کریب نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فضل رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر لبیک کہتے رہے تاآنکہ جمرہ عقبہ پر پہنچ گئے (اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں ماریں)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 1670]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1670
حدیث حاشیہ: ہلکا وضو یہ کہ اعضاءوضو کو ایک ایک بار دھویا یا پانی کم ڈالا۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ وضو کرنے میں دوسرے آدمی سے مدد لینا بھی درست ہے نیز اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی ظاہر ہوا کہ حاجی جب رمی جمار کے لیے جمرہ عقبہ پر پہنچے اس وقت سے لبیک پکارنا موقوف کرے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1670
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1670
حدیث حاشیہ: (1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ میدان عرفات میں مزدلفہ آتے وقت اگر راستے میں کوئی ضرورت پیش آ جائے تو اتر کر اسے پورا کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ اترنا مناسک حج سے نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک گھاٹی میں اپنی بشری ضرورت پوری کرنے کے لیے اترے تھے۔ ایسا کرنا ارکان حج سے نہیں تھا مگر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ افعال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا شدید جذبہ رکھنے کی وجہ سے وہاں ٹھہرتے، قضائے حاجت کرتے، پھر وضو کر لیتے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں یہ تمام امور سرانجام دیے تھے۔ خلفائے بنو امیہ وہاں مغرب کی نماز پڑھتے تھے، حالانکہ ایسا کرنا خلاف سنت ہے۔ (2) مسنون یہ ہے کہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھا جائے۔ خلفائے بنو امیہ نے اس سنت کو ترک کر دیا تھا۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد صرف یہ ہے کہ عرفات سے واپسی کے وقت اگر راستے میں کوئی ضرورت درپیش ہو تو اسے اتر کر پورا کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري: 656/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1670