ہم سے محمود نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور انہیں مسور رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صلح حدیبیہ کے موقع پر) قربانی سر منڈوانے سے پہلے کی تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کو بھی اسی کا حکم دیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُحْصَرِ/حدیث: 1811]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1811
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ پہلے قربانی کرنا پھر سر منڈانا ہی مسنون ترتیب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1811
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1811
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے یہ حدیث دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کی ہے کہ جب آپ ﷺ شرائط صلح کی تحریر سے فارغ ہوئے تو آپ نے صحابۂ کرام ؓ کو حکم دیا کہ وہ اٹھیں، قربانی کریں اور اپنے بال منڈوائیں۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ کسی سے بات نہ کریں، اٹھیں اور قربانی ذبح کریں، چنانچہ آپ باہر نکلے، قربانی کے جانور ذبح کیے اور سر منڈوایا۔ (صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2731)(2) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ترتیب صرف احصار کی صورت میں ہے کیونکہ عام حالات میں ترتیب ضروری نہیں۔ (فتح الباري: 14/4)(3) قرآن کریم میں ہے کہ قربانی کے اپنے ٹھکانے پر پہنچنے تک اپنے سر نہ منڈواؤ۔ (البقرة: 196: 2) اس آیت کا تقاضا ہے کہ قربانی جب تک اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے حلق نہیں کرنا چاہیے جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی اپنی جگہ پر پہنچنے سے پہلے حلق کر دیا گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ محصر کے لیے محل الہدی وہی جگہ ہے جہاں احصار ہوا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے احصار کے وقت مقام حدیبیہ ہی میں اپنی قربانی ذبح کی، اسے حرم کے اندر نہیں پہنچایا گیا۔ واللہ أعلم۔ اگرچہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ احصار کی صورت میں قربانی کو حرم کعبہ بھیجا جائے، جب وہاں ذبح ہو جائے تو پھر احرام کھولنے کی اجازت ہے لیکن مذکورہ حدیث سے ان کی تردید ہوتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1811