اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ان کو متفرق دنوں میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم صرف یہ ہے کہ ”گنتی پوری کر لو دوسرے دنوں میں۔“ اور سعید بن مسیب نے کہا کہ (ذی الحجہ کے) دس روزے اس شخص کے لیے جس پر رمضان کے روزے واجب ہوں (اور ان کی قضاء ابھی تک نہ کی ہو) رکھنے بہتر نہیں ہیں بلکہ رمضان کی قضاء پہلے کرنی چاہئے اور ابراہیم نخعی نے کہا کہ اگر کسی نے کوتاہی کی (رمضان کی قضاء میں) اور دوسرا رمضان بھی آ گیا تو دونوں کے روزے رکھے اور اس پر فدیہ واجب نہیں۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مرسلاً ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ وہ (مسکینوں) کو کھانا بھی کھلائے۔ اللہ تعالیٰ نے کھانا کھلانے کا (قرآن میں) ذکر نہیں کیا بلکہ اتنا ہی فرمایا کہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کی جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: Q1950]
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فرماتیں کہ رمضان کا روزہ مجھ سے چھوٹ جاتا۔ شعبان سے پہلے اس کی قضاء کی توفیق نہ ہوتی۔ یحییٰ نے کہا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 1950]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1950
حدیث حاشیہ: یہاں جو قول ابراہیم نخعی کا اوپر مذکور ہوا ہے اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا مگر جمہور صحابہ ؓ اور تابعین سے یہ مروی ہے کہ اگر کسی نے رمضان کی قضا نہ رکھی یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا تو وہ قضا بھی رکھے اور ہر روزے کے بدلے فدیہ بھی دے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے جمہور کے خلاف ابراہیم نخعی کے قول پر عمل کیا اور فدیہ دینا ضروری نہیں رکھا، ابن عمر ؓ سے ایک شاذ روایت یہ بھی ہے کہ اگر رمضان کی قضا نہ رکھے اور دوسرا رمضان آن پہنچا تو دوسرے رمضان کے روزے رکھے اور پہلے رمضان کے ہر روزے کے بدل فدیہ دے اور روزہ رکھنا ضروری نہیں، اس کو عبدالرزاق اور ابن منذر نے نکالا۔ یحییٰ بن سعید نے کہا حضرت عمر ؓ سے اس کے خلاف مروی ہے اور قتادہ سے یہ منقول ہے کہ جس نے رمضان کی قضا میں افطار کر ڈالا تو وہ ایک روزہ کے بدلے دو روزے رکھے۔ اب جمہور علماءکے نزدیک رمضان کی قضا پے در پے رکھنا ضروری نہیں الگ الگ بھی رکھ سکتا ہے، یعنی متفرق طور سے اور ابن منذر نے حضرت علی ؓ اور حضرت عائشہ ؓ سے نقل کیا کہ پے در پے رکھنا واجب ہے، بعض اہل ظاہر کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ یہ آیت اتری تھی فعدة من أیام أخر متتابعات ابن أبي کعب کی بھی قرات یوں ہی ہے۔ (وحیدی) مگر اب قرات مشہورہ میں یہ لفظ نہیں ہیں اور اب اسی قرات کو ترجیح حاصل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1950
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1950
حدیث حاشیہ: (1) رمضان کے فوت شدہ روزے فورا رکھنے چاہئیں یا انہیں مہلت ملنے پر اٹھا رکھنا چاہیے، نیز وہ مسلسل رکھے جائیں یا متفرق طور پر رکھے جا سکتے ہیں؟ امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا، البتہ پیش کردہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ متفرق حکم ہے کہ انہیں دوسرے دنوں میں رکھ لیا جائے۔ اس میں مزید کوئی شرط نہیں۔ (2) بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اگر رمضان آنے تک پہلے رمضان کے فوت شدہ روزے نہ رکھے جائیں تو دوسرے رمضان کے بعد فوت شدہ روزوں کے ساتھ فدیے کے طور پر مساکین کو کھانا بھی کھلایا جائے لیکن امام بخاری ؒ فرماتے ہیں: قرآن کریم میں صرف دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنے کا ذکر ہے، اس میں کھانے وغیرہ کی پابندی نہیں ہے۔ ہمارا رجحان حضرت ابراہیم نخعی کے موقف کی طرف ہے کہ جب دوسرا رمضان آ جائے تو اس کے گزر جانے کے بعد پہلے رمضان کے فوت شدہ روزے رکھے جائیں اور اس پر کوئی فدیہ وغیرہ نہیں۔ واللہ أعلم۔ (3) واضح رہے کہ حدیث کے آخر میں حضرت عائشہ ؓ سے متعلق مشغولیت کا ذکر راوئ حدیث حضرت یحییٰ کا قول ہے۔ اس قسم کے الفاظ کو مدرج کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے واقعاتی اعتبار سے انہیں کمزور قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 243/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1950