الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
99. بَابُ مَنْ يُصَلِّي الْفَجْرَ بِجَمْعٍ:
99. باب: فجر کی نماز مزدلفہ ہی میں پڑھنا۔
حدیث نمبر: 1682
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَارَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةً بِغَيْرِ مِيقَاتِهَا إِلَّا صَلَاتَيْنِ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، وَصَلَّى الْفَجْرَ قَبْلَ مِيقَاتِهَا".
ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمارہ نے عبدالرحمٰن بن یزید سے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ دو نمازوں کے سوا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور کوئی نماز بغیر وقت نہیں پڑھتے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء ایک ساتھ پڑھیں اور فجر کی نماز بھی اس دن (مزدلفہ میں) معمول کے وقت سے پہلے ادا کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 1682]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   سنن النسائى الصغرىجمع بين صلاتين إلا بجمع وصلى الصبح يومئذ قبل وقتها
   صحيح البخاريما رأيت النبي صلى صلاة بغير ميقاتها إلا صلاتين جمع بين المغرب والعشاء وصلى الفجر قبل ميقاتها
   صحيح مسلمما رأيت رسول الله صلى صلاة إلا لميقاتها إلا صلاتين صلاة المغرب والعشاء بجمع وصلى الفجر يومئذ قبل ميقاتها
   سنن أبي داودصلى صلاة إلا لوقتها إلا بجمع فإنه جمع بين المغرب والعشاء بجمع وصلى صلاة الصبح من الغد قبل وقتها
   سنن النسائى الصغرىيصلي الصلاة لوقتها إلا بجمع وعرفات رفع اليدين في الدعاء بعرفة
   سنن النسائى الصغرىجمع بين المغرب والعشاء بجمع

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1682 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1682  
حدیث حاشیہ:
یعنی بہت اول اوقت، یہ نہیں کہ صبح صادق ہونے سے پہلے پڑھ لی جیسے بعض نے گمان کیا اور دلیل اس کے آگے کی روایت ہے جس میں صاف یہ ہے کہ صبح کی نماز فجر طلوع ہوتے ہی پڑھی۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1682   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 609  
´مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو جمع کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مزدلفہ کے علاوہ کسی جگہ جمع بین الصلاتین کرتے نہیں دیکھا ۱؎، آپ نے اس روز فجر (اس کے عام) وقت سے ۲؎ پہلے پڑھ لی۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 609]
609 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ عجیب بات ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے قبل عرفات میں ظہر اور عصر کو جمع کرچکے تھے۔ اس پر مطلع نہ ہونا اچنبھے کی بات ہے۔ لیکن انسان، انسان ہے، ان کے علم میں یہ بات نہ آئی ہو گی یا یہ ذہول اور نسیان کا نتیجہ ہو گا جو ہر انسان کو لاحق ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں سفر میں دو نمازیں جمع کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔ کثیر صحابہ سے آنے والی روایات میں اس کا ذکر ہے، لہٰذا ان کی نفی یہاں معتبر نہیں۔ پھر یہ اصول ہے کہ نفی پر اثبات مقدم ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی اس نفی کا تعلق صرف ان کی ذات کی حد تک ہے کیونکہ دوسروں کے پاس مزید علم کی بات ہے، اس لیے اسے قبول کیا جائے گا۔ واللہ أعلم۔
وقت سے پہلے پڑھی۔ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول کا وقت ہے کیونکہ عموماً طلوع فجر اور صلاۃ فجر کے درمیان وضو، غسل اور فجر کی سنتوں کا فاصلہ ہوا کرتا تھا۔ اس دن آپ نے فجر کی نماز طلوع فجر کے ساتھ ہی پڑھ لی تاکہ وقوف کے لیے زیادہ وقت مل سکے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں صراحتًا طلوع فجر کا ذکر ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الحج، حدیث: 683، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 609   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3013  
´عرفات میں ظہر اور عصر ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز اس کے وقت پر پڑھتے تھے، سوائے مزدلفہ اور عرفات کے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3013]
اردو حاشہ:
اس بات پر اتفاق ہے کہ عرفات میں ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے ظہر کے وقت پڑھی جائیں گی۔ اسی طرح رات کو مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے مزدلفہ میں عشاء کے وقت پڑھی جائیں گی۔ عصر کو ظہر کے ساتھ پڑھنے کا مقصد وقوف میں سہولت ہوگا کیونکہ وقوف کے درمیان لوگوں کو دوبارہ وضو اور جماعت وغیرہ کی تکلیف دینا تنگی کا باعث ہوتا، نیز وقوف بھی سکون سے نہ ہو سکتا۔ ویسے بھی یہ سفر کی حالت ہے۔ سفر میں دو نمازیں ملا کر پڑھنا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3013   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1934  
´مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ وقت پر ہی نماز پڑھتے دیکھا سوائے مزدلفہ کے، مزدلفہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کو جمع کیا اور دوسرے دن فجر وقت معمول سے کچھ پہلے پڑھی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1934]
1934. اردو حاشیہ:
➊ یعنی فجر کی نماز بہت جلد پڑھائی۔جو کہ آپکے عام معمول کا وقت نہ تھا۔اور فضا میں بہت اندھیرا تھا مگر فجر صادق طلوع ہوچکی تھی۔
➋ بعض فقہاء(حسن بصری ابراہیم نخعی۔امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کےصاحبین رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے استدلال ہے کہ سفر میں نمازیں جمع کرنا جائز نہیں۔سوائے عرفات اور مزدلفہ کے کیونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی ﷺ کے ساتھ ساتھ رہنے والے صحابی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اس مقام کے علاوہ آپ ﷺنے کبھی کوئی نماز بے وقت نہیں پڑھی۔سو جمع بین الصلاتین جائز نہیں۔جبکہ اصحاب الحدیث اور جمہور فقہاء جمع بین الصلاتین کے قائل وفائل ہیں۔ان کااستدلال رسول اللہ ﷺ کے قول وفعل سے ہے جیسے کہ گزشتہ ابواب صلواۃ السفر (حدیث 198 او ما بعدہ) کے مطالعہ سے واضح ہیں۔ حضرت عبدا للہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت میں نبی ﷺ کے عام معمولات اور نماز بروقت ادا کرنے کی پابندی کابیان ہے۔جو بصورت مفہوم زکر کیا گیا ہے جبکہ دیگر صریح فرامین اور آپ کے معمولات جمع بین الصلاتین کو ثابت کرتے ہیں۔تو جہاں کہیں احادیث کا مفہوم اور منطوق (ظاہر الفاظ) متعارض معلوم ہوتے ہوں وہاں منطوق کو مقدم کیا جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1934