ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے، کہا مجھ سے ابن جبر نے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دھوتے یا (یہ کہا کہ) جب نہاتے تو ایک صاع سے لے کر پانچ مد تک (پانی استعمال فرماتے تھے) اور جب وضو فرماتے تو ایک مد (پانی) سے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/حدیث: 201]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 201
تشریح: ایک پیمانہ عرب میں رائج تھا جس میں ایک رطل اور تہائی رطل آتا تھا، اسے مد کہا کرتے تھے۔ اس حدیث کی روشنی میں سنت یہ ہے کہ وضو ایک مد پانی سے کم سے نہ کرے اور غسل ایک صاع پانی سے کم سے نہ کرے۔ صاع چار مد کا ہوتا ہے اور ایک رطل اور تہائی رطل کا ہمارے ملک کے وزن سے صاع سوا دو سیر ہوتا ہے اور مد آدھ سیر سے کچھ زیادہ۔ دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وضو میں دو رطل پانی کافی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ باختلاف اشخاص و حالات یہ مقدار مختلف ہوئی ہے۔ پانی میں اسراف کرنا اور بے ضرورت بہانا بہرحال منع ہے۔ بہتر یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تجاوز نہ کیا جائے۔
باب اور روایت کردہ حدیث سے ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وضو اور غسل میں تعیین مقدار کے قائل ہیں۔ ائمہ حنفیہ میں سے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ بھی تعیین مقدار کے قائل اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ہم نوا ہیں۔
علامہ ابن قیم نے اغاثۃ اللہفان میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان وسواس والے لوگوں کا رد کیا ہے جو وضو اور غسل میں مقدار نبوی کو بنظر تخفیف دیکھتے ہوئے تکثیر ماء پر عامل ہوتے ہیں۔ یہ شیطان کا ایک مکر ہے جس میں یہ لوگ بری طرح سے گرفتار ہوئے ہیں اور بجائے ثواب کے مستحق عذاب بنتے ہیں۔ تفصیل کے لیے تہذیب الایمان ترجمہ اغاثۃ اللہفان مطبوعہ بریلی کا ص: 146 ملاحظہ کیا جائے۔
اوپر جس صاع کا ذکر ہوا ہے اسے صاع حجازی کہا جاتا ہے، صاع عراقی جو حنفیہ کا معمول ہے وہ آٹھ رطل اور ہندوستانی حساب سے وہ صاع عراقی تین سیر چھ چھٹانک بنتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں صاع حجازی ہی مروج تھا۔ فخرالمحدثین حضرت علامہ عبدالرحمن صاحب مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں: «والحاصل انه لم يقم دليل صحيح على ماذهب اليه ابوحنيفة من ان المدرطلان ولذلك ترك الامام ابويوسف مذهبه واختار ماذهب اليه جمهور اهل العلم ان المدرطل و ثلث رطل قال البخاري فى صحيحه باب صاع المدينة ومدالنبي صلى الله عليه وسلم وبركته و ماتوارث اهل المدينة من ذلك قرنا بعدقرن انتهي الي آخره.»[تحفة الاحوذي،ج1،ص: 59, 60] خلاصہ یہ کہ مد کے وزن دو رطل ہونے پر جیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے کوئی صحیح دلیل قائم نہیں ہوئی۔ اسی لیے امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اولین شاگرد رشید ہیں، انہوں نے صاع کے بارے میں حنفی مذہب چھوڑ کر جمہور اہل علم کا مذہب اختیار فرما لیا تھا کہ بلاشک مد رطل اور ثلث رطل کا ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جامع الصحیح میں صاع المدینہ اور مد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے باب منعقد کیا ہے اور بتلایا ہے کہ یہی برکت والا صاع تھا جو مدینہ میں بڑوں سے چھوٹوں تک بطور ورثہ کے نقل ہوتا رہا۔ امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ جب مدینہ المنورہ تشریف لائے اور امام دارالہجرۃ امام مالک رحمہ اللہ سے ملاقات فرمائی تو صاع کے بارے میں ذکر چل پڑا۔ جس پر امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے آٹھ رطل والا صاع پیش کیا۔ جسے سن کر امام مالک رحمہ اللہ اپنے گھر تشریف لے گئے اور ایک صاع لے کر آئے اور فرمایاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمولہ صاع یہی ہے۔ جسے وزن کرنے پر پانچ رطل اور ثلث کا پایا گیا۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ نے اسی وقت صاع عراقی سے رجوع فرما کر صاع مدنی کو اپنا مذہب قرار دیا۔
تعجب ہے کہ بعض علماء احناف نے امام ابویوسف رحمہ اللہ کے اس واقعہ کا انکار فرمایا ہے۔ حالانکہ امام بیہقی اور امام ابن خزیمہ اور حاکم نے اسانید صحیحہ کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے کی سب سے بڑی دلیل خود حضرت امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے
جسے علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحفۃ الاحوذی، جلد اول، ص: 60 پر بایں الفاظ نقل فرمایا ہے۔ «واخرج الطحاوي فى شرح الآثار قال حدثنا ابن ابي عمران قال اخبرنا على بن صالح وبشربن الوليد جميعا عن ابي يوسف قال قدمت المدينة فاخرج الي من اثق به صاعافقال هذا صاع النبى صلى الله عليه وسلم فقدرته فوجدته خمسة ارطال وثلث رطل وسمعت اين ابي عمران يقول يقال ان الذى اخرج هذا لابي يوسف هو مالك ابن انس.» یعنی امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ شرح الآثار میں اس واقعہ کو نقل فرمایا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام ابویوسف رحمہ اللہ کے سفر حج کا واقعہ بھی سند صحیح کے ساتھ نقل فرمایا ہے کہ وہ حج کے موقع پر جب مدینہ شریف تشریف لے گئے اور صاع کی تحقیق چاہی تو انصار و مہاجرین کے پچاس بوڑھے اپنے اپنے گھروں سے صاع لے لے کر آئے، ان سب کو وزن کیا گیا تو بخلاف صاع عراقی کے وہ پانچ رطل اور ثلث کا تھا۔ ان جملہ بزرگوں نے بیان کیا کہ یہی صاع ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے ہمارے ہاں مروج ہے جسے سن کر امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے صاع کے بارے میں اہل مدینہ کا مسلک اختیارفرما لیا۔
علمائے احناف نے اس بارے میں جن جن تاویلات سے کام لیا ہے اور جس جس طرح سے صاع حجازی کی تردید و تخفیف کر کے اپنی تقلید جامد کا ثبوت پیش فرمایا ہے۔ وہ بہت ہی قابل افسوس ہے۔ آئندہ کسی موقع پر اور تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی۔ «ان شاءالله»
الحمد للہ کہ عصر حاضرمیں بھی اکابر علمائے حدیث کے ہاں صاع حجازی مع سند موجود ہے۔ جسے وہ بوقت فراغت اپنے ارشد تلامذہ کو سند صحیح کے ساتھ روایت کرنے کی اجازت دیا کرتے ہیں۔ ہمارے شیخ مرحوم حضرت مولانا ابومحمد عبدالجبار صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم شکراوہ کے پاس بھی اس صاع کی نقل بسند صحیح موجود ہے۔ «والحمدلله على ذلك»
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 201
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:201
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہےکہ پانی پیالے میں ہو یا طشت میں یا کسی بھی برتن میں، لیکن اس کی مقدار کتنی ہونی چاہیے جو وضو کے لیے کافی ہو، آپ نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ وضو کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا عام معمول تھا کہ ایک مُد پانی سے وضو فرما لیتے تھے، یعنی اکثر طور پر وضو کے لیے پانی کی اتنی مقدارکفایت کرجاتی ہے۔ اسراف سے اجتناب کرتے ہوئے اس سے کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے ایک مُد سے بھی کم پانی سے وضو کرنا ثابت ہے۔ چنانچہ حضرت ام عمارہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن لایاگیا جس میں دو تہائی مد کے برابر پانی تھا۔ آپ نے اس سے وضو فرمایا۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 94) واضح رہے کہ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق صاع کا وزن 2 کلو100 گرام ہے۔ اجناس کے اعتبار سے اس وزن میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ صاع کے متعلق جدید اعشاری نظام کے مطابق اس کا ٹھیک ٹھیک وزن ہم صدقۃ الفطر کے ابواب میں بیان کریں گے۔ وضو اورغسل کے لیے اشخاص و حالات کے پیش نظر پانی کی مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔ بہرصورت اس میں اسراف کرنا اور بلاضرورت پانی بہانا درست نہیں، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شروع کتاب میں لکھا ہے کہ اہل علم نے وضو میں اسراف کو ناپسند فرمایا ہے اور اس امر کوبھی مکروہ قراردیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تجاوز کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو اور غسل کے متعلق جو مقداریں مروی ہیں، وہ سب تقریبی ہیں تجدید نہیں، البتہ اصلاحی صاحب کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ مد دو کلو کے لگ بھگ ہے۔ (تدبر حدیث 299/1) کیونکہ ایک مد میں 1۔ 33 رطل ہوتے ہیں۔ ایک رطل نوے مثقال کا ہوتا ہے۔ گویا ایک مد میں ایک سو بیس مثقال ہوئے ایک مثقال ساڑھے چار ماشے کا ہوتا ہے اس طرح ایک مد کے 540 ماشے ہوتے ہیں چونکہ ایک تولہ میں بارہ ماشے ہوتے ہیں لہذا بارہ پر تقسیم کرنے سے 45 تولے وزن بنتاہے۔ جو ایک چھٹانک پانچ تولے ہوتے ہیں، اس لیے اس کا وزن 9 چھٹانک بنتا ہے۔ جدید اعشاری نظام کے مطابق 525 گرام وزن بننا ہے۔ اصلاحی صاحب کی حساب دانی ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، کیونکہ مد کسی صورت میں دو کلو کے لگ بھگ نہیں بنتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 201
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 51
´ضرورت سے زائد پانی استعمال کرنا اسراف میں شمار ہو گا` «. . . كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يتوضا بالمد، ويغتسل بالصاع إلى خمسة امداد . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ”مد“ پانی سے وضو اور ”صاع“(یعنی چار) سے پانچ ”مد“ تک پانی سے غسل کر لیا کرتے تھے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 51]
� لغوی تشریح: «اَلصَّاع» چار مد کا ہوتا ہے اور مد ایک رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے۔ صاع موجودہ زمانے کے پیمانے کے حساب سے تقریباً تین لیٹر دو سو ملی لیٹر کا ہوتا ہے۔ حدیث سے ظاہری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عموماً غسل کے لیے چار یا پانچ مد پانی استعمال فرماتے تھے۔
فوائد ومسائل: ➊ وضو اور غسل کے لیے حتی الوسع اتنا ہی پانی استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جتنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ بلاوجہ ضرورت سے زائد پانی استعمال کرنا اسراف میں شمار ہو گا جو شریعت کی رو سے پسندیدہ نہیں ہے۔ ➋ صحیح مسلم میں ایک ”فرق“ پانی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کرنے کی روایت بھی منقول ہے۔ [صحيح مسلم، الحيض، باب القدر المستحب من الماء فى غسل الجنابة . . .، حديث: 319]”فرق“ ایک برتن ہوتا تھا جس میں تقریباً نو لیٹر اور چھ ملی لیٹر پانی آتا تھا۔ اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ لبالب بھرا ہوا تھا بلکہ ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک ”فرق“ سے غسل فرما لیا کرتے تھے۔ ➌ اسی بنا پر امام شافعی اور امام aحمد رحمہما اللہ نے فرمایا ہے کہ ان احادیث میں پانی کی مقدار متعین نہیں کی گئی بلکہ یہ ذکر کرنا مقصود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے پانی سے وضو یا غسل کر لیا کرتے تھے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 51
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 95
´وضو کے لیے کتنا پانی کافی ہے؟` «. . . عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ بِإِنَاءٍ يَسَعُ رَطْلَيْنِ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ . . .» ”. . . انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے برتن سے وضو کرتے تھے جس میں دو رطل پانی آتا تھا، اور ایک صاع پانی سے غسل کرتے تھے۔ . . .“[سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 95]
فوائد ومسائل: ➊ پانی کی مذکورہ مقدار تحدید کے لیے نہیں بلکہ کفایت و ترغیب کے لیے ہے اور اشارہ ہے کہ پانی کم از کم استعمال کرنا چاہئیے، بےجا استعمال اور ضیاع ناجائز ہے۔ ➋ صاع اور مد چیزوں کے بھرنے کے پیمانے ہیں۔ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں اور مختلف ادوار میں ان کا پیمانہ مختلف ہوتا رہا ہے۔ موجودہ پیمانے کے معیار سے مدنی صاع کی مقدار تین لیٹر دو سو ملی لیٹر، اور ایک مد کی مقدار آٹھ سو ملی لیٹر بنتی ہے۔
ملحوظ: دور نبوی کا مد، جس کا آخری باب میں ذکر آیا ہے، اس کا ایک نمونہ راقم مترجم کو اپنے والد گرامی مولانا ابوسعید عبدالعزیز سعیدی رحمہ اللہ سے وراثت میں ملا ہے جس کی سند تعدیل و مماثلت حضرت مولانا احمداللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ سے سترہ واسطوں سےحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تک پہنچی ہے۔ یہ دین اسلام کی حقانیت کی ایک ادنیٰ دلیل ہے کہ اس کے اصول تاحال محفوظ ہیں۔ «الحمد لله على ذلك» شرعی پیمانوں میں حرمین کے پیمانے ہی معتبر ہیں جیسے کہ سنن ابی داؤد كي حدیث:3340 میں ہے کہ «الوزن وزن أهل مكة والمكيال مكيال أهل المدينة»”یعنی وزن اہل مکہ کا معتبر ہے اور بھرنے کا ماپ اہل مدینہ کا۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 95
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 73
´پانی کی مقدار جو آدمی کے وضو کے لیے کافی ہے۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مکوک پانی سے وضو اور پانچ مکوک سے غسل فرماتے تھے۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 73]
73۔ اردو حاشیہ: ➊ مقصود یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس مذکورہ مقدار میں پانی ہے، تو وہ تیمم نہیں کر سکتا۔ یہ مطلب نہیں کہ اس مقدار سے کم و بیش سے وضو اور غسل نہیں کیا جا سکتا۔ ➋ «مکوک» ایک پیمانہ ہے جس کی تفسیر ایک دوسری حدیث میں مد سے کی گئی ہے۔ برتن کی صورت میں اس میں ہر چیز کی مقدار مختلف ہوتی ہے، مگر وزن کی صورت میں یہ نصف کلو سے کچھ زیادہ ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 73
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 230
´کتنا پانی آدمی کے غسل کے لیے کافی ہو گا؟` عبداللہ بن جبر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک «مکوک» سے وضو کرتے اور پانچ «مکاکی» سے غسل کرتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 230]
230۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث بعینہ گزر چکی ہے۔ دیکھیے سنن نسائی فوائد حدیث: [73] ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 230
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 736
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ۵ مکوک سے غسل فرماتے اور ایک مکوک سے وضو فرماتے۔ ابن مثنیٰ نے مکاکیک کی جگہ مکاکی لفظ بولا، مکوک کا وزن ایک مد سے زیادہ ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:736]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: مختلف روایات میں نہانے کے پانی اور وضو کے پانی کے لیے مختلف اوقات میں مختلف برتنوں کا ذکر آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے۔ ضرورت اور احوال ظروف کے مطابق پانی میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ بلاضرورت پانی کا زیادہ استعمال درست نہیں ہے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے مکوک سے مراد مد لیا ہے۔ کیونکہ اگلی روایت میں آ رہا ہے کہ آپﷺ مد سے وضو کرتے اور ایک صاع سے پانچ مد تک غسل فرماتے۔