ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے عمرو بن اوس سے سنا، ان کو عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے ساتھ سواری پر لے جائیں اور تنعیم سے انہیں عمرہ کرا لائیں۔ سفیان بن عیینہ نے کہیں یوں کہا میں نے عمرو بن دینار سے سنا، کہیں یوں کہا میں نے کئی بار اس حدیث کو عمرو بن دینار سے سنا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعُمْرَةِ/حدیث: 1784]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1784
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کے اصحاب تو حج اور عمرہ دونوں کا ثواب لے کر واپس جا رہے ہیں جبکہ میں نے صرف حج ہی کیا ہے، عمرہ نہیں کیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا: ”تم اپنے بھائی عبدالرحمٰن ؓکے ساتھ مقام تنعیم جاؤ، وہاں سے عمرے کا احرام باندھ کر اسے مکمل کر لو۔ “ آپ نے مکہ کے بالائی حصے میں ان کا انتظار کیا۔ (صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 2984)(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل مکہ اگر عمرہ کرنا چاہیں تو انہیں حرم سے باہر جا کر "حل" سے احرام باندھنا ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو مقام تنعیم سے عمرے کا احرام باندھنے کا حکم دیا کیونکہ دوسرے مقامات کی نسبت یہ مقام مکہ سے زیادہ قریب ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1784
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1995
´عمرے کے احرام میں عورت کو حیض آ جائے پھر حج کا وقت آ جائے تو وہ عمرے کو چھوڑ کر حج کا تلبیہ پکارے، کیا اس پر عمرے کی قضاء لازم ہو گی؟` عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”عبدالرحمٰن! اپنی بہن عائشہ کو بٹھا کر لے جاؤ اور انہیں تنعیم ۱؎ سے عمرہ کرا لاؤ، جب تم ٹیلوں سے تنعیم میں اترو تو چاہیئے کہ وہ احرام باندھے ہو، کیونکہ یہ مقبول عمرہ ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1995]
1995. اردو حاشیہ: ➊ تنعیم مکہ سے چھ میل کے فاصلے پر قریب ترین مقام اورآجکل شہر کی آبادی کاحصہ ہے۔اور مسجد عائشہ کے نام سے معروف منزل ہے۔ ➋ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔کہ اس روایت میں (فاذا ھبطت) جب تو اسے لے کر ٹیلےسے اُترے۔ والا آخری حصہ صحیح نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1995
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 934
´(حدود حرم سے باہر) مقام تنعیم سے عمرہ کرنے کا بیان۔` عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ عائشہ رضی الله عنہا کو تنعیم ۱؎ سے عمرہ کرائیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 934]
اردو حاشہ: 1؎: تنعیم مکہ سے باہرایک معروف جگہ کا نام ہے جو مدینہ کی جہت میں مکہ سے چارمیل کی دوری پر ہے، عمرہ کے لیے اہل مکہ کی میقات حل (حرم مکہ سے باہرکی جگہ) ہے، اورتنعیم چونکہ سب سے قریبی حِل ہے اس لیے آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کوتنعیم سے احرام باندھنے کا حکم دیا۔ اور یہ عمرہ ان کے لیے اس عمرے کے بدلے میں تھا جو وہ حج سے قبل حیض آجانے کی وجہ سے نہیں کرسکی تھیں، اس سے حج کے بعد عمرہ پر عمرہ کرنے کی موجودہ چلن پر دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 934
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:573
573- سیدنا عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھائیں اور تنعیم سے انہیں عمرہ کروا دیں۔ سفیان کہتے ہیں یہ روایت شعبہ کی شرط کے مطابق ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں، انہیں نے یہ خبر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا، وہ یہ کہتے ہیں، اس طرح روایت متصل ہوجاتی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:573]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عذر کی بنا پر تنعیم سے احرام باندھنا درست ہے، تنعیم جگہ پر اب مسجد عائشہ بنا دی گئی ہے، بعض لوگ روزانہ مسجد عائشہ جاتے ہیں، اور احرام باندھ کر عمرہ کرتے ہیں، یہ بالکل غلط ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 573
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2985
2985. حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر صدیق ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ میں حضرت عائشہ ؓ کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھاؤں اور مقام تنعیم سے انھیں عمرہ کرا لاؤں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2985]
حدیث حاشیہ: اس موقع پر حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے اپنی محترمہ بہن حضرت عائشہؓ کو سواری پر پیچھے بٹھایا۔ اس سے باب کا مقصد ثابت ہوا۔ پہلی حدیث میں مزید تفصیل بھی مذکور ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2985
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2985
2985. حضرت عبد الرحمٰن بن ابی بکر صدیق ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ میں حضرت عائشہ ؓ کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھاؤں اور مقام تنعیم سے انھیں عمرہ کرا لاؤں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2985]
حدیث حاشیہ: 1۔ ان احادیث میں صراحت ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن ؓ نے اپنی ہمشیرہ اُم المومنین حضرت عائشہ ؓ کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا۔ اگرچہ یہ سفر حج سے متعلق تھا تاہم سفر جہاد کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ ”عورتوں کا جہاد حج کرنا ہے۔ “(صحیح البخاري، الجهاد، حدیث: 2875۔ 2876) اس طرح قیاس کے بغیر ہی عنوان میں بیان کردہ مسئلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ 2۔ سفر و حضر میں محرم کے ساتھ خلوت جائز ہے اور کوئی بھی عورت اپنے محرم کے ہمراہ سفر کر سکتی ہے خواہ وہ سفر حج و عمرہ ہو یا سفر جہاد نیزوہ اپنے محرم کے ساتھ سواری پر بھی بیٹھ سکتی ہے۔ چونکہ اس طرح کے واقعات دوران سفر میں اکثرو بیشتر پیش آتے رہتے ہیں لہٰذا امام بخاری ؒنے انھیں بیان کردیا ہے۔ آئندہ بہت سے عنوانات اسی قبیل سے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2985