الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
39. بَابُ لاَ تُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلاَ ذَاتُ عَوَارٍ وَلاَ تَيْسٌ إِلاَّ مَا شَاءَ الْمُصَدِّقُ:
39. باب: زکوٰۃ میں بوڑھا یا عیب دار یا نر جانور نہ لیا جائے گا مگر جب زکوٰۃ وصول کرنے والا مناسب سمجھے تو لے سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 1455
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ، أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ،" أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ الصَّدَقَةَ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُخْرَجُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ وَلَا تَيْسٌ إِلَّا مَا شَاءَ الْمُصَدِّقُ".
ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ احکام زکوٰۃ کے مطابق لکھا کہ زکوٰۃ میں بوڑھے، عیبی اور نر نہ لیے جائیں ‘ البتہ اگر صدقہ وصول کرنے والا مناسب سمجھے تو لے سکتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1455]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريلا يجمع بين متفرق ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة
   صحيح البخاريما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية
   صحيح البخاريلا يخرج في الصدقة هرمة ولا ذات عوار ولا تيس إلا ما شاء المصدق
   صحيح البخاريفرض رسول الله وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية
   صحيح البخاريلا يجمع بين متفرق ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1455 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1455  
حدیث حاشیہ:
مثلاً زکوٰۃ کے جانور سب مادیاں ہی مادیاں ہوں نرکی ضرورت ہوتو نرلے سکتا ہے یا کسی عمدہ نسل کے اونٹ یا گائے یا بکری کی ضرورت ہو اور گو اس میں عیب ہو مگر اس کی نسل لینے میں آئندہ فائدہ ہوتو لے سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1455   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1455  
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی قسم کے عیب دار جانور کو بطور زکاۃ نہیں دینا چاہیے۔
ہاں! اگر زکاۃ وصول کرنے والا کسی عمدہ نسل کے اونٹ، گائے یا بکری کی ضرورت محسوس کرے تو نسل کشی کے لیے لینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ وہ عیب دار ہی ہو۔
اسی طرح بکرا وغیرہ زکاۃ میں نہ دیا جائے، ہاں! اگر زکاۃ وصول کرنے والا ضرورت محسوس کرے کہ زکاۃ کے جانور سب مادہ ہیں اور افزائش نسل کے لیے نر کی ضرورت ہے تو اس صورت میں نر لینے میں چنداں حرج نہیں۔
(2)
حدیث میں لفظ "مصدق" سے مراد زکاۃ دینے والا بھی ہو سکتا ہے، اس صورت میں "ص" پر تشدید ہو گی اور اس کا تعلق صرف نر جانور سے ہو گا، یعنی اگر وہ چاہے کہ میرے پاس نر جانور فالتو ہے اور صدقے کے جانوروں میں اس کی ضرورت ہے تو زکاۃ دینے والا نر جانور بطور صدقہ دے سکتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1455   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2487  
2487. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کو صدقے کے فرائض کے متعلق ایک تحریر دی تھی جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے۔ آپ نے فرمایا: جو مال دو آدمیوں کے درمیان مشترک ہو وہ صدقے میں ایک دوسرے سے برابری کرلیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2487]
حدیث حاشیہ:
جب زکوٰۃ کا مال دو یا تین ساتھیوں میں مشترک ہو۔
یعنی سب کا ساجھا ہواور زکوٰۃ کا تحصیل دار ایک ساجھی سے کل زکوٰۃ وصول کرلے تو وہ دوسرے ساجھیوں کے حصے کے موافق ان سے مجرا لے اور زکوٰۃ کے اوپر دوسرے خرچوں کا بھی قیاس ہو سکے گا۔
پس اس طرح سے اس حدیث کو شرکت سے تعلق ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2487   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6955  
6955. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت ابو بکر ؓ نے انہیں زکاۃ کے متعلق ایک نامہ لکھ کر بھیجا جو رسول اللہ ﷺ نے فرض قرار دیا تھا: زکاۃ کے خوف سے متفرق چیزوں کو جمع نہ کیا جائے اور جمع شدہ چیزوں کو الگ الگ نہ کیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6955]
حدیث حاشیہ:
اس میں یہ بھی تھا کہ جو مال جدا جدا دو مالکوں کا ہو وہ اکٹھا نہ کریں اور جو مال اکٹھا ہو (ایک ہی مالک کا)
وہ جدا جدا نہ کیا جائے۔
تشریح:
بعض روایات میں ''غنم'' اور ''إبل'' کے لفظ بھی آتے ہیں یعنی بکری یا اونٹ میں سے زکوٰۃ لیتے وقت ان کی پرانی حالت کو باقی رکھا جائے اصل میں جس حساب سے زکوٰۃ لی جاتی ہے اس کے پیش نظر بعض اوقات اگر جانور مختلف لوگوں کے ہیں اور الگ الگ رہتے ہیں تو بعض صورتوں میں زکوٰۃ ان پر زیادہ ہو سکتی ہے اور انہیں اکٹھا کرنے سے زکوٰۃ میں کمی ہو سکتی ہے۔
اس کے برخلاف یکجا ہونے میں زکوٰۃ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور متفرق کرنے میں کمی ہو سکتی ہے۔
اس حدیث میں اس کمی اور زیادہ کی بنا پر روکا گیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6955   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1450  
1450. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں زکاۃ کے احکام لکھ کر دیے جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے (ان میں سے ایک یہ تھا کہ) صدقے کے خوف سے متفرق مال کو یکجا اور یکجا کو متفرق نہ کیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1450]
حدیث حاشیہ:
سالم کی روایت کو امام احمد اور ابویعلیٰ اور ترمذی وغیرہ نے وصل کیا ہے۔
امام مالک نے مؤطا میں اس کی تفسیر یوں بیان کی ہے۔
مثلاً تین آدمیوں کی الگ الگ چالیس چالیس بکریاں ہوں تو ہر ایک پر ایک بکری زکوٰۃ کی واجب ہے۔
زکوٰۃ لینے والا جب آیا تو تو یہ تینوں اپنی بکریاں ایک جگہ کردیں۔
اس صورت میں ایک ہی بکری دینی پڑے گی۔
اسی طرح دوآدمیوں کی شرکت کے مال میں مثلاً دو سوبکریاں ہوں تو تین بکریاں زکوٰۃ کی لازم ہوں گی اگر وہ زکوٰۃ لینے والا جب آئے اس کو جدا جدا کردیں تو دو ہی بکریاں دینی ہوں گی۔
اس سے منع فرمایا۔
کیونکہ یہ حق تعالیٰ کے ساتھ فریب کرنا ہے‘ معاذ اللہ۔
وہ تو سب جانتا ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1450   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1451  
1451. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے ان کے لیے وہ احکام زکوٰۃ لکھ کر دیے جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے (ان میں سے ایک یہ تھا کہ)جو مال دو شریکوں کااکٹھا ہوتو وہ زکوٰۃ کی رقم بقدر حصہ برابر برابر ادا کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1451]
حدیث حاشیہ:
عطا کے قول کو ابوعبید نے کتاب الاموال میں وصل کیا ان کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جدا جدا رہنے دیں گے اور اگر ہر ایک کا مال بقدر نصاب ہوگا تو اس میں سے زکوٰۃ لیں گے ورنہ نہ لیں گے۔
مثلاً دو شریکوں کی چالیس بکریاں ہیں مگر ہر شریک کو اپنی اپنی بیس بکریاں علیحدہ اور معین طور سے معلوم ہیں تو کسی پر زکوٰۃ نہ ہوگی اور زکوٰۃ لینے والے کو یہ نہیں پہنچتا کہ دونوں کے جانور ایک جگہ کرکے ان کو چالیس بکریاں سمجھ کر ایک بکری زکوٰۃ کی لے۔
اور سفیان نے جو کہا امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔
لیکن امام احمد اور شافعی اور اہلحدیث کا یہ قول ہے کہ جب دونوں شریکوں کے جانور مل کر حد نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوٰۃ لی جائے گی۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1451   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1450  
1450. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے انھیں زکاۃ کے احکام لکھ کر دیے جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے (ان میں سے ایک یہ تھا کہ) صدقے کے خوف سے متفرق مال کو یکجا اور یکجا کو متفرق نہ کیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1450]
حدیث حاشیہ:

حدیث میں مذکور صورتوں کو سمجھنے کے لیے حیوانات سے زکاۃ کا نصاب پیش نظر ہونا چاہیے۔
سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بکریوں کا نصاب اور اس سے شرح زکاۃ ذکر کرتے ہیں:
٭ 1 تا 39 بکریوں میں کوئی زکاۃ نہیں۔
٭ 40 تا 120 بکریوں میں ایک بکری۔
٭ 121 تا 200 بکریوں میں دو بکریاں۔
٭201 تا 300 بکریوں میں تین بکریاں۔
٭ 301 تا 400 بکریوں میں چار بکریاں۔
٭ 401 تا 500 بکریوں میں پانچ بکریاں۔
اس طرح آگے ہر سو کی تعداد پر ایک بکری مزید بطور زکاۃ دینا ہو گی۔
ممنوع صورتیں مالک نصاب اور صدقہ لینے والے کے اعتبار سے چار ہیں۔
مقصد یہ ہے کہ صدقے سے بچنے یا اسے کم مقدار میں ادا کرنے یا زیادہ لینے کے لیے مال زکاۃ میں جمع و تفریق نہ کی جائے۔
تفصیل حسب ذیل ہے:
مالک نصاب کے اعتبار سے صدقہ وصول کرنے والے کے اعتبار سے شراکت کی بنیاد پر دو شخصوں کی پچاس بکریاں ہیں، جن میں ایک بکری بطور زکاۃ دینا پڑتی ہے۔
جب صدقہ وصول کرنے والا آئے تو وہ پچیس، پچیس بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ کسی کو زکاۃ نہ دینا پڑے۔
یا دو آدمیوں کی بطور شراکت دو سو پچاس بکریاں ہیں، ان میں تین بکریاں زکاۃ واجب ہے وہ زکاۃ کے وقت اپنی بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ دو بکریاں زکاۃ دی جائے۔
دو حضرات کی الگ الگ چالیس، چالیس بکریاں ہیں۔
نصاب کے اعتبار سے ہر ایک پر ایک ایک بکری زکاۃ واجب ہے۔
جب زکاۃ لینے والا آئے تو انہیں یکجا کر لیا جائے۔
اس صورت میں انہیں ایک ہی بکری دینا پڑے گی۔
دو آدمیوں کی الگ الگ پچیس پچیس بکریاں ہیں۔
ان میں سے کسی پر بھی زکاۃ واجب نہیں لیکن صدقہ لینے والا انہیں یکجا کر کے ان سے ایک بکری وصول کر لے۔
دو آدمیوں کی سو بکریاں ہیں، ان پر ایک بکری زکاۃ واجب ہے لیکن صدقہ لینے والا انہیں الگ الگ کر دے اس طرح ایک کی پچاس بکریوں پر ایک اور دوسرے کی پچاس پر بھی ایک بکری وصول کرے۔
رسول اللہ ﷺ نے صدقے سے بچنے یا زیادہ وصول کرنے کے پیش نظر اس سے منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ ایک فریب اور ناجائز حیلہ گری ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1450   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1451  
1451. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے ان کے لیے وہ احکام زکوٰۃ لکھ کر دیے جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے (ان میں سے ایک یہ تھا کہ)جو مال دو شریکوں کااکٹھا ہوتو وہ زکوٰۃ کی رقم بقدر حصہ برابر برابر ادا کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1451]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ذکر کردہ صورت کی وضاحت یہ ہے کہ اگر دو شریکوں کی چالیس بکریاں ہیں تو ایک بکری بطور زکاۃ دینی ہو گی، اب جس کے مال سے صدقہ وصول کرنے والا بکری لے گیا ہے دوسرا اسے اس کی نصف قیمت ادا کرے گا تاکہ حساب برابر ہو جائے، اگر ایک کی دس اور دوسرے کی تیس بکریاں ہیں تو دس والے کو 1/4 اور تیس والے کو 3/4 قیمت ادا کرنا ہو گی، یعنی زکاۃ بقدر حصہ دینی ہو گی، مثلا:
دو شراکت داروں کی ایک سو پچاس بکریاں ہیں ان میں سے ایک کی سو اور دوسرے کی پچاس ہیں۔
جب زکاۃ لینے والا آیا تو وہ سو بکریوں والے سے دو بکریاں زکاۃ واجبہ کے طور پر لے گیا تو اب سو بکریوں والا پچاس بکریوں والے سے ان کی مجموعی قیمت کا 1/3 وصول کرے گا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1451   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2487  
2487. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان کو صدقے کے فرائض کے متعلق ایک تحریر دی تھی جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمائے تھے۔ آپ نے فرمایا: جو مال دو آدمیوں کے درمیان مشترک ہو وہ صدقے میں ایک دوسرے سے برابری کرلیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2487]
حدیث حاشیہ:
زکاۃ دیتے ہوئے زیادہ ادائیگی کی ہے تو وہ زائد ادائیگی کی وصولی کے لیے اپنے ساتھی سے رجوع کرے گا۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ شراکت میں جب دو شخص اپنا اصل مال ملا لیں اور نفع ان کے درمیان مشترک ہو تو مشترک مال سے جس نے زکاۃ دیتے ہوئے زیادہ ادائیگی کی ہے تو وہ زائد ادائیگی کی وصولی کے لیے اپنے ساتھی سے رجوع کرے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بکریوں کے شرکاء کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ آپس میں برابر برابر تقسیم کریں، یعنی ریوڑ میں اگر برابر برابر کا حصہ ہے تو دونوں فریق آدھا آدھا ذمہ لیں گے اور اگر کسی فریق کا ثلث ہے تو اسی حساب سے صدقہ اس کے ذمے ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2487   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6955  
6955. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت ابو بکر ؓ نے انہیں زکاۃ کے متعلق ایک نامہ لکھ کر بھیجا جو رسول اللہ ﷺ نے فرض قرار دیا تھا: زکاۃ کے خوف سے متفرق چیزوں کو جمع نہ کیا جائے اور جمع شدہ چیزوں کو الگ الگ نہ کیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6955]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت زکاۃ سے بچنے کے لیے ایک حیلہ سازی کو ذکر کیا ہے جس کی حدیث میں ممانعت ہے۔
حدیث کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ چالیس سے ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری بطور زکاۃ واجب ہے۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1454)

حدیث میں ترک زکاۃ کے متعلق جس حیلہ سازی کی ممانعت ہے اس کی دو صورتیں حسب ذیل ہیں:
۔
دو آدمیوں میں سے ہر ایک کے پاس چالیس، چالیس بکریاں ہیں۔
ان دونوں میں سے ہرا یک پر ایک بکری زکاۃ واجب ہے۔
وہ دونوں شراکت کر لیں تو اس بہانے اسی (80)
بکریوں پر صرف ایک بکری زکاۃ میں دینی ہوگی۔
اس حیلہ گری سے منع کیا گیا ہے۔
۔
دو شریکوں کے پاس پچاس بکریاں ہیں اور اس تعداد پر ایک بکری زکاۃ واجب ہے۔
وہ زکاۃ سے بچنے کے لیے اپنی بکریاں الگ الگ کر لیں تو اس صورت میں کوئی زکاۃ نہیں ہوگی۔
اس قسم کی حیلہ سازی کی ممانعت ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی زکاۃ ساقط کرنے کے لیے حیلہ سازی نہ کرے کیونکہ شریعت نے فقراء کی حق تلفی سے بچنے کے لیے زکاۃ کے معاملے میں بہت تاکید کی ہے۔
علیحدہ علیحدہ کو جمع کرنا اور اکھٹے کو جدا جدا کرنا اسی بنا پر ناجائز قرار دیا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے زکاۃ میں کمی یا اسقاط زکاۃ لازم آتا ہے تو پھر اس شخص کا کیا حال ہے جو زکاۃ کے اسقاط کے متعلق حیلہ سازی کو جائز قراردیتا ہے اور لوگوں کو اس قسم کے طریقوں سے آگاہ کرتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6955