اور ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ابودرداء رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے کیا کچھ کھانا تمہارے پاس ہے؟ اگر ہم جواب دیتے کہ کچھ نہیں تو کہتے پھر آج میرا روزہ رہے گا۔ اسی طرح ابوطلحہ، ابوہریرہ، ابن عباس اور حذیفہ رضی اللہ عنہم نے بھی کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: Q1924]
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ جس نے کھانا کھا لیا وہ اب (دن ڈوبنے تک روزہ کی حالت میں) پورا کرے یا (یہ فرمایا کہ) روزہ رکھے اور جس نے نہ کھایا ہو (تو وہ روزہ رکھے) کھانا نہ کھائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ/حدیث: 1924]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1924
حدیث حاشیہ: مقصد باب یہ ہے کہ کسی شخص نے فجر کے بعد کچھ نہ کھایا پیا ہو اور اسی حالت میں روزہ کی نیت دن میں بھی کرلے تو روزہ ہو جائے گا مگر یہ اجازت نفل روزہ کے لیے ہے، فرض روزہ کی نیت رات ہی میں سحری کے وقت ہونی چاہئے۔ حدیث میں عاشورہ کے روزہ کا ذکر ہے جو رمضان کی فرضیت سے قبل فرض تھا۔ بعد میں محض نفل کی حیثیت میں رہ گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1924
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1924
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے فیصلہ کن عنوان قائم نہیں کیا، البتہ پیش کردہ معلق اور متصل روایات سے ان کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ وہ روزے کے لیے رات کو نیت کرنا ضروری خیال نہیں کرتے بلکہ ان حضرات کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو فرض روزے کے لیے رات کے وقت نیت کرنے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ مذکورہ روایات میں مطلق نیت کا ذکر ہے۔ اس میں فرض یا نفل روزوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ لیکن جمہور علماء نے امام بخاری کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ فرض روزے کے لیے رات ہی سے نیت کرنا ضروری ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”جس نے فجر، یعنی صبح صادق سے پہلے روزے کی پختہ نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہے۔ “(سنن أبي داود، الصوم، حدیث: 2454) پھر حدیث میں ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث: 1)(2) البتہ نفل روزے کی زوال سے پہلے بھی نیت کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟“ ہم نے کہا: نہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: ”تب میں روزہ دار ہوں۔ “ پھر آپ دوسرے دن ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں کچھ حلوہ بطور ہدیہ بھیجا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”وہ مجھے دکھاؤ، بےشک میں نے روزے کی حالت میں صبح کی ہے، پھر آپ نے وہ حلوہ کھا لیا۔ “(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2714(1154)(2) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث عاشوراء سے متعلق ہے جو فرض نہیں، نیز اس میں دوپہر سے پہلے کھانے والوں کو بھی روزہ پورا کرنے کا حکم ہے جو عاشوراء کے لیے خصوصیت کا باعث ہے کیونکہ عام روزے کی دوپہر کے وقت نیت کی جا سکتی ہے بشرطیکہ صبح کے بعد آدمی نے کچھ کھایا پیا نہ ہو۔ (3) واضح رہے کہ نیت محض دل کے ارادے کا نام ہے، اسے زبان سے ادا کرنے کی ضرورت نہیں، لہذا وبصوم غد نويت من شهر رمضان کے الفاظ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1924
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2323
´اگر کسی نے رات میں روزہ کی نیت نہیں کی تو کیا وہ اس دن نفلی روزہ رکھ سکتا ہے؟` سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا: ”لوگوں میں عاشوراء کے دن اعلان کر دو: جس نے کھا لیا ہے وہ باقی دن (بغیر کھائے پیئے) پورا کرے، اور جس نے نہ کھایا ہو وہ روزہ رکھے۔“[سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2323]
اردو حاشہ: گویا امام نسائی رحمہ اللہ کے نزدیک عاشوراء کا روزہ مستحب ہے، تبھی تو انہوں نے اس حدیث سے ترجمۃ الباب کا مسئلہ استنباط کیا ہے کہ دن کے وقت بھی روزے کی نیت کر کے نفلی روزہ شروع کیا جا سکتا ہے (جیسا کہ حدیث: 2324 میں ہے) بشرطیکہ اس نے طلوع فجر کے بعد سے کچھ کھایا پیا نہ ہو۔ یہ استنباط تو درست ہے لیکن اس کے لیے مندرجہ بالا حدیث کو محل استشہاد بنانا درست نہیں کیونکہ راجح موقف کے مطابق عاشوراء شروع میں فرض تھا یہاں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ روزے کی فرضیت کا پتا نہ ہو تو جب بھی اطلاع ملے، اس وقت کچھ کھایا ہو یا نہ، رک جائے اور باقی دن روزے کی تکمیل کرے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2323
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2007
2007. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کرے: ”جس نے کچھ کھا لیا ہے وہ باقی دن کا روزہ رکھے اور جس نے نہیں کھایا وہ پورے دن کا روزہ رکھے اس لیے کہ آج کا دن عاشوراء کا دن ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2007]
حدیث حاشیہ: یہاں کتاب الصیام ختم ہوئی جس میں حضر ت امام بخاری ؒ ایک سو ستاون احادیث لائے ہیں جن میں معلق اور موصول اور مکرر سب شامل ہیں اور صحابہ اور تابعین کے ساٹھ اثر لائے ہیں۔ جن میں اکثر معلق ہیں اور باقی موصول ہیں۔ الحمد للہ کہ آج 5 شعبان 1389ھ کو جنوبی ہند کے سفر میں ریلوے پر چلتے ہوئے اس کے ترجمہ وتشریحات سے فارغ ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2007
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7265
7265. سیدنا سلیمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے فرمایا: عاشوراء کے دن اپنی قوم یا لوگوں میں یہ اعلان کردے جس نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ باقی دن پورا کرے(کچھ نہ کھائے) اور جس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا وہ روزہ رکھ لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7265]
حدیث حاشیہ: ترجمہ: باب اس سے نکلا کہ آپ نے ایک ہی شخص کو اپنی طرف سے ایلچی مقرر کردیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7265
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2007
2007. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کرے: ”جس نے کچھ کھا لیا ہے وہ باقی دن کا روزہ رکھے اور جس نے نہیں کھایا وہ پورے دن کا روزہ رکھے اس لیے کہ آج کا دن عاشوراء کا دن ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2007]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت امیر معاویہ ؓ نے امارت کے بعد پہلا حج 44 ہجری میں کیا اور دوسرا 57 ہجری میں کیا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کلمات انہوں نے دوسرے حج کے موقع پر ارشاد فرمائے اور حج کے بعد وہ دس محرم تک مدینہ طیبہ میں ٹھہرے۔ اہل مدینہ اس دن روزے کے متعلق اہتمام نہیں کرتے تھے، اس لیے انہوں نے علماء کے حوالے سے بات کی۔ (2) سابقہ احادیث سے معلوم ہوا کہ یہودونصاریٰ اور قریش اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کی حیثیت کو برقرار رکھا حتی کہ ہجرت کے پہلے سال مدینہ طیبہ میں نہ صرف خود اس کا اہتمام کیا بلکہ دوسروں کو حکم دیا کہ وہ اس دن کا روزہ رکھیں۔ (3) تمام احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے عاشوراء کے روزے کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق سامنے آتے ہیں: ٭ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا اور یہ فرضیت ایک سال تک رہی کیونکہ رسول اللہ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں مدینہ طیبہ تشریف لائے اور آئندہ سال روزوں کی فرضیت نازل ہوئی۔ ٭ عام اعلان کے ذریعے سے اس کی فرضیت کی تشہیر کی جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے، پھر آپ نے ماؤں کو حکم دیا کہ وہ شیر خوار بچوں کو دودھ نہ پلائیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کے آس پاس انصار کی آبادیوں میں عاشوراء کی صبح یہ پیغام بھیجا کہ جس نے آج روزہ رکھا ہے وہ اسے مغرب تک پورا کرے اور جس نے نہیں رکھا وہ بھی بقیہ دن تک کچھ نہ کھائے پیے۔ حضرت ربیع بنت معوذ کہتی ہیں: اس اعلان کے بعد ہم خود بھی روزہ رکھتیں اور اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتیں۔ جب ہم اپنے بچوں کو مسجد میں لے جاتیں تو ان کے لیے اون کا کھلونا ساتھ لے جاتیں۔ جب وہ بھوک کی وجہ سے روتے تو انہیں بہلانے کے لیے کھلونے ان کے سامنے کر دیتیں تاکہ شام تک اپنے روزے کو پورا کریں۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2669(1136) ٭ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت کو ختم کر دیا گیا، البتہ اس کے استحباب کو باقی رکھا گیا۔ علمائے اصول کا اس میں اختلاف ہے کہ جب کسی امر کی فرضیت ختم ہو جائے تو اس کی اباحت باقی رہتی ہے یا نہیں؟ امام شافعی ؒ کا موقف ہے کہ اگر کوئی حکم منسوخ ہو جائے تو اس کا جواز باقی رہتا ہے جبکہ احناف کے ہاں اس کا جواز بھی ختم ہو جاتا ہے۔ عاشوراء کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ”جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے“ اس کے جواز کی دلیل ہے، نیز حدیث میں ہے کہ رسول اللھ ﷺ عاشوراء کے روزے کا حکم دیتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ نے اس کے متعلق نہ حکم دیا اور نہ اس سے منع ہی کیا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2652(1128) بلکہ حضرت معاویہ ؓ کی حدیث سے اس کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔ ٭ حدیث میں اس دن روزہ رکھنے کی فضیلت بایں الفاظ بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس دن روزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ “(صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2746(1162) ٭ یوم عاشوراء سے مراد دس محرم ہے لیکن ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے کہ وہ عاشوراء سے مراد نو محرم لیتے تھے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2664(1133) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ بھی نویں محرم کا روزہ رکھتے تھے۔ (حوالہ مذکور) لیکن جمہور محدثین کے نزدیک عاشوراء سے مراد دس محرم ہے، البتہ رسول اللہ ﷺ نے یہود کی مخالفت کرتے ہوئے یہ فرمایا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو آئندہ سال نویں کا روزہ رکھوں گا، چنانچہ حدیث میں ہے جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے دس محرم کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہودی اور عیسائی بھی اس دن کی تعظیم کرتے ہیں (اور روزہ رکھتے ہیں) ۔ آپ نے فرمایا: ”آئندہ سال ہم نو محرم کا روزہ رکھیں گے۔ “ لیکن آئندہ اس دن سے پہلے ہی آپ وفات پا گئے۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2666(1134) ایک روایت میں ہے کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نو محرم کا ضرور روزہ رکھوں گا۔ (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: 2667(1134) امام بیہقی ؒ فرماتے ہیں: اس سے مراد دسویں کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنا ہے۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 278/4) حضرت ابن عباس ؓ کا فتویٰ بھی ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھو اور اس سلسلے میں یہود کی مخالفت کرو۔ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 287/4)(4) ہمارے نزدیک عاشوراء محرم کے روزے کی تین صورتیں حسب ذیل ہیں: ٭ بہترین صورت یہ ہے کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھا جائے کیونکہ دسویں کا روزہ تو حقیقت ثابتہ ہے لیکن نویں محرم کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا اگرچہ رفیق اعلیٰ سے ملاقات کی وجہ سے اس کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ٭ اس سے کم درجہ یہ ہے کہ دسویں اور گیارہویں محرم کا روزہ رکھا جائے۔ ٭ سب سے کم درجہ یہ ہے کہ صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔ صرف نویں کا روزہ رکھنا کئی ایک لحاظ سے محل نظر ہے۔ اسلامی اعتبار سے عاشوراء محرم کی یہی حقیقت و اہمیت ہے، لہذا اس دن اظہار تشکر کے لیے روزہ رکھا جائے، البتہ یہود کی مخالفت کرتے ہوئے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی اس کے ساتھ رکھا جائے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2007
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7265
7265. سیدنا سلیمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے فرمایا: عاشوراء کے دن اپنی قوم یا لوگوں میں یہ اعلان کردے جس نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ باقی دن پورا کرے(کچھ نہ کھائے) اور جس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا وہ روزہ رکھ لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7265]
حدیث حاشیہ: اس قاصد کا نام ہند بن اسماء بن حارثہ تھا۔ (فتح الباري: 298/13) اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے متعلق اعلان کرنے کے لیے بھیجا۔ وہ اکیلا شخص تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روانہ فرمایا: قوم اور لوگوں نے اس کے اعلان کو قابل اعتبار سمجھتے ہوئے اس پر عمل کیا خبر واحد میں بھی یہی حکم ہے کہ وہ قابل حجت اور یقینی علم کا فائدہ دیتی ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے خبر واحد کی حجیت ثابت کی ہے جو روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7265