فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2770
´جو شخص حج سے روک دیا گیا ہو، اور اس نے شرط نہ لگائی ہو تو وہ کیا کرے؟`
سالم بن عبداللہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حج میں شرط لگانا پسند نہیں کرتے تھے، اور کہتے تھے: کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت کافی نہیں؟ اگر تم میں سے کوئی حج سے روک دیا گیا ہو تو (اگر ممکن ہو تو) کعبے کا طواف، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کر لے، پھر ہر چیز سے حلال ہو جائے، یہاں تک کہ آنے والے سال میں حج کرے اور ہدی دے، اور اگر ہدی میسر نہ ہو تو روزہ رکھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2770]
اردو حاشہ:
(1) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حضرت ضباعہؓ کی حدیث سے واقف نہ ہوں گے ورنہ جس نبی اکرمﷺ کی سنت وہ بتلا رہے ہیں اسی نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے: ”شرط لگا۔“ جس طرح نبیﷺ کی سنت کافی ہے، اسی طرح نبی اکرمﷺ کا فرمان بھی چون وچرا کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ اور شرط والی یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ صحیح مسلم اور سنن اربعہ میں مذکور ہے۔ اس کی متابعات بھی ہیں۔ جلیل القدر صحابہ کرام حضرت عمر، علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم اسی کے قائل ہیں، لہٰذا شرط لگانا بلا شبہ صحیح ہے۔
(2) ”بیت اللہ کا طواف کرے“ بشرطیکہ وہ وہاں تک پہنچ سکے، حضرت ضباعہ والی روایت میں تو عجز کی صورت ہے، ظاہر ہے ایسی صورت میں تو جہاں عجز طاری ہو وہیں حلال ہونا (احرام کھولنا) پڑے گا، البتہ اگر وہ فرض حج کا احرام تھا تو آئندہ سال دوبارہ حج کرنا ہوگا، اگر وہ طاقت پائے ورنہ اللہ تعالیٰ عذر قبول کرنے والا ہے۔ رسول اللہﷺ عمرہ حدیبیہ میں راستے ہی میں حلال ہوگئے تھے۔ اور کہیں ذکر نہیں کہ آپ نے ان صحابہ کو قضا کا حکم دیا ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2770
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2771
´جو شخص حج سے روک دیا گیا ہو، اور اس نے شرط نہ لگائی ہو تو وہ کیا کرے؟`
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حج میں شرط لگانا ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے: کیا تمہارے لیے تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کافی نہیں ہے کہ آپ نے (کبھی) شرط نہیں لگائی۔ اگر تم میں سے کسی کو کوئی روکنے والی چیز روک دے تو اگر ممکن ہو سکے تو بیت اللہ کا طواف کرے، اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے، پھر سر منڈوائے یا کتروائے پھر احرام کھول دے اور اس پر آئیندہ سال کا حج ہو گا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2771]
اردو حاشہ:
”آپ نے شرط نہیں لگائی“ شاید ان کا اشارہ عمرۂ حدیبیہ کی طرف ہے کہ وہاں دشمن کی طرف سے رکاوٹ کا خطرہ تھا مگر آپ نے شرط نہیں لگائی جبکہ حضرت ضباعہؓ والی حدیث بعد کی ہے جس میں آپ نے شرط لگانے کا حکم دیا، دونوں پر عمل چاہیے جو شرط لگائے وہ شرط والی روایت پر عمل کرے اور جو شرط نہ لگائے وہ حضرت ابن عمر والی روایت پر عمل کرے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے دونوں باب قائم فرما کر اسی طرح اشارہ فرمایا ہے کہ دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ دونوں الگ الگ حالتوں میں قابل عمل ہیں۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ کسی صحیح یا قابل عمل حدیث کو بھی نہ چھوڑا جائے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سابقہ حدیث اور حدیث: 2766)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2771
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1810
1810. حضرت سالم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے۔ کیا تمھیں رسول اللہ ﷺ کی سنت کافی نہیں ہے؟تم میں سے اگر کوئی حج سے روک دیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ بیت اللہ کا طواف کرے، پھر صفاو مروہ کی سعی کرے۔ اس کے بعد وہ ہر چیز سے حلال ہوجائے۔ آئندہ سال حج کرے اور قربانی دے۔ اگر قربانی میسر نہ ہو تو روزے رکھے۔ عبد اللہ (بن مبارک) نے یہ روایت یونس کے علاوہ معمر عن زہری کے طریق سے بھی اسی طرح بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1810]
حدیث حاشیہ:
بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے نزدیک حج یا عمرہ کے احرام میں شرط لگانا درست نہ تھا، شرط لگانا یہ ہے کہ احرام باندھتے وقت یوں کہہ لے کہ یا اللہ! میں جہاں رک جاؤں تو میرا احرام وہیں کھولا جائے گا، جمہور صحابہ اور تابعین نے اسے جائز رکھا ہے اور امام احمد اور اہل حدیث کا یہی قول ہے۔
(وحیدی)
اور ایسی حالت میں مثال سامنے ہے آج بھی ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں پس شارع ؑ کی سنت مستقبل میں آنے والی امت مسلمہ کے لیے اسوہ حسنہ ہے۔
احصار کی تفصیل (پیچھے بھی گزر چکی ہے)
حضرت محمد بن شہاب زہری زہرہ بن کلاب کی طرف منسوب ہیں، کنیت ابوبکرہے، ان کا نام محمد ہے، عبداللہ بن شہاب کے بیٹے ہیں۔
یہ بڑے فقیہ اور محدث ہوئے ہیں اور تابعین سے بڑے جلیل القدر تابعی ہیں، مدینہ کے زبردست فقیہ اور عالم ہیں، علوم شریعت کے مختلف فنون میں ان کی طرف رجو ع کیا جاتا تھا۔
ان سے ایک بڑی جماعت روایت کرتی ہے جن میں سے قتادہ اور امام مالک بن انس ہیں، حضرت عمر بن عبدالعزیز ؑ فرماتے ہیں کہ میں ان سے زیادہ عالم جو اس زمانہ میں گزرا ہے ان کے سوا اور کسی کو نہیں پاتا۔
مکحول سے دریافت کیا گیا کہ ان علماء میں سے جن کو آپ نے دیکھا ہے کون زیادہ عالم ہے فرمایا کہ ابن شہاب ہیں، پھر دریافت کیا گیا کہ ان کے بعد کون ہے، فرمایا کہ ابن شہاب ہیں، پھر کہا گیا کہ ابن شہاب کے بعد، فرمایا کہ ابن شہاب ہی ہیں۔
124ھ میں ماہ رمضان المبارک میں وفات پائی، رحمه اللہ رحمة واسعة (امین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1810
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1812
1812. حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ اور حضرت سالم نے اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مکہ مکرمہ نہ جانے کے متعلق گفتگو کی تو انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کفار قریش بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہیں اونٹ کی قربانی کردی اور اپنا سر مبارک منڈوادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1812]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے جمہور علماءکے قول کی تائید ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ احصار کی صورت میں جہاں احرام کھولے وہیں قربانی کرلے خواہ حل میں ہو یا حرم میں، اور امام ابوحنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ قربانی حرم میں بھیج دی جائے اور جب وہاں ذبح ہولے تب احرام کھولے فقال الجمهور یذبح المحصر الهدي حیث یحل سواءکان في الحل أو في الحرم الخ (فتح)
یعنی جسے حج سے روک دیا جائے وہ جہاں احرام کھولے حل میں ہو یا حرم میں اسی جگہ قربانی کر ڈالے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1812
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3687
3687. حضرت اسلم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے حضرت عمر ؓ کے کچھ حالات پوچھے تو میں نے انھیں بتایا کہ جب سے رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی ہے، میں نے آپ کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو معاملات نمٹانے میں بہت کوشش کرنے والا۔ اور اللہ کی راہ میں زیادہ سخاوت کرنے والاہواور یہ خوبیاں حضرت عمر ؓ پر ختم ہو گئیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3687]
حدیث حاشیہ:
مراد یہ ہے کہ اپنے عہد خلافت میں حضرت عمر بن خطاب ؓ بہت بڑے دلاور، بہت بڑے سخی اور اسلام کے عظیم ستون تھے، منقبت کا جہاں تک تعلق ہے حضرت ابوبکر ؓ کا مقام جملہ صحابہ سے اعلیٰ و ارفع ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3687
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2701
2701. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگئے اس لیے آپ ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر ہی اپنی قربانی کو ذبح کیا، اپنا سر مبارک بھی حدیبیہ میں منڈایا اور مشرکین قریش سے اس بات پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال عمرہ کریں گے اور ان پر ہتھیار اٹھا کر نہیں چلیں گے، البتہ تلواریں نیام میں لے کرآسکیں گے، نیز مکہ معظمہ میں جب تک کفار پسند کریں آپ قیام فرمائیں گے، چنانچہ آپ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور حسب شرائط صلح مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب تین دن مکہ میں ٹھہر چکے تو انھوں نے مکہ سے چلے جانے کو کہا، لہذا آپ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2701]
حدیث حاشیہ:
اگرچہ مشرکین کی یہ شرطیں بالکل نامناسب تھیں، مگر رحمۃ للعالمین ﷺ نے بہت سے مصالح کے پیش نظر ان کو تسلیم فرمالیا۔
پس مصلحتاً دب کر صلح کرلینا بھی بعض مواقع پر ضروری ہوجاتا ہے۔
اسلام سراسر صلح کا حامی ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ جو شخص فساد کو مٹانے کے لیے اپنا حق چھوڑ کر بھی صلح کرلے، اللہ اس سے بہت ہی بہتر اجر عطا کرتا ہے۔
حضرت حسن ؓ اور حضرت امیر معاوریہ ؓ کی صلح بھی اسی قسم کی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2701
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4252
4252. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عمرے کی نیت سے نکلے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے، چنانچہ آپ نے اپنا قربانی کا جانور مقام حدیبیہ میں ذبح کر دیا اور وہیں اپنا سر منڈوا دیا اور ان سے اس شرط پر معاہدہ کیا کہ آپ آئندہ سال عمرہ کر سکیں گے، نیز تلواروں کے علاوہ دوسرا کوئی ہتھیار ہمراہ نہیں لائیں گے اور نہ مکہ مکرمہ میں ان کی مرضی کے خلاف قیام ہی کریں گے، اس لیے آپ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور معاہدے کے مطابق آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب آپ نے تین دن اقامت مکمل کر لی تو کفار نے کہا کہ اب آپ چلے جائیں تو آپ وہاں سے چلے آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4252]
حدیث حاشیہ:
ایفائے عہد کا تقا ضا بھی یہی تھا جو آنحضرت ﷺ نے پورے طور پر ادا فرمایا اور آپ صرف تین دن قیام فرما کر اپنے پیارے اقدس شہر مکہ کو چھوڑ کر واپس آگئے۔
کاش! آج بھی مسلمان اپنے وعدوں کی ایسی ہی پابندی کریں تو دنیا میں ان کی قدر و منزلت بہت بڑھ سکتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4252
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1810
1810. حضرت سالم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے۔ کیا تمھیں رسول اللہ ﷺ کی سنت کافی نہیں ہے؟تم میں سے اگر کوئی حج سے روک دیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ بیت اللہ کا طواف کرے، پھر صفاو مروہ کی سعی کرے۔ اس کے بعد وہ ہر چیز سے حلال ہوجائے۔ آئندہ سال حج کرے اور قربانی دے۔ اگر قربانی میسر نہ ہو تو روزے رکھے۔ عبد اللہ (بن مبارک) نے یہ روایت یونس کے علاوہ معمر عن زہری کے طریق سے بھی اسی طرح بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1810]
حدیث حاشیہ:
(1)
حج میں رکاوٹ کا مطلب یہ ہے کہ وقوف عرفہ نہ ہو سکتا ہو جو حج کا رکن اعظم ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ نے حج کی رکاوٹ کو عمرے کی رکاوٹ پر قیاس کیا ہے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے نزدیک حج یا عمرے کا مشروط احرام باندھنا درست نہیں، حالانکہ دیگر حضرات نے اسے جائز رکھا ہے، چنانچہ امام ترمذی ؒ نے روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ مشروط احرام کا انکار کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے:
کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی سنت کافی نہیں؟ (جامع الترمذي، الحج، حدیث: 942)
لیکن امام بخاری ؒ نے اس حصے کو روایت سے حذف کر دیا ہے۔
(2)
امام بیہقی ؒ کہتے ہیں کہ اگر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو ضباعہ بنت زبیر کی حدیث معلوم ہوتی تو مشروط احرام کا انکار نہ کرتے۔
حضرت ضباعہ کی حدیث یہ ہے:
ضباعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی:
اللہ کے رسول! میرا حج کرنے کا ارادہ ہے لیکن میں بیمار ہوں، ایسی صورت میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا:
”حج کرو اور اللہ سے شرط کر لو:
اے اللہ! میں اسی جگہ احرام کھول دوں گی جہاں تو مجھے روک دے گا۔
“ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2902(1207)
امام بخاری ؒ نے اس روایت کو کتاب النکاح میں بیان کیا ہے، جس سے متعلق مکمل بحث آئندہ آئے گی۔
امام ابن حزم ؒ نے اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
(فتح الباري: 13/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1810
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1812
1812. حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ اور حضرت سالم نے اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مکہ مکرمہ نہ جانے کے متعلق گفتگو کی تو انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کفار قریش بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے وہیں اونٹ کی قربانی کردی اور اپنا سر مبارک منڈوادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1812]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام مالک ؒ کا موقف ہے کہ محصر پر قربانی کرنا ضروری نہیں جبکہ مذکورہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے کیونکہ اس میں حکم اور سببِ حکم بیان ہوا ہے۔
سبب احصار ہے اور حکم سبب قربانی کرنا ہے۔
اس حدیث کے ظاہری الفاظ کا یہی تقاضا ہے کہ اس حکم کو سبب سے وابستہ کیا جائے۔
(فتح الباري: 14/4)
واللہ أعلم۔
(2)
اس حدیث سے بھی جمہور علماء کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ احصار کی صورت میں جہاں احرام کھولے وہیں قربانی ذبح کر دے، خواہ وہ مقام حل میں ہو یا حرم کا حصہ، جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ قربانی کو حرم میں بھیج دیا جائے، جب وہاں ذبح ہو جائے تو احرام کھولا جائے۔
حدیث سے اس موقف کی تائید نہیں ہوتی۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1812
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2701
2701. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگئے اس لیے آپ ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر ہی اپنی قربانی کو ذبح کیا، اپنا سر مبارک بھی حدیبیہ میں منڈایا اور مشرکین قریش سے اس بات پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال عمرہ کریں گے اور ان پر ہتھیار اٹھا کر نہیں چلیں گے، البتہ تلواریں نیام میں لے کرآسکیں گے، نیز مکہ معظمہ میں جب تک کفار پسند کریں آپ قیام فرمائیں گے، چنانچہ آپ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور حسب شرائط صلح مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب تین دن مکہ میں ٹھہر چکے تو انھوں نے مکہ سے چلے جانے کو کہا، لہذا آپ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2701]
حدیث حاشیہ:
(1)
معلوم ہوا کہ دیت دے کر صلح کرنا جائز ہے۔
ربیع ؓ حضرت انس بن مالک ؓ کی پھوپھی تھیں اور انس بن نضر ؓ ان کے چچا ہیں۔
(2)
حضرت انس بن نضر نے شرعی حکم کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خیال کیا کہ شاید دیت او قصاص میں اختیار ہے، ان میں جو بھی ادا کر دیا جائے جائز ہے۔
انہیں قصاص کی تعیین کا علم نہیں تھا جبکہ قرآن مجید میں ہے:
(وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ)
”دانت کے بدلے دانت (توڑا جائے۔
“) (المائدة: 45: 5)
اس کا ایک خوبصورت جواب یہ بھی ہے کہ حضرت انس بن نضر ؓ نے لا تكسر کے الفاظ سے حکم الٰہی کو رَد نہیں کیا تھا بلکہ اللہ کے فضل پر پختہ یقین کرتے ہوئے اس کے عدم وقوع کی خبر دی تھی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتماد و یقین کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس بات کی گواہی دی کہ بعض مخلص بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ ان کی کہی ہوئی بات کو پورا کرتا ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ نے فزاری کی روایت سے تطبیق کی صورت ذکر کی ہے کہ ان لوگوں نے قصاص معاف کر کے دیت قبول کر لی، مطلق معافی مراد نہیں ہے۔
امام بخاری ؒ نے فزاری کی روایت کو خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4611)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2701
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3687
3687. حضرت اسلم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے حضرت عمر ؓ کے کچھ حالات پوچھے تو میں نے انھیں بتایا کہ جب سے رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی ہے، میں نے آپ کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو معاملات نمٹانے میں بہت کوشش کرنے والا۔ اور اللہ کی راہ میں زیادہ سخاوت کرنے والاہواور یہ خوبیاں حضرت عمر ؓ پر ختم ہو گئیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3687]
حدیث حاشیہ:
حضرت اسلم سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے غلام تھے۔
انھوں نےحضرت عمر کے متعلق فرمایا:
میں نے ان کی مدت خلافت کے دوران میں کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ سخی اور ان تھک کوشش کرنے والا ہو۔
اس شہادت اور گواہی سے حضرت عمر ؓ کی منقبت ثابت ہوتی ہے کہ آپ اسلام کے بہت بڑے ستون تھے۔
۔
۔
رضي اللہ تعالیٰ عنه۔
۔
۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3687
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4184
4184. حضرت نافع ہی سے روایت ہے، وہ حضرت ابن عمر ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عمرے کا احرام باندھا اور کہا: اگر میرے اور بیت اللہ کے درمیان کوئی حائل ہوا (رکاوٹ بنا) تو میں اسی طرح کروں گا جس طرح نبی ﷺ نے کیا تھا، جس وقت کفار قریش، آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوئے تھے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ (کی ذات) میں بہترین نمونہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4184]
حدیث حاشیہ:
عبدالملک بن مروان کے دور حکومت میں عراق اور حجاز پر حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کا قبضہ تھا عبدالملک نے اس علاقے کو واگزارکرانے کے لیے حجاج بن یوسف کو بھیجا۔
اس نے مکہ مکرمہ کے ارد گرد ڈیرے ڈال دیے۔
ان حالات میں حج و عمرہ ممکن نہیں تھا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ان دنوں عمرہ کرنے کا پرو گرام بنایا تو انھیں روکا گیا کہ فتنے کے دنوں میں ایسا کرنا درست نہیں ہے، آپ مکہ مکرمہ نہ جائیں تو آپ نے فرمایا:
اگر ہم بیت اللہ تک پہنچ گئے تو عمرے کے افعال ادا کریں گے۔
بصورت دیگرجہاں ہمیں روک دیا گیا وہیں اپنا احرام کھول دیں گے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام حدیبیہ پر عمرے کا احرام کھول دیا تھا۔
ان احادیث میں اسی فتنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4184
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4252
4252. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عمرے کی نیت سے نکلے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہو گئے، چنانچہ آپ نے اپنا قربانی کا جانور مقام حدیبیہ میں ذبح کر دیا اور وہیں اپنا سر منڈوا دیا اور ان سے اس شرط پر معاہدہ کیا کہ آپ آئندہ سال عمرہ کر سکیں گے، نیز تلواروں کے علاوہ دوسرا کوئی ہتھیار ہمراہ نہیں لائیں گے اور نہ مکہ مکرمہ میں ان کی مرضی کے خلاف قیام ہی کریں گے، اس لیے آپ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور معاہدے کے مطابق آپ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب آپ نے تین دن اقامت مکمل کر لی تو کفار نے کہا کہ اب آپ چلے جائیں تو آپ وہاں سے چلے آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4252]
حدیث حاشیہ:
1۔
5ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے مقام حدیبیہ میں ان شرائط پر کفار مکہ سے صلح کر لی۔
کہ اس سال مسلمان عمرہ کیے بغیر ہی واپس چلے جائیں اور وہ آئندہ سال عمرہ کریں اس کے علاوہ جب مکہ مکرمہ میں آئیں تو تلواروں کے علاوہ کوئی دوسرا ہتھیار ہمراہ نہ لائیں اور تلواریں بھی نیاموں میں بند ہوں اور مسلمان مکہ مکرمہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں۔
2۔
رسول اللہ ﷺ نے روکے جانے کی وجہ سے وہیں احرام کھول دیا اور آئندہ سال 7ہجری میں جب آپ ﷺ غزوہ خیبر اور دیگر چھوٹے چھوٹے غزوات سے فارغ ہوئے تو ماہ ذی قعدہ میں عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور عمرہ مکمل کیا، پھر تین دن ٹھہرنے کے بعد واپس مدینے میں چلے آئے۔
وعدہ پورا کرنے کا تقاضا بھی یہی تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے مکمل طور پر ادا فرمایا، 3۔
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ میں کفار قریش کی مرضی کے خلاف نہیں ٹھہریں گے۔
یہ مجمل الفاظ ہیں ایک روایت میں وضاحت ہے کہ تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہریں گے۔
چنانچہ تیسرے دن انھوں نے کود حضرت علی ؓ سے کہا کہ آج آخری دن ہے آپ اپنے آپ صاحب سے کہیں کہ وہ مکہ سے چلے جائیں رسول اللہ ﷺ سے انھوں نے کہا تو آپ مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ چلے آئے۔
(صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 4631۔
(1783)
فتح الباري: 636/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4252