الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
98. بَابُ ذِكْرِ شِرَارِ الْمَوْتَى:
98. باب: برے مردوں کی برائی بیان کرنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 1394
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" قَالَ أَبُو لَهَبٍ عَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ , فَنَزَلَتْ: تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ".
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا اعمش سے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ ابولہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ سارے دن تجھ پر بربادی ہو۔ اس پر یہ آیت اتری «تبت يدا أبي لهب وتب‏» یعنی ٹوٹ گئے ہاتھ ابولہب کے اور وہ خود ہی برباد ہو گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 1394]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1394 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1394  
حدیث حاشیہ:
جب یہ آیت اتری:
﴿وَاَنذِر عَشِیرَتَكَ الاَقرَبِینَ﴾ (الشعراء: 214)
یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا۔
تو آپ کوہ صفا پر چڑھے اور قریش کے لوگوں کو پکارا‘ وہ سب اکٹھے ہوئے۔
پھر آپ نے ان کو خدا کے عذاب سے ڈرایا تب ابولہب مردود کہنے لگا تیری خرابی ہو سارے دن کیا تو نے ہم کو اسی بات کے لیے اکٹھا کیاتھا؟ اس وقت یہ سورت اتری ﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ یعنی ابولہب ہی کے دونوں ہاتھ ٹوٹے اور وہ ہلاک ہوا۔
معلوم ہوا کہ برے لوگوں کافروں‘ ملحدوں کو ان کے برے کاموں کے ساتھ یاد کرنا درست ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
أَيْ وَصَلُوا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ خَيْرٍ أَوْ شَرٍّ وَاسْتُدِلَّ بِهِ عَلَى مَنْعِ سَبِّ الْأَمْوَاتِ مُطْلَقًا وَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّ عُمُومَهُ مَخْصُوصٌ وَأَصَحُّ مَا قِيلَ فِي ذَلِكَ أَنَّ أَمْوَاتَ الْكُفَّارِ وَالْفُسَّاقِ يَجُوزُ ذِكْرُ مَسَاوِيهِمْ لِلتَّحْذِيرِ مِنْهُمْ وَالتَّنْفِيرِ عَنْهُمْ وَقَدْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى جَوَازِ جَرْحِ الْمَجْرُوحِينَ مِنَ الرُّوَاةِ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا۔
یعنی انہوں نے جو کچھ برائی بھلائی کی وہ سب کچھ ان کے سامنے آگیا۔
اب ان کی برائی کرنا بیکار ہے اور اس سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ اموات کو برائیوں سے یاد کرنا مطلقاً منع ہے اور پیچھے گزرچکا ہے کہ اس کا عموم مخصوص ہے اور اس بارے میں صحیح ترین خیال یہ ہے کہ مرے ہوئے کافروں اور فاسقوں کی برائیوں کا ذکر کرنا جائز ہے۔
تاکہ ان کے جیسے برے کاموں سے نفرت پیدا ہو اور علماءنے اجماع کیا ہے کہ راویان حدیث زندوں مردوں پر جرح کرنا جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1394   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1394  
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں یہ فرمایا کہ برے مردوں کا شر والا ذکر کرنا جائز ہے اور دلیل کے طور پر جس حدیث کا ذکر کیا ہے وہ ابولہب کے بارے میں ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ابولہب تیرے ہاتھ ٹوٹیں اور تو برباد ہو، ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہاں بڑے دقیق انداز میں ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابولہب کے بارے میں واضح کیا کہ وہ شرپسند اور کافر و فاجر بھی تھا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے شر کا ذکر کیا کہ تیرے ہاتھ ٹوٹیں جب نزول کی طرف دیکھا جاتا ہے تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی کہ سارا دن تجھ پر بربادی ہو جواب میں اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے لیے بربادی کا ذکر فرمایا۔ بلاشبہ یہ آیت ابولہب (اللہ کی لعنت ہو اس پر) کی زندگی میں نازل ہوئی مگر قرآن مجید جو کہ قیامت تک کے لیے ہے ابولہب کے مرنے کے بعد بھی لوگ اس آیت میں اس کی برائی کا ذکر پڑھیں گے تو جب اس کی برائی اور شرپسندی کا ذکر اس کے مرنے کے بعد بھی قرآن میں پڑھا جا رہا ہے تو معلوم ہوا کہ شریر لوگوں کے شر کا ذکر کرنا جائز ٹھہرا تاکہ لوگ اس سے نصیحت کو حاصل کریں اور یہاں شریر لوگوں سے مراد کافر ہیں۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والظاهر أن البخاري جري على عادته فى الاستنباط الخفي والحالة فى الظاهر الجلي على سبق الأفهام إليه على أن الآية مرتبة وهى تسمية المزموم، وتغبيب الغيبة وخصوصًا فى الكتاب العزيز الذى يبقي ولا يفني آخر الدهر .» [المتوازي، ص128]
یعنی ظاہر یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق یہاں پر بہت خفی استنباط فرمایا ہے اور ابولہب کے مسئلہ کا جو مذموم ذکر ہے وہ اس کی غیبت ہے اور خصوصاً یہ کتاb عزیز میں مرقوم ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے قیامت تک
محمد ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«عقب باب النهي عن سب الأموات بهذا الباب اشارة إلى أن الأموات الشرار مستثنيٰ عنه كما هو دأبه فى أكثر الأبواب» [الأبواب والتراجم لصحيح البخاري، ج3، ص248]
مردوں کو برا کہنے کی ممانعت اس باب کے ساتھ ہے اور اس باب میں اشارہ ہے کہ جو مردے شریر ہوتے ہیں وہ (پچھلے باب کے عموم سے) مستثنیٰ ہیں جیسا کہ اکثر ابواب میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‏‏‏‏
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ترجمۃ الباب سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مردوں کو برا کہنا منع ہے سوائے ان کے جو شریر ہوں۔ [ارشاد الساري، ج3، ص156]
مزید لکھتے ہیں کہ:
ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے لعنت کے ساتھ ذکر کیا ہے اور وہ برے مردوں کی برائی بیان کرنا ہے۔ اور یہ مخفی نہیں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مندرجہ بالا حدیث مراسیل صحابہ میں سے ہے کیونکہ یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی اور ان دنوں ابن عباس رضی اللہ عنہما یا تو پیدا نہیں ہوئے تھے یا پھر چھوٹے تھے۔ لیکن یاد رکھا جائے کہ مراسیل صحابہ حجت ہیں۔ اہل علم اسی طرف گئے ہیں کہ صحابی کا مرسل روایت بیان کرنا صحیح ہو گا۔ کیونکہ صحابی نے بالواسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو گا یا پھر بلا واسطہ کسی دوسرے صحابی سے الغرض ہر بیان میں صحابہ کرام حدیث بیان کرنے میں سچے ہوتے ہیں۔
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فذكر شرار الموتيٰ من أهل الشرك خاصة جائز لانه لا شك فيه انهم مخلدون فى النار» [التوضيح، كتاب الجنائز، ج10، ص207]
پس شریر مردوں کا ذکر کرنا جو مشرک ہوں جائز ہے، کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ مشرک لوگ ہمیشہ ہمیشہ دوزخی ہیں (لہٰذا ان کا شر لوگوں کو بتانا جائز ہے)۔‏‏‏‏
شارحین کی وضاحت سے واضح ہوتا ہے کہ ابولہب جو کہ بدترین صفت کا حامل تھا اس کے بارے میں قرآن نے عیب کا ذکر فرمایا جو کہ اس کے کفر کو لوگوں کے سامنے واضح کرنا ہے۔ لہٰذا جب اس کی برائی بیان مرنے کے بعد جائز ہوئی تو ترجمۃ الباب سے مناسبت بھی واضح ہوئی۔

اشکال:
یہاں اشکال وارد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابولہب کے اصلی نام کا ذکر کیوں نہیں کیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا اصلی نام عبدالعزٰی تھا تو کس طرح اللہ تعالیٰ اس کے شرکیہ نام سے اسے مخاطب کرتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ لوگ اسے پہچانتے ہی کنیت سے تھے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی کنیت کا ذکر کیا تاکہ لوگ اسے پہچان جائیں۔ (تفصیل کے لیے [كشف المشكل، ج2، ص223] کا مطالعہ فرمائیں)۔

فائدہ:
سورۃ لہب اس وقت نازل ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ: «وَأَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ» [الشعراء: 214]
مذکورہ آیت مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قریبی رشتہ داروں کو عذاب الٰہی سے ڈرانے کا حکم ملا، آیت مبارکہ تکمیل کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کی اہم ترین جگہ کو استعمال فرمایا، جسے صفا پہاڑی کہا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام اقرباء کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا ان لوگوں میں ابولہب بھی موجود تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس نے سنی تو اپنی زبان سے گستاخانہ الفاظ نکالے اور کہا: تیری خرابی ہو کہ سارا دن تو نے ہمیں اسی بات کے لئے اکٹھا کیا ہے؟ اس کے اس جملے پر جس کا ذکر کتب احادیث میں ملتا ہے اللہ تعالیٰ نے سورۃ لہب کا نزول فرمایا، جس میں دفاعی الفاظ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا منہ توڑ جواب دیا گیا کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹیں اور وہ برباد ہو۔ اب غور طلب حجیت حدیث کا نکتہ یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ شعراء کی آیت کے مطابق اپنے رشتہ داروں کو ڈرایا اس موقع پر ابولہب نے گستاخی کی اس گستاخی کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے بلکہ اس کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔ اب احادیث میں جس گستاخی کا ذکر موجود ہے دفاعی طور پر اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب سورۃ لہب میں دیا۔ اگر احادیث کا حجت ہونا ثابت نہ ہوتا تو ہرگز قرآن مجید اس گستاخی کا جواب نہ دیتا جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔ فافھم!

فائدہ نمبر 2:
قرآن مجید کو کسی بھی زوایئے سے آزمائیں یہ کتاب ہر امتحان میں پوری اترتی ہے۔ موجودہ دور میں سائنسدان نے ایک اصطلاح متعارف کروائی ہے جسے (Falsification Test) کہا جاتا ہے۔ یعنی جب سائنسدان کسی چیز کی تحقیق پیش کرتا ہے تو ساتھ ہی اس کی تردید کے لیے تین تردیدی امتحان بھی پیش کرتا ہے اگر اس تردیدی عمل سے میری تحقیق غیر ثابت ہوئی تو اسے مانے بغیر ہی رد کر دیا جائے گا۔ اس تحقیق کو سائنسی اصطلاح میں (Falsification Test) کہا جاتا ہے۔ اسلام کے علاوہ دنیا میں جتنے بھی ادیان و مذاہب ہیں کوئی بھی اس تردیدی امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکا، لیکن دین اسلام واحد دین ہے جو اس امتحان میں بھی کامیاب ہوا۔ اس کی کئی مثالیں قرآن وحدیث میں موجود ہیں اوراق اجازت نہیں دیتے بس صرف ایک مثال پیشِ خدمت ہے۔
سورۃ لہب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابولہب کے بارے میں نازل ہوئی جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت بڑا دشمن تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو عقیدہ توحید کی دعوت دی تو آپ کے چچا ابولہب نے شدید مخالفت کی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ابولہب کو کفر کی موت اور جہنم کی بشارت سنائی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سورۃ ابولہب کے مرنے سے آٹھ یا دس سال قبل نازل ہوئی اور قرآن مجید نے کئی سال پہلے ہی یہ خبر نشر کر دی کہ ابولہب کو جب بھی موت آئے گی وہ کفر پر ہی ہو گی۔

قارئین کرام! غور فرمائیں ایک مرتبہ بھی اگر ابولہب لوگوں کو دکھانے کے لیے اپنی زبان سے کلمہ شہادت ادا کر لیتا تو قرآن مجید کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے بہت تھا۔ مگر چونکہ یہ کلام بشری کلام نہیں ہے اس لیے آٹھ سال کے عرصے میں اس کے ذہن میں یہ خیال تک پیدا نہ ہوا کہ میں اس طرح سے قرآن کی شدید تکذیب کر سکتا ہوں۔ بائں طور پر یہ واضح ہے کہ اس سورۃ کو وہ خود بھی جانتا تھا لیکن آٹھ سال یا دس سال کے بعد ابولہب نے کفر ہی پر دم توڑا یہ قرآن مجید کا واضح چیلنج ہے جسے ہم (Falsification Test) کہتے ہیں۔ اس ٹیسٹ پر قرآن مجید اور صحیح حدیث کے علاوہ دنیا کی کوئی کتاب پوری نہیں اترتی۔ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ ایسے متعدد پیمانے اور تردیدی امتحانات پیش کرتے ہیں جسے صرف قرآن مجید یا احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی عبور کرسکتے ہیں۔ باقی تمام ادیان اس قسم کے پیمانے کو عبور کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یہ واضح دلیل ہے اس بات کی کہ قرآن اور صحیح حدیث اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 267   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1394  
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی دینی منفعت کے پیش نظر کسی کو برا بھلا کہا جا سکتا ہے جیسا کہ کوئی ایسا شخص جس کی بری خصلتوں سے دوسرے کے گمراہ ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کی بری خصلتیں اور برائیاں لوگوں پر واضح کرنی چاہئیں تاکہ وہ گمراہی سے بچ جائیں، البتہ جو شخص اہل تقویٰ سے ہے اس کی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر بیان کرنا سخت منع ہے۔
(2)
حدیث کے راویوں پر جرح کرنا ان کے مرنے کے بعد بھی جائز ہے، کیونکہ اس سے حفاظتِ دین مقصود ہے۔
اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب التفسیر (حدیث: 4971)
میں بیان کی جائے گی۔
إن شاء الله
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1394