ابن عمر اور سلمہ بن اکوع نے کہا کہ اس آیت کو اس کے بعد والی آیت نے منسوخ کر دیا جو یہ ہے ”رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا لوگوں کے لیے ہدایت بن کر اور راہ یابی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کے روشن دلائل کے ساتھ، پس جو شخص بھی تم میں سے اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا مسافر تو اس کو چھوڑے ہوئے روزوں کی گنتی بعد میں پوری کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ تعالیٰ کی اس بات پر بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم احسان مانو، ابن نمیر نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی لیلیٰ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ رمضان میں (جب روزے کا حکم) نازل ہوا تو بہت سے لوگوں پر بڑا دشوار گزرا، چنانچہ بہت سے لوگ جو روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلا سکتے تھے انہوں نے روزے چھوڑ دیئے حالانکہ ان میں روزے رکھنے کی طاقت تھی، بات یہ تھی کہ انہیں اس کی اجازت بھی دے دی گئی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ پھر اس اجازت کو دوسری آیت «وأن تصوموا خير لكم» الخ یعنی ”تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم روزے رکھو“ نے منسوخ کر دیا اور اس طرح لوگوں کو روزے رکھنے کا حکم ہو گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: Q1949]
ہم سے عیاش نے بیان کیا، ان سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (آیت مذکور بالا) «فديه طعام مسكين» پڑھی اور فرمایا یہ منسوخ ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 1949]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1949
حدیث حاشیہ: پورا ترجمہ آیت کا یوں ہے ”اور جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں، لیکن روزہ رکھنا نہیں چاہتے وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، پھر جو شخص خوشی سے زیادہ آدمیوں کو کھلائے تو اس کے لیے بہتر ہے اور اگر تم روزہ رکھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو۔ رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اترا جو لوگوں کو دین کی سچی راہ سمجھاتا ہے اور اس میں کھلی کھلی ہدایت کی باتیں اور صحیح کو غلط سے جدا کرنے کی دلیلیں موجود ہیں، پھر اے مسلمانو! تم میں سے جو کوئی رمضان کا مہینہ پائے وہ روزہ رکھے اور جو بیمار یا مسافر ہو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرے، اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے اور تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا اور اس حکم کی غرض یہ ہے کہ تم گنتی پوری کر لو اور اللہ نے جو تم کو دین كى سچی راہ بتلائی اس کے شکریہ میں اس کی بڑائی کرو اور اس لیے کہ تم اس کا احسان مانو“ شروع اسلام میں و علی الذین یطیقونه (البقرة: 184) اترا تھا اور مقدور والے لوگوں کو اختیار تھا وہ روزہ رکھیں خواہ فدیہ دیں پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور صحیح جسم والے مقیم پر روزہ رکھنا فمن شهد منکم الشهر (البقرة: 185) سے واجب ہو گیا۔ (وحیدی) بعض نے کہا وعلی الذین یطیقونه کے معنی یہ ہیں جو لوگ روزہ کی طاقت نہیں رکھتے گو مقیم اور تندرست ہیں مثلاً ضعیف بوڑھے لوگ تو وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں اس صورت میں یہ آیت منسوخ نہ ہوگی اور تفصیل اس مسئلہ کی تفسیروں میں ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1949
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1949
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں ناسخ آیت کو متعین نہیں کیا گیا، البتہ طبری کی روایت کے مطابق اس کے بعد والی آیت ناسخ قرار دی گئی ہے۔ سنن بیہقی میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو ان پر رمضان کے روزے فرض کر دیے گئے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام ؓ روزہ رکھنے سے زیادہ مانوس نہیں تھے کیونکہ وہ مہینے میں صرف تین روزے رکھنے کے عادی تھے، اس بنا پر ان پر ایک ماہ کے روزے تکلیف اور مشقت کا باعث تھے، پھر انہیں رخصت تھی کہ اگر کوئی کسی مسکین کو روزہ رکھوا دے تو وہ خود اسے ترک کر دے، پھر اس رخصت کو بھی منسوخ کر دیا گیا۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 200/4)(2) حضرت ابن عباس ؓ کے نزدیک یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ محکم ہے۔ وہ فرماتے ہیں: یہ منسوخ نہیں بلکہ اس سے مراد بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے، وہ ہر دن ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4505) یعنی ان کے نزدیک يُطِيقُونَهُ کے معنی ”عدم استطاعت“ کے ہیں۔ اس مقام پر اس فعل میں سلب ماخذ کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1949