ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے، جب سورج غروب ہوا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول، انہوں نے کہا یا رسول اللہ! تھوڑی دیر اور ٹھہرئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول انہوں نے پھر یہی کہا کہ یا رسول اللہ! ابھی تو دن باقی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اتر کر ستو ہمارے لیے گھول، چنانچہ انہوں نے اتر کر ستو گھولا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات کی تاریکی ادھر سے آ گئی تو روزہ دار کو روزہ افطار کر لینا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 1956]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1956
حدیث حاشیہ: حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ ستو پانی سے گھولے گئے تھے اور اس وقت یہی حاضر تھا تو پانی وغیرہ ماحضر سے روزہ کھولنا ثابت ہوا۔ ترمذی نے مرفوعاً نکالا کہ کھجور سے روزہ افطار کرے اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے۔ (وحیدی) حضرت مسدد بن مسرہد امام بخاری کے جلیل القدر اساتذہ میں سے ہیں اور جامع الصحیح میں ان سے بکثرت روایات ہیں۔ یہ بصرہ کے باشندے تھے۔ حماد بن زید اور ابوعوانہ وغیرہ سے حدیث کی سماعت فرمائی۔ ان سے امام بخاری ؒ کے علاوہ اور بھی بہت سے محدثین نے روایت کی ہے۔ 228ھ میں انتقال ہوا۔ رحمهم اللہ تعالیٰ علیهم أجمعین (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1956
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1956
حدیث حاشیہ: (1) ستو چونکہ پانی میں تیار کیے جاتے ہیں اور اس وقت یہی کچھ موجود تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں تیار کرنے کا حکم دیا۔ امام بخاری ؒ نے اسی سے عنوان ثابت کیا ہے۔ اس کے علاوہ ترمذی میں ہے کہ روزے دار کو چاہیے کہ وہ کھجور سے روزہ افطار کرے اور اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے روزہ کھول لے۔ (سنن الترمذي، الصیام، حدیث: 694)(2) چونکہ افطاری کے وقت روزے دار کی دعا قبول ہوتی ہے، اس لیے مندرجہ ذیل دعا پڑھنا مسنون ہے: (ذهب الظمأُ وابتلتِ العروقُ وثبت الأجرُ إن شاءالله) ”پیاس ختم ہو گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور اللہ کے ہاں اجر، ان شاءاللہ، ثابت ہو گیا۔ “(سنن أبي داود، الصیام، حدیث: 2357)(3) واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مخاطب حضرت بلال ؓ تھے جیسا کہ ابوداود کی روایت میں صراحت ہے۔ (سنن أبي داود، الصیام، حدیث: 2352) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانی کا بندوبست کرنے والے کو بلایا، رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ خدمت سرانجام دینے والے حضرت بلال ؓ ہیں جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ (4) اس حدیث سے اظہار خیال کی آزادی ثابت ہوتی ہے اگرچہ وہ خیال امر واقعہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اس لیے ہر شخص کو اپنے اظہار خیال کا حق ہے مگر جب وہ غلط ثابت ہو جائے تو حق کو تسلیم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1956
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2352
´روزہ افطار کرنے کے وقت کا بیان۔` سلیمان شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے آپ روزے سے تھے، جب سورج غروب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال! (سواری سے) اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو“، بلال رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر اور شام ہو جانے دیں تو بہتر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو“، بلال رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: اللہ کے رسول! ابھی تو دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اترو، اور ہمارے لیے ستو گھولو“، چنانچہ وہ اترے اور ستو گ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2352]
فوائد ومسائل: (1) سورج غروب ہوتے ہی افطار کا وقت ہو جاتا ہے۔ بعد از غروب انتظار یا احتیاط کے کوئی معنی نہیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا تعمیل ارشاد نبوی میں تردد فضا میں سفیدی وغیرہ کی وجہ سے تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ سورج شاید کسی پہاڑ وغیرہ کی اوٹ میں ہے۔ حالانکہ فی الواقع سورج غروب ہو چکا تھا جیسا کہ راوی حدیث نے بیان کیا۔
(2) اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ بعض اوقات ظاہر امور کی وضاحت کروا لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا، تاکہ امکانی شبہے کا ازالہ ہو جائے۔
(3) نیز صاحب علم کو یاد دلانا کوئی معیوب بات نہیں نہ یہ سوء ادبی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2352
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2560
حضرت عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب سورج غروب ہو گیا تو آپﷺ نےایک آدمی سے کہا: ”اتر کر ہمارے لیے ستو تیار کر۔“ تو اس نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اے کاش آپﷺ شام کریں۔ آپﷺ نے فرمایا: ”اتر کر ہمارے لیے ستو گھول۔“ اس نے کہا: ابھی ہمارے سر پردن باقی ہے پھر وہ اترا اور آپﷺ کے لیے ستو بھگوئے تو آپﷺ نے پیے پھر آپﷺ نے فرمایا: ”جب تم دیکھو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:2560]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: چونکہ غروب افتاب کے بعد شفق کی سرخی اور روشنی کے کچھ آثارباقی ہوتے ہیں اس لیے اس صحابی نے یہ سمجھا کہ افطار کا وقت ان آثار کے ختم ہونے کے بعد ہو گا کیونکہ یہ اس کے خیال میں دن کا حصہ ہے اس لیے اس نے خیال کیا شاید آپ کی نظر ان آثارپر نہیں ہے۔ آپ کو آگاہ کرنے کی خاطر عرض کیا ابھی دن باقی ہے شام نہیں ہوئی۔ تو آپ نے سب ساتھیوں کی آگاہی کے لیے فرمایا کہ روزہ کھولنے کا تعلق اور مدار غروب آفتاب پر ہے کیونکہ اسی سے دن انتہا کو پہنچ جاتا ہے لہٰذا روزے دار کو غروب شمس کے ساتھ ہی روزہ کھول دینا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2560
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1941
1941. حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ (شام کے وقت) آپ نے ایک شخص سے فرمایا: ”اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔“ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ابھی تو آفتاب کی روشنی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اتر کر میرے لیے ستو گھول۔“ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!ابھی تک سورج کی روشنی باقی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔“ چنانچہ وہ اترا اور آپ کے لیے ستو تیار کیے۔ آپ نے انھیں نوش کیا۔ پھر اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ”جب ادھر سے رات کا اندھیرا شروع ہوجائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرنا چاہیے۔“ جریر اور ابو بکر عیاش نے ابو اسحاق سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ وہ ابن ابی اوفیٰ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1941]
حدیث حاشیہ: حدیث اور باب میں مطابقت ظا ہر ہے، روزہ کھولتے وقت اس دعا کا پڑھنا سنت ہے اللهم لكَ صُمتُ و علی رزقكَ أفطرتُ یعنی یا اللہ! میں نے یہ روزہ تیری رضا کے لیے رکھا تھا اور اب تیرے ہی رزق پر اسے کھولا ہے۔ اس کے بعد یہ کلما ت پڑھے ذهبَ الظمأُ و ابتلتِ العروقُ و ثبت الأجر إن شاءاللہ یعنی اللہ کا شکر ہے کہ روزہ کھولنے سے پیاس دور ہو گئی اور رگیں سیراب ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو اس کے پاس اس کا ثواب عظیم لکھا گیا۔ حدیث للصائم فرحتان الخ یعنی روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں پر حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں کہ پہلی خوشی طبعی ہے اور رمضان کے روزہ افطار کرنے سے نفس کو جس چیز کی خواہش تھی وہ مل جاتی ہے اور دوسری روحانی فرحت ہے اس واسطے کہ روزہ کی وجہ سے روزہ دار حجاب جسمانی سے علیحدہ ہونے اور عالم بالا سے علم الیقین کا فیضان ہونے کے بعد تقدس کے آثار ظاہر ہونے کے قابل ہوجاتاہے، جس طرح نماز کے سبب سے تجلی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔ (حجة اللہ البالغة)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1941
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1958
1958. حضرت ابن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے روزہ رکھا۔ جب شام ہوئی تو ایک شخص سے فرمایا: ”اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔“ اس نے عرض کیا: اگر آپ شام تک انتظار کرتے تو بہتر ہوتا۔ آپ نے فرمایا: ”اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔ جب تو دیکھے کہ رات ادھر سے آگئی ہے تو روزہ دار کو افطار کردینا چاہیے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1958]
حدیث حاشیہ: یا روزہ کھل گیا۔ بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ جب افطار کا وقت آجائے تو خود بخود روزہ کھل جاتا ہے گو افطار نہ کرے۔ ہم کہتے ہیں کہ اس حدیث سے ان کا رد ہوتا ہے کیوں کہ اگر وقت آنے سے روزہ خود بخود کھل جاتا تو آنحضرت ﷺ ستو گھولنے کے لیے کیوں جلدی فرماتے۔ اسی طرح دوسری حدیثوں میں روزہ جلدی کھولنے کی ترغیب کیوں دیتے۔ اور اگر وقت آنے سے روزہ خود بخود ختم ہوجاتا تو پھر طے کے روزے سے کیوں منع فرماتے۔ یہی حدیث پیچھے اسحاق واسطی کی سند سے بھی گذر چکی ہے آپ ﷺ نے جس کو ستو گھولنے کا حکم فرمایا تھا وہ حضرت بلال ؓ تھے۔ جنہوں نے روشنی دیکھ کر خیال کیا کہ ابھی سورج غروب ہونے میں کسر ہے، اسی لیے انہوں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے ایسا عرض کیا۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں و فیه تذکرة العالم بما یخشی أن یکون نسیه و ترك المراجعة له بعد ثلاث یعنی اس حدیث میں واقعہ مذکورہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی عالم کو ایک عامی بھی تین بار یاد دہانی کراسکتا ہے۔ اگر یہ گمان ہو کہ عالم سے بھول ہو گئی ہے، جیسا کہ حضرت بلال ؓ نے اپنے خیال کے مطابق آنحضرت ﷺ کو تین مرتبہ یاد دہانی کرائی، مگر چوں کہ حضرت بلال ؓ کا خیال صحیح نہ تھا۔ لہٰذا آخر میں آنحضرت ﷺ نے ان کو مسئلہ کی حقیقت سے آگاہ فرمایا اور انہوں نے ارشاد گرامی کی تعمیل کی، معلوم ہوا کہ وقت ہو جانے پر روزہ کھولنے میں پس و پیش کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1958
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1941
1941. حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ (شام کے وقت) آپ نے ایک شخص سے فرمایا: ”اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔“ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ابھی تو آفتاب کی روشنی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اتر کر میرے لیے ستو گھول۔“ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!ابھی تک سورج کی روشنی باقی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔“ چنانچہ وہ اترا اور آپ کے لیے ستو تیار کیے۔ آپ نے انھیں نوش کیا۔ پھر اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ”جب ادھر سے رات کا اندھیرا شروع ہوجائے تو روزہ دار کو روزہ افطار کرنا چاہیے۔“ جریر اور ابو بکر عیاش نے ابو اسحاق سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ وہ ابن ابی اوفیٰ ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1941]
حدیث حاشیہ: (1) دوران سفر میں روزہ رکھنے کے متعلق مختلف آراء ہیں: ظاہری حضرات کا خیال ہے کہ سفر میں روزہ چھوڑنا واجب ہے۔ اگر کوئی دوران سفر میں روزہ رکھے گا تو اسے کوئی اجروثواب نہیں ملے گا، جبکہ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ سفر میں روزہ رکھنا اور چھوڑنا دونوں برابر ہیں، ان میں کوئی بھی افضل نہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ دونوں صورتوں میں جو آسان ہو اسے اختیار کر لینا چاہیے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا ہے، اس لیے ہمارے نزدیک روزہ رکھنا افضل ہے اور نہ رکھنا رخصت ہے بشرطیکہ روزہ رکھنے میں کوئی دشواری یا مشقت نہ ہو اور نہ فخر و غرور میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہی ہو۔ (2) جو شخص رخصت قبول کرنے سے اعراض کرتا ہو یا اس کے لیے روزہ نقصان دہ ہو تو اس کے لیے روزہ چھوڑ دینا بہتر ہے۔ (3) صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے کہ مذکورہ سفر ماہ رمضان میں تھا (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2559(1101) اور رمضان میں سفر غزوۂ بدر یا فتح مکہ کے وقت ہوا ہے۔ حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ غزوۂ بدر میں شریک نہیں تھے، اس لیے یہ سفر فتح مکہ کے وقت ہی تھا۔ واللہ أعلم۔ (عمدةالقاري: 131/8)(4) سورج غروب ہو چکا تھا لیکن اس کے آثار ابھی باقی تھے، اس بنا پر صحابی نے گمان کیا کہ سورج ابھی غروب نہیں ہوا، اس لیے انہوں نے دوبارہ، سہ بارہ اپنا سوال دہرایا، اس کا بار بار تکرار کسی مفاد کی وجہ سے نہیں تھا۔ واضح رہے کہ یہ صحابئ رسول حضرت بلال ؓ تھے۔ (عمدةالقاري: 131/8)(5) حضرت جریر کی متابعت امام بخاری ؒ نے خود بیان کی ہے۔ (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5297) نیز ابوبکر بن عیاش کی متابعت بھی امام بخاری نے ذکر کی ہے۔ (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1958)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1941
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1958
1958. حضرت ابن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ آپ نے روزہ رکھا۔ جب شام ہوئی تو ایک شخص سے فرمایا: ”اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔“ اس نے عرض کیا: اگر آپ شام تک انتظار کرتے تو بہتر ہوتا۔ آپ نے فرمایا: ”اتر کر میرے لیے ستو تیار کر۔ جب تو دیکھے کہ رات ادھر سے آگئی ہے تو روزہ دار کو افطار کردینا چاہیے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1958]
حدیث حاشیہ: : (1) غروب آفتاب کے بعد جب مشرقی افق پر سیاہی آ جائے تو روزے دار کو روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ (2) ہمارے دور میں شیعہ اور روافض روزہ افطار کرنے کے لیے ستاروں کے چمکنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے عمل کو خیروبرکت سے خالی قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا واضح فرمان ہے کہ میری امت کے لوگ اس وقت تک میرے طریقے پر گامزن رہیں گے جب تک افطاری کرنے میں ستاروں کے چمکنے کا انتظار نہیں کریں گے۔ (صحیح ابن حبان: 278/6) اس بنا پر روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ (3) روزہ افطار کرتے وقت مندرجہ ذیل دعا پڑھنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں: (اللهم إني لك صُمتُ وبك آمنت وعليكَ توكلتُ وعلی رزقكَ أفطرتُ) روزہ افطار کرتے وقت مسنون دعا کا اہتمام کرنا چاہیے جسے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1958