ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز ابن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ہاد نے، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے، صوم وصال نہ رکھو۔ اور اگر کسی کا ارادہ ہی وصال کا ہو تو سحری کے وقت تک وصال کر لے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی، یا رسول اللہ! آپ تو وصال کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ رات کے وقت ایک کھلانے والا مجھے کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا مجھے پلاتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 1967]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1967
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ ﷺ نے پہلے مطلق طور پر وصال سے منع فرمایا، پھر آپ نے صبح تک وصال کرنے کی اجازت دی، اس سے صبح تک وصال کا روزہ رکھنے کا جواز ملتا ہے لیکن صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح تک وصال کا روزہ رکھتے تھے، آپ کے صحابۂ کرام ؓ نے بھی جب صبح تک وصال کا روزہ رکھنا چاہا تو آپ نے انہیں منع فرما دیا تو کسی نے کہا: اللہ کے رسول! آپ تو ایسا روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ مجھے کھلا پلا دیتا ہے۔ “(صحیح ابن خزیمة: 281/3)(2) یہ حدیث ظاہری طور پر امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث ابو سعید ؓ کے معارض ہے کیونکہ صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے مطابق صبح تک وصال کا روزہ رکھنے کی ممانعت ہے جبکہ امام بخاری ؒ کی روایت سے جواز معلوم ہوتا ہے۔ محدثین نے حدیث ابو ہریرہ ؓ جو صحیح ابن خزیمہ میں ہے اسے شاذ قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 266/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1967
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2361
´صوم وصال (مسلسل روزے رکھنے) کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم صوم وصال نہ رکھو، اگر تم میں سے کوئی صوم وصال رکھنا چاہے تو سحری کے وقت تک رکھے۔“ لوگوں نے کہا: آپ تو رکھتے ہیں؟ فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں، کیونکہ مجھے کھلانے پلانے والا کھلاتا پلاتا رہتا ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2361]
فوائد ومسائل: بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ ہی کھلانے پلانے والا ہے۔ اور وہ غذا یقینا روحانی ہو گی۔ اگر کوئی امتی وصال کرنا چاہتا ہے، تو سحر تک کر لے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2361
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1963
1963. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”لوگو! تم وصال کے روزے نہ رکھو۔ جب تم میں سے کوئی وصال کا روزہ رکھنا چاہے تو صبح تک کرے، اس سے زیادہ نہ کرے۔“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ تو متواتر روزے رکھتے ہیں؟آپ نے فرمایا: ”میں تمہارے جیسا نہیں ہوں، میں رات گزارتا ہوں تو مجھے کھلانے والا کھلاتا ہے اور پلانے والا پلاتاہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1963]
حدیث حاشیہ: ابن ابی حاتم نے سند صحیح کے ساتھ بشیر بن خصاصیہ کی عورت سے نقل کیا کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ دو دن و رات کا متواتر روزہ رکھوں مگر میرے خاوند بشیر نے مجھ کو اس سے منع فرمایا اور یہ حدیث سنائی کہ رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا اور اس کو فعل نصاریٰ بتلایا اور فرمایاہے کہ اسی طرح روزہ رکھو جس طرح تم کو اللہ نے اس کے لیے حکم فرمایا ہے۔ رات آنے تک روزہ رکھو رات ہونے پر فوراً روزہ افطار کرلو۔ احادیث میں آنحضرت ﷺ کے صوم وصال کا ذکر ہے یہ آپ ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔ اسی تطبیق کو ترجیح حاصل ہے، اللہ پاک مجھے کھلاتا پلاتا ہے اس سے روحانی اکل و شرب مراد ہے۔ تفصیل مزید کے لیے اہل علم فتح الباری کا یہ مقام ملاحظہ فرمائیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1963