ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعیدقطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن ابی عبداللہ نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی زینب نے اور ان سے ان کی والدہ (ام سلمہ رضی اللہ عنہا) نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چادر میں (لیٹی ہوئی) تھی کہ مجھے حیض آ گیا۔ اس لیے میں چپکے سے نکل آئی اور اپنا حیض کا کپڑا پہن لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہوئی؟ کیا حیض آ گیا ہے؟ میں نے کہا ہاں، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی چادر میں چلی گئی اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل (جنابت) کیا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہونے کے باوجود ان کا بوسہ لیتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 1929]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1929
حدیث حاشیہ: شریعت ایک آسان جامع قانون کا نام ہے جس کا زندگی کے ہر ہر گوشے سے تعلق ضروری ہے، میاں بیوی کا تعلق جو بھی ہے ظاہر ہے اس لیے حالت روزہ میں اپنی بیوی کے ساتھ بوس و کنار کو جائز رکھا گیا بشرطیکہ بوسہ لینے والوں کو اپنی طبیعت پر پورا قابو حاصل ہو، اسی لیے جوانوں کے واسطے بوس و کنار کی اجازت نہیں۔ ان کا نفس غالب رہتا ہے ہاں یہ خوف نہ ہو تو جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1929
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1929
حدیث حاشیہ: (1) روزہ دار کے لیے اپنی بیوی کو بوسہ دینے کے متعلق مختلف آراء ہیں: بعض نے جوان اور بوڑھے ہونے کا فرق بیان کیا ہے اور بعض حضرات نے اپنے آپ پر کنٹرول کرنے کو مدار قرار دیا ہے۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ بحالت روزہ بیوی کو بوسہ دینا حرام نہیں بشرطیکہ اس سے شہوت میں کوئی تحریک پیدا نہ ہو، تاہم بہتر ہے کہ اجتناب کیا جائے۔ اور جس انسان میں بوسہ دینے سے تحریک پیدا ہو سکتی ہے اس کے لیے یہ کام حرام ہے۔ اور اگر بوس و کنار کرتے وقت انزال ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہے، اسے بعد میں اس کی قضا دینی ہو گی۔ (فتح الباري: 195/4) حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ نے ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ روزے دار اپنی بیوی کو بوسہ دے سکتا ہے؟ تو آپ نے حضرت ام سلمہ ؓ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ”اس سے پوچھ لو۔ “ انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ساتھ ایسا کر لیتے ہیں۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام گزشتہ اور پیوستہ گناہ کو معاف کر دیے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں تمہاری نسبت اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہوں۔ “(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2288(1108)(2) اس روایت سے معلوم ہوا کہ روزے کی حالت میں بیوی سے بوس و کنار کرنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت نہیں، صرف خود پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1929
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 683
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چادر میں لیٹی ہوئی تھی، اس اثنا میں مجھے حیض آ گیا، اور میں کھسک گئی، اور میں نے اپنے حالت حیض والے کپڑے لیے، تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: ”کیا تمہیں حیض آنا شروع ہو گیا ہے۔“ میں نے کہا جی ہاں، آپﷺ نے مجھے بلایا اور میں آپﷺ کے ساتھ چادر میں لیٹ گئی۔ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بتایا، میں اور رسول اللہ ﷺ اکٹھے برتن سے غسل جنابت کر لیتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:683]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) الْخَمِيلَةِ: ڈوروں والا کپڑا چادر۔ (2) حِيْضَة: حالت حیض۔ (3) نَفِسْتِ: نفس خون کو کہتے ہیں، اس لیے یہ لفظ حیض اور ولادت دونوں کے خون کے لیے استعمال ہو جاتا ہے۔ یہاں حیض مراد ہے، ولادت کے لیے نفست نون کے ضمہ سے اور حیض کے لیے نون کے فتحہ سے۔ فوائد ومسائل: حائضہ عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹنا سونا جائز ہے۔ صرف خاص تعلقات قائم کرنا منع ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 683
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:322
322. حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نبی ﷺ کے ساتھ چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ مجھے حیض آ گیا۔ میں آہستہ سے اٹھی اور اس چادر سے نکل آئی۔ پھر میں نے اپنے حیض کے کپڑے لیے اور انھیں پہن لیا۔ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تمہیں حیض آ گیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! تو آپ نے مجھے بلا لیا اور اپنے ساتھ چادر میں لے لیا۔ زینب نے کہا: حضرت ام سلمہ ؓ نے یہ بھی بیان کیا کہ نبی ﷺ روزے کی حالت میں ہوتے تھے اور اسی حالت مین ان کا بوسہ لے لیتے تھے، نیز میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن میں غسل جنابت کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:322]
حدیث حاشیہ: 1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ﴾”اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) لوگ آپ سے حیض کے متعلق دریافت کرتے ہیں آپ کہہ دیں کہ وہ گندا اور نقصان دہ (خون) ہوتا ہے اس لیے حالت حیض میں اپنی عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ۔ “(البقرة 2/222) قرآن کریم کی اس ظاہر نص سے عورتوں سے بحالت حیض اعتزال (علیحدگی) اور عدم قرب کا حکم ہے تو پھر اس حالت میں ان کے ساتھ لیٹنے کا جواز کیونکر ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شرعی احکام کے اثبات کے لیے اکیلا قرآن کافی نہیں جب تک صاحب قرآن کے فرمودات کو اس کے ساتھ نہ ملایا جائے۔ صرف قرآن سے شرعی احکام معلوم کرنا ایک سنگین غلطی ہے۔ اس سلسلے میں صرف ظاہر نص قران پر انحصار نہیں کیا جا سکتا، احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اعتزال اور عدم قربت کا مفہوم کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے آیت کے مفہوم کو بایں الفاظ متعین فرمایا: ”حائضہ عورت کو گھر میں رہنے دو جماع کے علاوہ تمھیں ہر چیز کی اجازت ہے“(سنن أبي داود، النکاح، حدیث: 2165) مذکورہ حدیث اُم سلمہ ؓ نے اس کی مزید وضاحت فرمادی کہ حائضہ عورت کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے اس کے ساتھ لیٹنے الغرض جماع کے علاوہ دیگر ہر قسم کے امور استمتاع کی اجازت ہے۔ اس کی مکمل وضاحت پہلے ہو چکی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 322
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک کپڑا تر کر کے اپنے جسم میں ڈالا حالانکہ وہ روزے سے تھے اور شعبی روزے سے تھے لیکن حمام میں (غسل کے لیے) گئے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہانڈی یا کسی چیز کا مزہ معلوم کرنے میں (زبان پر رکھ کر) کوئی حرج نہیں۔ حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ روزہ دار کے لیے کلی کرنے اور ٹھنڈا حاصل کرنے میں کوئی قباحت نہیں اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب کسی کو روزہ رکھنا ہو تو وہ صبح کو اس طرح اٹھے کہ تیل لگا ہوا ہو اور کنگھا کیا ہو اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرا ایک «ابزن»(حوض پتھر کا بنا ہوا) ہے جس میں میں روزے سے ہونے کے باوجود غوطے مارتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ میں مسواک کی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ دن میں صبح اور شام (ہر وقت) مسواک کیا کرتے اور روزہ دار تھوک نہ نگلے اور عطاء رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر تھوک نکل گیا تو میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا اور ابن سیرین رحمہ اللہ نے کہا کہ تر مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کسی نے کہا کہ اس میں جو ایک مزا ہوتا ہے اس پر آپ نے کہا کیا پانی میں مزا نہیں ہوتا؟ حالانکہ اس سے کلی کرتے ہو۔ انس، حسن اور ابراہیم نے کہا کہ روزہ دار کے لیے سرمہ لگانا درست ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: Q1929]
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،صحیح بخاری Q1929
روزے کی حالت میں ہانڈی وغیرہ سے چکھنا؟
امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا: «وقال ابن عباس: لا بأس أن يتطعم القدر أو الشئ»
اور ابن عباس (رضی اللہ عنہما) نے فرمایا: ہانڈی یا کسی چیز کو چکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ [صحيح بخاري، كتاب الصوم باب اغتسال الصائم ح 1930، سے پهلے]
یہ روایت «شريك عن سليمان عن عكرمة عن ابن عباس» کی سند سے درج ذیل کتابوں میں ہے:
➊ مصنف ابن ابی شیبہ (3/ 47 ح 9278) «عن شريك»
➋ مسند علی بن الجعد (2406) «من حديث شريك و عنه على بن الجعد»
➌ السنن الکبریٰ للبیہقی (4/ 261) «من حديث على بن الجعد عن شريك»
➍ تغلیق التعلیق (3/ 152) «للحافظ ابن حجر رحمه الله من طريق على بن الجعد»
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:
1: شریک بن عبداللہ القاضی مدلس ہیں اور سند عن سے ہے۔
شریک کی تدلیس کے لئے دیکھئے: [نصب الرايه 3/ 234 المحلي 8/ 263، 10/ 333]
اور طبقات المدلسین لابن حجر [2/ 56] «وهو من المرتبة الثالثة فى القول الراجح .»
2: سلیمان بن مہران الاعمش مدلس تھے اور سند عن سے ہے۔
اعمش کی تدلیس کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو: 66 ص 7
٭ اس روایت کی دوسری سند میں جابر بن یزید الجعفی ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 3/ 47 ح 9277]
جابر جعفی سخت ضعیف اور گمراہ شخص تھا۔ دیکھئے: تہذیب التہذیب، میزان الاعتدال اور تقریب التہذیب وغیرہ، لہٰذا یہ سند باطل ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت اپنی دونوں سندوں کے ساتھ ضعیف ہے۔ فائدہ: عر وہ بن الزبیر رحمہ اللہ (تابعی) روزے کی حالت میں منٰی میں شہد چکھ لیتے تھے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه 3/ 47 ح 9280 وسنده حسن]
ثابت ہوا کہ اگر شدید شرعی عذر ہو، مثلاًً کسی عورت کا شوہر سخت مزاج ہو تو اس کے لئے روزے کی حالت میں ہانڈی وغیرہ چکھنے میں کوئی حرج نہیں اور اسی طرح خریدتے وقت بھی اس چیز کو چکھا جا سکتا ہے جس میں یہ احتمال ہو کہ بیچنے والا دھوکا دے رہا ہے، یا یہ خوف ہو کہ دھوکانہ دے دے تو بھی ایسی چیز کو معمولی سا چکھ لیناجائز ہے، لیکن نہ چکھے تو بہتر ہے۔ «والله اعلم» تنبیہ: اسے ضرورت کے وقت چکھنے کے بعد تھوک دینا چاہئے۔
……………… اصل مضمون ………………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی وعلمی مقالات (جلد 4 صفحہ 553 اور 554) للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 553