اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور جب کہ بنا دیا ہم نے خانہ کعبہ کو بار بار لوٹنے کی جگہ لوگوں کے لیے اور کر دیا اس کو امن کی جگہ اور (حکم دیا ہم نے) کہ مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ وہ دونوں پاک کر دیں میرے مکان کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے۔ اے اللہ! کر دے اس شہر کو امن کی جگہ اور یہاں کے ان رہنے والوں کو پھلوں سے روزی دے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں صرف ان کو، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جس نے کفر کیا اس کو میں دنیا میں چند روز مزے کرنے دوں گا پھر اسے دوزخ کے عذاب میں کھینچ لاؤں گا اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ اور جب ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام خانہ کعبہ کی بنیاد اٹھا رہے تھے (تو وہ یوں دعا کر رہے تھے) «ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم * ربنا واجعلنا مسلمين لك ومن ذريتنا أمة مسلمة لك وأرنا مناسكنا وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم» اے ہمارے رب! ہماری اس کوشش کو قبول فرما۔ تو ہی ہماری (دعاؤں کو) سننے والا اور (ہماری نیتوں کا) جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری نسل سے ایک جماعت بنائیو جو تیری فرمانبردار ہو۔ ہم کو احکام حج سکھا اور ہمارے حال پر توجہ فرما کہ تو بہت ہی توجہ فرمانے والا ہے۔ اور بڑا رحیم ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: Q1582]
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ(زمانہ جاہلیت میں) جب کعبہ کی تعمیر ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عباس رضی اللہ عنہ بھی پتھر اٹھا کر لا رہے تھے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنا تہبند اتار کر کاندھے پر ڈال لو (تاکہ پتھر اٹھانے میں تکلیف نہ ہو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تو ننگے ہوتے ہی بیہوش ہو کر آپ زمین پر گر پڑے اور آپ کی آنکھیں آسمان کی طرف لگ گئیں۔ آپ کہنے لگے مجھے میرا تہبند دے دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مضبوط باندھ لیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 1582]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1582
حدیث حاشیہ: اس زمانہ میں محنت مزدوری کے وقت ننگے ہونے میں عیب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن چونکہ یہ امر مروت اور غیرت کے خلاف تھا، اللہ نے اپنے حبیب کے لئے اس وقت بھی یہ گوارہ نہ کیا گو اس وقت تک آپ کو پیغمبری نہیں ملی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1582
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1582
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں تعمیر کعبہ کا ذکر ہے۔ اس وقت آٹھویں مرتبہ قریش نے اسے تعمیر کیا تھا۔ اس سے مکہ مکرمہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے پتھر اپنے کندھوں پر اٹھائے تھے۔ اس وقت آپ کی عمر پینتیس برس تھی۔ اس وقت محنت و مزدوری کے وقت ننگے ہونے کو عیب نہیں سمجھا جاتا تھا، اس لیے آپ نے اپنی چادر اتار کر کندھے پر رکھ لی لیکن اس وقت بھی ایسا کام مروت اور غیرت کے خلاف تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ کو اپنے حبیب ﷺ کے لیے یہ گوارا نہ ہوا۔ اس کے بعد کبھی آپ کو ننگا نہیں دیکھا گیا۔ (2) واضح رہے کہ یہ واقعہ زمانہ نبوت سے پہلے کا ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے (باب كراهية التعري في الصلاة) ”نماز میں برہنہ رہنے کی ممانعت“(صحیح البخاري، الصلاة، باب: 8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1582
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 364
´باب: (بلا ضرورت) ننگا ہونے کی کراہیت نماز میں (ہو یا اور کسی حال میں)۔` «. . . حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْقُلُ مَعَهُمُ الْحِجَارَةَ لِلْكَعْبَةِ وَعَلَيْهِ إِزَارُهُ، فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ عَمُّهُ: يَا ابْنَ أَخِي، لَوْ حَلَلْتَ إِزَارَكَ فَجَعَلْتَ عَلَى مَنْكِبَيْكَ دُونَ الْحِجَارَةِ، قَالَ: فَحَلَّهُ، فَجَعَلَهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ فَسَقَطَ مَغْشِيًّا عَلَيْهِ، فَمَا رُئِيَ بَعْدَ ذَلِكَ عُرْيَانًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " . . . .» ”. . . ہم سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نبوت سے پہلے) کعبہ کے لیے قریش کے ساتھ پتھر ڈھو رہے تھے۔ اس وقت آپ تہبند باندھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس نے کہا کہ بھتیجے کیوں نہیں تم تہبند کھول لیتے اور اسے پتھر کے نیچے اپنے کاندھے پر رکھ لیتے (تاکہ تم پر آسانی ہو جائے) جابر نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کھول لیا اور کاندھے پر رکھ لیا۔ اسی وقت غشی کھا کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ کبھی ننگے نہیں دیکھے گئے۔ (صلی اللہ علیہ وسلم) . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/بَابُ كَرَاهِيَةِ التَّعَرِّي فِي الصَّلاَةِ وَغَيْرِهَا: 364]
تخريج الحديث: [195۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 8 باب كراهية التعري فى الصلاة وغيرها 364، مسلم 340، ابن حبان 1603] لغوی توضیح: «فَحَلَّهُ» آپ نے اسے اتار دیا۔ «مَغْشِيًّا» جسے غشی آ جائے۔ «عُرْيَانًا» ننگا۔ فھم الحدیث: معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بچپن میں بھی اہل جاہلیت کی بری عادتوں سے بچا کر رکھا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ستر پوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل حیات ہے۔ آپ نے اس کا حکم بھی دیا ہے، فرمایا کہ اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا ہر ایک سے اپنے ستر کی حفاظت کرو۔ [حسن: المشكاة 3117، مسند أحمد 3/5 4، أبوداود 4017، ترمذي 2769] یعنی انسان صرف اپنی بیوی اور لونڈی کے سامنے ستر ظاہر کر سکتا ہے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 195
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 771
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، جب کعبہ تعمیر کیا گیا تو عباس رضی اللہ تعالی عنہ اور رسول اللہ ﷺ پتھر لانے لگے تو عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے کہا، پتھروں کی حفاظت کے لیے اپنا تہبند اٹھا کر کندھے پر رکھ لیجیئے تو آپﷺ نے ایسا کر لیا، اس پر آپﷺ زمین پر گر گئے اور آپﷺ کی آنکھیں آسمان کی طرف لگ گئیں، پھر آپﷺ اٹھے اور کہا میرا تہبند، میرا تہبند تو آپﷺ کا تہبند باندھ دیا گیا یا آپﷺ نے اپنا تہبند باندھ لیا، ابن رافع کی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:771]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: انسان کو دوسروں کے سامنے اپنا ستر نہیں کھولنا چاہیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے ہی اپنی طبعی شرم وحیا کی بنا پر چچا کے حکم سے اپنا تہبند کھول تو لیا۔ لیکن فوراً بے ہوش ہو کر گر پڑے، اور آپ کو اس کام سے روک دیا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو نبوت سے پہلے ہی غلط کاموں سے محفوظ فرماتا ہے اس وقت آپﷺ بقول زہری بلوغت کو نہیں پہنچے تھے بقول بعض اس وقت آپﷺ کی عمر پندرہ سال، بقول بعض پچیس اور بقول ابن اسحاق پینتیس سال تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 771
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:364
364. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ قریش کے ہمراہ تعمیرِ کعبہ کے لیے پتھر اٹھاتے تھے۔ آپ نے صرف تہ بند باندھا ہوا تھا۔ آپ کے چچا حضرت عباس ؓ نے کہا: اے میرے بھتیجے! اگر تم اپنا تہ بند اتار کر اسے اپنے کندھوں پر پتھر کے نیچے رکھ لو (تو تمہارے لئے آسانی ہو گی)۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنا تہ بند اتار کر اپنے کندھوں پر رکھ لیا، چنانچہ آپ اسی وقت بےہوش ہو کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ ﷺ کبھی برہنہ نہیں دیکھے گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:364]
حدیث حاشیہ: 1۔ برہنگی نماز اور غیر نماز دونوں حالتوں میں ممنوع ہے، نماز کی حالت میں تو ظاہر ہے، لیکن نماز کے علاوہ بھی بلاضرورت ستر کا برہنہ رکھناشرعاً ممنو ع ہے۔ مذکورہ بالا روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ خارج صلاۃ کا ہے۔ امام بخاری ؒ کا استدلال اس طرح ہے کہ جب سترپوشی کااہتمام نماز کے علاوہ اس قدر ہے تونماز میں توبدرجہ اولیٰ اس کی ضرورت ثابت ہوتی ہے۔ ابن بطال ؒ نے لکھاہے کہ کشف ازار کا واقعہ جب پیش آیا تو آپ کی عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی اور نبوت سے بھی سرفراز نہیں ہوئے تھے۔ چونکہ برہنگی آپ کی شان کے خلاف تھی، اس لیے فوراً بے ہوشی طاری کردی گئی اور تنبیہ کردی گئی تاکہ آئندہ اس کا اعادہ نہ ہو، کیونکہ حضرات انبیاء علیہم السلام کی تربیت شروع ہی سے اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی میں ہوتی ہے۔ بعثت سے قبل ایسے امور کی اصلاح دوسرے ہی طریقوں سے ممکن تھی، اس لیے آسمانی اشارے یاسلامت طبع کے تحت فوراً آپ بے ہوش ہوگئے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے طبرانی ؒ کے حوالے سے یہ الفاط نقل کیے ہیں کہ آپ فوراً کھڑے ہوئے، اپنی آواز کو سنبھالا اور فرمایا کہ مجھے ننگا ہو کر چلنے سے منع کردیا گیا ہے۔ (فتح الباري: 615/1) اس سے معلوم ہوا کہ آپ بعثت سے پہلے برے کاموں اور بے شرمی کی باتوں سے محفوظ تھے۔ بہرحال امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب عام حالات میں کسی خاص ضرورت کے پیش نظر برہنگی درست نہیں تو نماز ننگے کیسے پڑھی جاسکتی ہے؟ایک دوسرے کو ننگا دیکھ سکتے ہیں۔ (شرح ابن بطال: 27/2) اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں دوسروں کے سامنے ننگا ہونا منع ہے۔ البتہ خاص حالات میں کسی مجبوری کے پیش نظر اس کا جواز ہے۔ خاص حالات حسب ذیل ہوسکتے ہیں، غسل خانے میں نہاتے وقت، مثانے یا بواسیر کا آپریشن کراتے وقت، ولادت کے موقع پر اپناستر کھولنے کی اجازت ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 364
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3829
3829. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب کعبہ کی تعمیر ہو رہی تھی تو نبی ﷺ اور حضرت عباس ؓ پتھر اٹھا کر لا رہے تھے۔ حضرت عباس ؓ نے نبی ﷺ سے کہا: آپ اپنا تہبند اتار کر کندھے پر رکھ لیں جو آپ کو پتھروں کی رگڑ سے محفوظ رکھے گا۔ جب آپ نے ایسا کیا تو زمین پر گر پڑے اور آپ کی آنکھیں آسمان سے لگ گئیں۔ پھر جب ہوش آیا تو (اپنے چچا عباس سے) فرمایا: ”میرا تہبند دو، میرا تہبند دو“ چنانچہ انہوں نے وہ تہبند آپ کو مضبوط باندھ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3829]
حدیث حاشیہ: 1۔ ابوطفیل کی روایت میں ہے کہ تہبند اتارنے سے جب رسول اللہ ﷺ کا ستر کھل گیا توآواز آئی: اے محمد ﷺ! اپنے ستر کو چھپاؤ۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ کو ننگا نہیں دیکھا گیا۔ (فتح الباري: 185/7۔ وأخبار مکة للآزرقي: 194/1) 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نبوت سے پہلے بھی قبائح ورزائل سے محفوظ تھے اور اسی طرح نبوت کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر قسم کی قباحت و رذالت سے محفوظ رکھا۔ (عمدة القاري: 543/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3829