ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ‘ کہا مجھے ہشام بن عروہ نے خبر دی ‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کر دوں تو کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ملے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 1388]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1388
حدیث حاشیہ: باب کی حدیث لاکرامام بخاری نے یہ ثابت کیا کہ مومن کے لیے ناگہانی موت سے کوئی ضرر نہیں۔ گو آنحضرت ﷺ نے اس سے پناہ مانگی ہے کیونکہ اس میں وصیت کرنے کی مہلت نہیں ملتی۔ ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے کہ ناگہانی موت مومن کے لیے راحت ہے اور بدکار کے لیے غصے کی پکڑ ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1388
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1388
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ مومن کے لیے ناگہانی موت نقصان دہ نہیں ہوتی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس ناگہانی موت کا ذکر ہوا تو آپ نے کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا، البتہ ایک دوسری حدیث میں آپ نے اس ناگہانی موت کو ناراضی کی پکڑ قرار دیا ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3310) کیونکہ انسان اس صورت میں ضروری وصیت نہیں کر سکتا اور نہ اسے توبہ کرنے کی مہلت ہی ملتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اچانک موت مومن کے لیے راحت اور بدکار کے لیے باعث افسوس ہے، لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ دیکھیے: (الموسوعة الحديثية، مسند أحمد: 491/4)(2) حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جسے اچانک موت آ جائے اس کی اولاد کو چاہیے کہ نیک اعمال سے اس کی تلافی کرے، لیکن ایسے نیک اعمال ہوں جس سے میت کو فائدہ پہنچ سکتا ہو اور نیابت ہو سکتی ہو۔ (فتح الباري: 323/3) والله أعلم۔ (3) حدیث مذکور میں جن کی والدہ کے انتقال کا ذکر ہوا ہے وہ سعد بن عبادہ ؓ تھے۔ ان کی والدہ کا نام عمرہ تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1388
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 820
´وصیتوں کا بیان` سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہیں اور انہوں نے کوئی وصیت نہیں کی۔ میرا اس کے بارے میں خیال ہے کہ اگر وہ کوئی گفتگو کرتیں تو صدقہ (ضرور) کرتیں۔ کیا انہیں ثواب ملے گا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ہاں“(بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 820»
تخریج: «أخرجه البخاري، الوصايا، باب ما يستحب لمن توفي فجأة أن يتصدقوا عنه.....، حديث:2760، ومسلم، الزكاة، باب وصول ثواب الصدقة عن الميت إليه، حديث:1004.»
تشریح: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولاد کی جانب سے صدقے کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اور بغیر وصیت کے صدقہ کرنا بھی جائز ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 820
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3679
´کیا اچانک مر جانے والے کی طرف سے اس کے گھر والوں کا صدقہ کرنا مستحب ہے؟` ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ: میری ماں اچانک مر گئی، وہ اگر بول سکتیں تو صدقہ کرتیں، تو کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، تو اس نے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کیا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3679]
اردو حاشہ: یہ شخص حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ خود اور ان کی والدہ محترمہ انتہائی سختی تھے۔ وہ نیک اور سخی خاتون ان کی عدم موجودگی میں اچانک فوت ہوگئی تھیں۔ تفصیل آئندہ حدیث میں آرہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3679
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2717
´کوئی شخص وصیت کیے بغیر مر جائے تو کیا اس کی طرف سے صدقہ دیا جائے؟` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، اور اس نے عرض کیا: میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا، اور وہ وصیت نہیں کر سکیں، میرا خیال ہے کہ اگر وہ بات چیت کر پاتیں تو صدقہ ضرور کرتیں، تو کیا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو انہیں اور مجھے اس کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“(ملے گا)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2717]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) انسان کو مرنے کے بعد جس طرح ان اعمال کا ثواب پہنچتا رہتا ہے جو اس نے زندگی میں کیے تھے اور ان کےنیک اثرات بعد میں جاری رہے، اسی طرح اس صدقے وغیرہ کا ثواب بھی پہنچتا ہے جو والدین کی وفات کے بعد اولاد ان کی طرف سے کرے۔
(2) فوت شدہ والدین کی طرف سے صدقے کےلیے یہ شرط نہیں کہ انہوں نے وصیت کی ہو۔
(3) آج کل ایصال ثواب کے نام سے جو محفلیں برپا کی جاتی ہیں اور کھانے کھلائے جاتے ہیں ان کی حیثیت محض ایک رسم کی ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ خاموشی سے کسی مستحق کی مناسب امداد کردی جائے۔
(4) قرض اور دوسرے مالی حقوق کی ادائیگی میں جس طرح زندگی میں نیابت ممکن ہے، اسی طرح وفات کے بعد بھی کسی کا قرض دوسرا آدمی ادا کردے تو فوت شدہ شخص برئ الذمہ ہو جاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2717
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:245
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اگر اولاد اپنے والدین کی طرف سے صدقہ کرے تو ثواب والدین کو پہنچتا ہے۔ یاد رہے ثواب پہنچنا اور ہے اور پہنچانا اور، جیسے ایصال ثواب کے لیے کہا جا تا ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ افسوس کہ بعض لوگوں نے بہت زیادہ غیر شرعی ایصال ثواب کے طریقے بنا رکھے ہیں، جن کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 245
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2760
2760. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہے، میرے خیال کے مطابق اگر اسے گفتگو کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرتی۔ کیا اب میں اس کی طرف سے صدقہ کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں تم اس کی طرف سے صدقہ کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2760]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ورثاءکی طرف سے میت کو خیرات اورصدقے کا ثواب پہنچتا ہے۔ اہلحدیث کا اس پر اتفاق ہے لیکن معتزلہ نے اس کا انکار کیا ہے۔ دوسری روایت میں ہے سعد ؓنے پوچھا کونسی خیرات افضل ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا پانی پلانا۔ اس کوامام نسائی ؒنے روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2760
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2760
2760. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہے، میرے خیال کے مطابق اگر اسے گفتگو کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرتی۔ کیا اب میں اس کی طرف سے صدقہ کرسکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں تم اس کی طرف سے صدقہ کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2760]
حدیث حاشیہ: (1) اس عنوان کے دو جز ہیں، پہلا یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ و خیرات کیا جائے کیونکہ صدقہ میت کو نفع دیتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب ابن آدم فوت ہو جائے تو اس کے تمام اعمال ختم ہو جاتے ہیں مگر تین اعمال کا ثواب بدستور جاری رہتا ہے۔ ان میں ایک صدقہ جاریہ ہے۔ (صحیح مسلم، الوصیة، حدیث: 4223(1631)(2) سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت سعد ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: میری والدہ کے لیے کون سا صدقہ بہتر ہو گا؟ تو آپ نے فرمایا: ”پانی پلانا بہتر صدقہ ہے۔ “(سنن النسائي، الوصایا، حدیث: 3694) روایات میں اس امر کی وضاحت ہے کہ حضرت سعد ؓ نے اپنی والدہ کے لیے ایک کنواں وقف کیا تھا جس کا نام بئر ام سعد تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2760