوں کیونکہ وہ میرا بیٹا ہے۔ عبد بن زمعہ ؓ نے کہا: وہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ میرے باپ کے بستر پر پیدا ہو ہے۔ نبی کریم ﷺ نے (بچے کی عتبہ سے) واضح مشابہت دیکھی تو فرمایا: اے عبد بن زمعہ!یہ تجھے ملے گا کیونکہ بچہ اس کا ہوتا ہے جس کے بستر پر پیدا ہو۔ اور اے سودہ!تم اس سے پردہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2421]
حدیث حاشیہ:
(1)
عتبہ بن ابی وقاص بحالت کفر مر چکا تھا، اس نے اپنے بھائی سے ایک دعویٰ کرنے کے متعلق کہا، چنانچہ فتح مکہ کے وقت حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اس کی تعمیل کرتے ہوئے زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
جب عبد بن زمعہ ؓ نے اس کے متعلق جھگڑا کیا تو دونوں مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مرنے والا جس کی وصیت کر جائے وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے دعویٰ کر سکتا ہے، اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔
گویا امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے اس اجماع امت کا ماخذ بیان کیا ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا قیافہ کسی فیصلے کی بنیاد نہیں بن سکتا بلکہ اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے کیونکہ قیافہ کو بنیاد قرار دینے سے بہت سے جھگڑے پیدا ہو سکتے ہیں۔
(فتح الباري: 94/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2421   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2533  
2533. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی تھی کہ وہ زمعہ کی لونڈی کا بیٹا اپنے قبضے میں لے لے، عتبہ نے کہا: بلاشبہ وہ میرا بیٹا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے وقت مکہ مکرمہ تشریف لائے تو حضرت سعد ؓ نے زمعہ کی لونڈی کا بیٹا پکڑ لیا اور اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آئے۔ ان کے ہمراہ عبد بن زمعہ بھی آئے۔ حضرت سعد ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھتیجا ہے۔ بھائی نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کابیٹا ہے۔ عبد بن زمعہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرا بھائی اور زمعہ کا بیٹا ہے، اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو دیکھا تو وہ سب لوگوں میں عتبہ کے زیادہ مشابہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ!یہ تیرا (بھائی) ہے کیونکہ وہ ان کے والد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2533]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ دیا کہ مذکورہ لڑکا عبد بن زمعہ کا بھائی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اس لڑکے کی ماں، یعنی زمعہ کی لونڈی ام ولد ہے۔
اس واقعے میں ام ولد کی آزادی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اسے زمعہ کا فراش قرار دیا گیا ہے۔
اس اعتبار سے وہ اور زمعہ کی بیوی دونوں برابر ہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ اس حدیث سے ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ اگر لونڈی بچے کو جنم دے تو وہ صاحب فراش کا نہیں ہو گا جب تک مالک اس کا اقرار نہ کرے۔
یہ موقف اس حدیث کے خلاف ہے۔
چونکہ اس لڑکے کی مشابہت عتبہ سے ملتی جلتی تھی، اس لیے احتیاط کے طور پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت سودہ ؓ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا بصورت دیگر بھائی سے پردہ کرنا چہ معنی دارد؟
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2533   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2745  
2745. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محتر مہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا فرزند میرے نطفے سے ہے، اسے اپنے قبضے میں لے لینا، چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔ اس کے متعلق میرے بھائی نے مجھے وصیت کی تھی۔ تب عبد بن زمعہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یہ تو میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے جو اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنا جھگڑا لے کر حاضر ہوئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے اور اس نے مجھے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ عبد بن زمعہ نے کہا: یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے۔ رسول اللہ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2745]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا قائم کیا ہوا عنوان دو اجزاء پر مشتمل ہے:
٭ وصیت کرنے والے کا وصی سے اپنے بچے کی نگہداشت کا کہنا۔
٭ وصی کسی قسم کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اپنے بھائی عتبہ کے وصی تھے۔
اس نے حضرت سعد ؓ سے کہا تھا کہ میرے نطفے سے پیدا ہونے والے بچے کی نگہداشت کرنا اور اسے اپنے پاس رکھنا۔
اس سے معلوم ہوا کہ وصیت کرنے والا کسی کو اپنی اولاد کی نگہداشت کے متعلق کہہ سکتا ہے۔
اس میں شرعی طور پر کوئی خرابی نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کا انکار نہیں کیا، نیز وصی کسی کے متعلق یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ فلاں لڑکا فلاں کا بیٹا ہے۔
حضرت سعد ؓ نے اس قسم کا دعویٰ کیا اگرچہ فیصلہ اس کے خلاف ہوا، تاہم دعویٰ کرنے میں شرعی طور پر کوئی خرابی نہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے کتاب الخصومات میں بھی ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب دعوی الوصي للميت)
وصی کا میت کی طرف سے دعویٰ کرنا۔
وہاں بھی ثبوت کے لیے یہی حدیث پیش کی ہے۔
بہرحال اس حدیث سے عنوان کے دونوں جز ثابت ہوتے ہیں۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2745   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6765  
6765. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: سعد بن ابی وقاص اور عبدبن زمعہ ؓ کا ایک لڑکے کے متعلق جھگڑا ہوا۔ سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ لڑکا میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا بیٹا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی وہ اس کا بیٹا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔ آپ اس کی شکل و صورت پر نظر فرمائیں۔ عبد بن زمعہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرا بھائی ہے۔ میرے والد کے بستر پر ان کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لڑکے کی شکل وصورت دیکھی تو اس کی عتبہ سے واضح طور پر مشابہت تھی، چنانچہ آپ نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ! یہ لڑکا آپ کے لیے ہے کیونکہ بچہ بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ اور اسے سودہ بنت زمعہ! تم اس لڑکے سے پردہ کرو۔ چنانچہ پھر اس لڑکے نے حضرت سودہ ؓ کو نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6765]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس لڑکے کے متعلق اپنا بھتیجا ہونے کا دعویٰ کیا جبکہ عبد بن زمعہ نے اس کے متعلق اپنے بھائی ہونے کا دعویٰ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فراش کو بنیاد بنا کر اس بیٹے کا الحاق عبد بن زمعہ سے کر دیا اور واضح مشابہت کی وجہ سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
(2)
بہرحال دعویٰ کرنے سے نسب ثابت نہیں ہوتا، چنانچہ جب کوئی شخص فوت ہو جائے اور ایک بیٹا چھوڑ جائے اور اس کا کوئی دوسرا وارث نہ ہو، پھر بیٹا کسی کے متعلق اقرار کرے کہ فلاں اس کا بھائی ہے تو امام مالک رحمہ اللہ اور اہل کوفہ کے نزدیک اس اقرار سے اس کا نسب ثابت نہیں ہوگا اور نہ اسے وراثت سے حصہ ہی دیا جائے گا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ بیٹا اپنے والد کے قائم مقام ہے، لہٰذا اس کا اقرار ایسا ہے جیسے میت نے زندگی میں اس کا اقرار کیا تھا لیکن پہلا موقف زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ کسی کو اپنا بھائی کہنا باپ کی طرف اس کے بیٹا ہونے کی نسبت کرنا ہے، حالانکہ غیر کی طرف کسی کو منسوب کرنا جائز نہیں۔
ہاں اس کے قرائن موجود ہوں تو دوسری بات ہے۔
اس صورت میں کوئی قرینہ نہیں ہے جس کی بنا پر بھائی کے اقرار سے کسی کو باپ کا بیٹا ثابت کر دیا جائے۔
(عمدة القاري: 47/16)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6765   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7182  
7182. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدنا عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: عتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ؓ کی یہ وصیت کی تھی کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے، تم اسے اپنی پرورش میں لے لینا، چنانچہ فتح مکہ کے دن سیدنا سعد ؓ نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور مجھے میرے بھائی نے اس کے متعلق وصیت کی تھی۔ اس دوران میں عبد بن زمعہ کھڑے ہوئے اور کہا: یہ میرا بھائی ہے میرے والد کی لونڈی کا لڑکا ہے اور انھی کے بستر پر پیدا ہوا ہے چنانچہ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر گئے۔ سیدنا سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور اسی کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عبد بن زمعہ! یہ تمہارا (بھائی) ہے اس کےبعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بچہ بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی بدکار کے لیے تو پتھر ہیں۔ آپ نے سیدہ سودہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7182]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بہت باریک بینی سے اپنے قائم کیے ہوئے عنوان کو ثابت کیا ہے وہ اس طرح کہ اگر قاضی کا فیصلہ ظاہر دونوں طرح نافذ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی بن جاتا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پردے کا حکم نہ دیتے جب پردے کا حکم دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ صرف ظاہری جھگڑا ختم کرنے کے لیے تھا حقیقت اور باطن کو بدلنے کے لیے نہ تھا۔

اگرچہ ظاہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکے کو حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بھائی ٹھرایا لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ان کا بھائی نہیں تھا، اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
اگر یہ فیصلہ باطن میں بھی نافذ العمل ہوتا تو بھائی سے پردے کا حکم نہ دیا جاتا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7182