ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے شقیق نے ‘ ان سے عمرو بن الحارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا نے۔ (اعمش نے) کہا کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ابراہیم نحعی سے کیا۔ تو انہوں نے بھی مجھ سے ابوعبیدہ سے بیان کیا۔ ان سے عمرو بن حارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب نے ‘ بالکل اسی طرح حدیث بیان کی (جس طرح شقیق نے کی کہ) زینب رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے ‘ صدقہ کرو ‘ خواہ اپنے زیور ہی میں سے دو۔ اور زینب اپنا صدقہ اپنے شوہر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور چند یتیموں پر بھی جو ان کی پرورش میں تھے خرچ کیا کرتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھئے کہ کیا وہ صدقہ بھی مجھ سے کفایت کرے گا جو میں آپ پر اور ان چند یتیموں پر خرچ کروں جو میری سپردگی میں ہیں۔ لیکن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم خود جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لو۔ آخر میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ایک انصاری خاتون کو پایا۔ جو میری ہی جیسی ضرورت لے کر موجود تھیں۔ (جو زینب ابومسعود انصاری کی بیوی تھیں) پھر ہمارے سامنے سے بلال گذرے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیجئے کہ کیا وہ صدقہ مجھ سے کفایت کرے گا جسے میں اپنے شوہر اور اپنی زیر تحویل چند یتیم بچوں پر خرچ کر دوں۔ ہم نے بلال سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ وہ اندر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ دو عورتیں مسئلہ دریافت کرتی ہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دونوں کون ہیں؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا کہ زینب نام کی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون سی زینب؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بیشک درست ہے۔ اور انہیں دو گنا ثواب ملے گا۔ ایک قرابت داری کا اور دوسرا خیرات کرنے کا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1466]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1466
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں صدقہ یعنی خیرات کا لفظ ہے جو فرض صدقہ یعنی زکوٰۃ اور نفل خیرات دونوں کو شامل ہے۔ امام شافعی ؒ اور ثوری ؒ اور صاحبین اور امام مالک ؒ اور امام احمد ؒ سے ایک روایت ایسی ہی ہے اپنے خاوند کو اور بیٹوں کو (بشرطیکہ وہ غریب مسکین ہوں) دینا درست ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ماں باپ اور بیٹے کو دینا درست نہیں۔ اور امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک خاوند کو بھی زکوٰۃ دینا درست نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان حدیثوں میں صدقہ سے نفل صدقہ مراد ہے۔ (وحیدی) لیکن خود حضرت امام بخاری ؒ نے یہاں زکوٰۃ فرض کو مراد لیا ہے۔ جس سے ان کا مسلک ظاہر ہے حدیث کے ظاہر الفاظ سے بھی حضرت امام کے خیال ہی کی تائید ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1466
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2584
´رشتہ داروں کو صدقہ دینے کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی بیوی زینب رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا: ”تم صدقہ دو اگرچہ اپنے زیوروں ہی سے سہی“، وہ کہتی ہیں: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (میرے شوہر) تنگ دست و مفلس تھے، تو میں نے ان سے پوچھا: کیا میرے لیے یہ گنجائش ہے کہ میں اپنا صدقہ آپ کو اور اپنے یتیم بھتیجوں کو دے دیا کروں؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اس بارے میں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو۔ زینب رضی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2584]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوی اپنے خاوند کو زکاۃ دے سکتی ہے اگر وہ فقیر ہے تو، کیونکہ خاوند کے اخراجات کی ذمہ داری بیوی نہیں۔ مگر احناف اسے جائز نہیں سمجھتے، وہ اسے نفلی صدقے پر محمول کرتے ہیں لیکن حدیث کے الفاظ سے اس موقف کی تائید نہیں ہوتی۔ حدیث کے الفاظ عام ہیں جو دونوں قسم کے صدقات (نفلی اور فرضی زکاۃ دونوں) کو شامل ہیں۔ (2)”یہ نہ بتانا کہ ہم کون ہیں؟“ یہ ایک روایتی بات تھی ورنہ ممکن نہیں تھا کہ متعلقہ افراد کا تعارف کروائے بغیر سوال کا صحیح جواب لیا جا سکے۔ اسی لیے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کے پوچھنے پر فوراً بتا دیا کہ وہ کون ہیں، نیز انھوں نے نہ بتانے کا وعدہ بھی نہیں کیا تھا۔ علاوہ ازیں رسول للہﷺ کا فرمان عورتوں کی گزارش پر مقدم تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2584
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 635
´زیور کی زکاۃ کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے خطاب کیا اور فرمایا: ”اے گروہ عورتوں کی جماعت! زکاۃ دو ۱؎ گو اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ دو۔ کیونکہ قیامت کے دن جہنم والوں میں تم ہی سب سے زیادہ ہو گی۔“[سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 635]
اردو حاشہ: 1؎: مؤلف نے اس سے فرض صدقہ یعنی زکاۃ مراد لی ہے کیونکہ ((تَصَدَّقْنَ)) امر کا صیغہ ہے اور امر میں اصل وجوب ہے یہی معنی باب کے مناسب ہے، لیکن دوسرے علماء نے اسے استحباب پر محمول کیا ہے اور اس سے مراد نفل صدقات لیے ہیں اس لیے کہ خطاب ان عورتوں کو ہے جو وہاں موجود تھیں اور ان میں ساری ایسی نہیں تھیں کہ جن پر زکاۃ فرض ہوتی، یہ معنی لینے کی صورت میں حدیث باب کے مناسب نہیں ہو گی اور اس سے زیور کی زکاۃ کے وجوب پر استدلال صحیح نہیں ہو گا۔
نوٹ: (اگلی حدیث (636) سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 635