الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
49. بَابُ مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ كَرَاهِيَةَ أَنْ لاَ يَفْهَمُوا:
49. باب: اس بارے میں کہ علم کی باتیں کچھ لوگوں کو بتانا اور کچھ لوگوں کو نہ بتانا اس خیال سے کہ ان کی سمجھ میں نہ آئیں گی (یہ عین مناسب ہے)۔
حدیث نمبر: 128
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنَ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمُعاذٌ رَدِيفُهُ عَلَى الرَّحْلِ، قَالَ: يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: يَا مُعَاذُ، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلَاثًا، قَالَ:" مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا، قَالَ: إِذًا يَتَّكِلُوا"، وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا.
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، اس نے کہا کہ میرے باپ نے قتادہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) معاذ بن جبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوبارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سہ بارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول، تین بار ایسا ہوا۔ (اس کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو (دوزخ کی) آگ پر حرام کر دیتا ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا اس بات سے لوگوں کو باخبر نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اگر تم یہ خبر سناؤ گے) تو لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (اور عمل چھوڑ دیں گے) معاذ رضی اللہ عنہ نے انتقال کے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں حدیث رسول چھپانے کے گناہ پر ان سے آخرت میں مواخذہ نہ ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 128]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريما من أحد يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صدقا من قلبه إلا حرمه الله على النار قال يا رسول الله أفلا أخبر به الناس فيستبشروا قال إذا يتكلوا
   صحيح البخاريمن لقي الله لا يشرك به شيئا دخل الجنة قال ألا أبشر الناس قال لا إني أخاف أن يتكلوا
   صحيح مسلمما من عبد يشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبده ورسوله إلا حرمه الله على النار قال يا رسول الله أفلا أخبر بها الناس فيستبشروا قال إذا يتكلوا فأخبر بها معاذ عند موته تأثما
   مشكوة المصابيح ما من احد يشهد ان لا إله إلا الله وان محمدا رسول الله صدقا من قلبه إلا حرمه الله على النار قال يا رسول الله افلا اخبر به الناس فيستبشروا قال إذا يتكلوا واخبر بها معاذ عند موته تاثما
   المعجم الصغير للطبراني من مات وهو يشهد أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله دخل الجنة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 128 کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 128  
لغوی توضیح:
«رَدِیْف» کسی بھی سوار کے پیچھے بیٹھنے والا۔
«تَاَثُّمًا» گناہ سے بچنے کی غرض سے۔

فھم الحدیث:
اس سے معلوم ہوا کہ دین کے کسی بھی اہم کام کی خبر دیتے وقت سامعین کو خوب اچھی طرح متوجہ کر لینا چاہیے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو تین مرتبہ پکار کر متوجہ کیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عوام الناس کو محض بشارتیں ہی نہیں سناتے رہنا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں اندیشہ ہے کہ کہیں وہ اعمال میں سست و کوتاہ نہ بن جائیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 16   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:128  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم و تبلیغ کے وقت حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ سامعین کی ذہنی سطح کا پورا پورا لحاظ رکھا جائے، ہر بات مجمع عام میں بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔
بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کچھ حضرات سمجھ سکتے ہیں جبکہ وہی باتیں دوسروں کی ذہنی سطح سے اونچی ہوتی ہیں ایسا کرنے سے دہ نقصان ہوتے ہیں:
(1)
۔
علم کا ضیاع (2)
۔
اندیشہ انکار وتکذیب۔
جہلاء کی عادت ہے کہ جس بات کو وہ نہیں سمجھتے، اس کا انکار کر دیتے ہیں اور بات کہنے والے کو جھوٹا خیال کرتے ہیں۔
قائل کی تکذیب گویا اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔
اس طرح انسان کا ایمان بھی خطرے میں پڑجاتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کا یہی مطلب ہے۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کہنا ہے کہ جب بھی تم کسی قوم کے سامنے کوئی ایسی بات کرو گے جو ان کی عقل سے بالاتر ہوگی تو وہ بعض کے لیے فتنے کا باعث بن جائے گی۔
(صحیح مسلم، المقدمة (14)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے طریقہ تالیف کے خلاف پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول پیش کیا اس کے بعد سند کا حوالہ دیا ہے۔
شارح بخاری نے اس کی کئی ایک توجیہات بیان کی ہیں۔
(1)
۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ تفنن ہے۔

سند بعد میں دستیاب ہوئی۔

حدیث رسول اور اثر صحابہ کے درمیان فرق کرنے کے لیے ایسا کیا ہے یعنی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سند پہلے اور متن بعد میں اور آثار صحابہ کے لیے اسناد بعد میں لاتے ہیں۔
لیکن اس قانون کا اہتمام ہر جگہ نہیں کیا بلکہ بعض مقامات پر ایسا کرتے ہیں۔
(عمدۃ القاری: 290/2)
پہلا اور دوسرا جواب زیادہ قرین قیاس ہے۔
واللہ أعلم۔
(3)
۔
حدیث میں ہے کہ جو شخص بھی توحید و رسالت کی اس طرح شہادت دے کہ زبان کے ساتھ دل بھی مخلصانہ طور پراس کا معترف ہو تو اللہ تعالیٰ اسے آگ پر حرام کردے گا۔
اس پر اشکال ہے کہ بے شمار روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ فساق مومنین آگ میں جائیں گے تو پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ اس اشکال کے درج ذیل جوابات ہیں۔
(1)
۔
یہ بشارت ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے ایمان کی شہادت کے ساتھ اعمال صالحہ بھی کیے ہوں چنانچہ ترمذی میں اقرار شہادتین کے ساتھ نماز، روزہ اور حج کا بھی ذکر ہے۔
(2)
۔
یہ بشارت ان حضرات کے لیے ہے جنھوں نے آخری وقت شہادتین کا اقرار کیا پھر موت آ گئی، ایسی صورت میں برے اعمال توبہ سے معاف ہو گئے، پھر ان کو موقع ہی نہیں ملا کہ موت نے آ لیا۔
(3)
۔
اس سے مخصوص آگ مراد ہے یعنی وہ آگ جو عذاب کفار کے لیے تیار کی گئی ہے اور جس میں گرنے کے بعد دوبارہ نکلنے کا موقع نہیں ملے گا۔
ایسے شخص کا جنت میں داخلہ ناممکن ہے۔
رہی وہ آگ جو اہل ایمان کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کے لیے ہے تاکہ انھیں دخول جنت کے قابل بنایا جائے۔
وہ الگ آگ ہے۔
حدیث میں مذکور آگ سے مراد کفار کے لیے تیار کی گئی آگ ہے۔
(4)
۔
اس تحریم سے مراد تحریم مؤبد ہے یعنی ایسا شخص ہمیشہ آگ میں نہیں رہے گا کچھ دنوں کے لیے جا سکتا ہے۔
(5)
۔
حدیث میں کلمہ شہادت کی ایک تاثیر بیان ہوئی ہے لیکن اس تاثیر کے لیے کچھ شرائط اور موانع ہیں۔
اگر شرائط پائی گئیں اور رکاوٹیں حائل نہ ہوئیں تو کلمہ شہادت لازمی طور پر اپنی تاثیر دکھائے گا۔
اس کے برعکس اگر شرائط کا لحاظ نہ رکھا یا رکاوٹیں حائل ہو گئیں تو کلمہ شہادت کا یہ اثر کمزور یا ختم ہو سکتا ہے۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام امتناعی کی دو قسمیں ہیں (1)
۔
نہی تحریم (2)
۔
نہی تنزیہ۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نہی کو نہی تنزیہ پر محمول کیا اگر نہی تحریم ہوتی تو حضرت معاذ اس کی بالکل خبر نہ دیتے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس تاثر کی خبر ایسے شخص نے دی جو ان کی موت کے وقت وہاں موجود تھا۔
(فتح الباري: 300/1)
چلتے چلتے صاحبانتدبرکی بھی سنتے جائیں فرماتے ہیں۔
باقی رہ گئی یہ بات کہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات اپنی موت کے قریب کتمان علم کے گناہ سے بچنے کے لیے بتائی تو یہ راوی کا اپنا تاثر ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس کا عام چرچا نہ کیا لیکن اہل علم میں وہ اس کو بیان کرتے رہے ہوں گے۔
اتنی بڑی بات آخر معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیسے راز رکھ سکتے تھے۔
(تدبر حدیث: 229/1)
یعنی اصلاحی صاحب ہر جگہ اپنے قیاس و تاثر کی دخل اندازی کو ضروری سمجھتے ہیں:
﴿إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 128   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 25  
´اللہ تعالیٰ اور بندوں کا ایک دوسرے پر حق`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُعَاذٌ رديفه على الرحل قَالَ: «يَا معَاذ بن جبل قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ قَالَ يَا مُعَاذُ قَالَ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْديك ثَلَاثًا قَالَ مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاس فيستبشروا قَالَ إِذا يتكلوا وَأخْبر بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا» . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی کہ اے معاذ! معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا لبیک و سعدیک یا رسول اللہ یعنی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو آواز دی کہ اے معاذ! معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ جی یا رسول اللہ! حاضرِ خدمت ہوں۔ اسی طرح تین دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دے کر پکارا اور معاذ رضی اللہ عنہ نے لبیک و سعدیک سے جواب دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ ہی سچا معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ یقیناًً اس پر دوزخ کی آگ کو حرام کر دے گا۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں اس کی خوشخبری لوگوں کہ نہ سنا دوں تاکہ لوگ خوش ہو جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ خوشخبری سن کر لوگ اس پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائیں گے اور عمل کو چھوڑ دیں گے۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے مرنے کے وقت یہ حدیث لوگوں کو سنا دی تاکہ گناہ سے بچے رہیں۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 25]
تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 128]،
[صحیح مسلم 148]

فقہ الحدیث
➊ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت گناہ کے خوف سے یہ حدیث بیان فرما دی تھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من كتم علماً تلجم بلجام من نار يوم القيامة»
جو شخص علم چھپائے گا اسے قیامت کے دن آگ کی لگام دی جائے گی۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 95، الموارد: 95]
علماء کرام نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث چند خاص لوگوں کے سامنے بیان کی تھی، اور حدیث میں ممانعت عام لوگوں کے سامنے بیان کرنے کی ہے، یا یہ کہ ممانعت تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے۔ «والله اعلم»
➋ اس حدیث سے معلوم ہوا «لا اله الا الله» اور «محمد رسول الله» کا زبانی اقرار کافی نہیں، بلکہ دلی یقین کے ساتھ اس کا اقرار اور اس پر عمل بھی ضروری ہے۔
➌ احادیث نبویہ کا بیان کرنا دین و ایمان میں سے ہے۔
➍ کوئی اہم بات بتانے کے لئے سامعین کو اچھی طرح متوجہ کرنا مسنون ہے، تاکہ وہ پوری یکسوئی اور توجہ کے ساتھ سن لیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 25   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 129  
´علم کی باتیں کچھ لوگوں کو بتانا اور کچھ لوگوں کو نہ بتانا`
«. . . قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا، قَالَ: ذُكِرَ لِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِمُعَاذِ: مَنْ لَقِيَ اللَّهَ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، قَالَ: أَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ، قَالَ: لَا إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَّكِلُوا . . .»
. . . انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے بیان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے اس کیفیت کے ساتھ ملاقات کرے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو، وہ (یقیناً) جنت میں داخل ہو گا، معاذ بولے، یا رسول اللہ! کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت نہ سنا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، مجھے خوف ہے کہ لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ كَرَاهِيَةَ أَنْ لاَ يَفْهَمُوا: 129]
تشریح:
اور اپنی غلط فہمی سے نیک اعمال میں سستی کریں گے۔ نجات اخروی کے اصل الاصول عقیدہ توحید و رسالت کا بیان کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا، جن کے ساتھ لازماً اعمال صالحہ کا ربط ہے۔ جن سے اس عقیدہ کی درستگی کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی لیے بعض روایت میں کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کو جنت کی کنجی بتلاتے ہوئے کنجی کے لیے دندانوں کا ہونا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح اعمال صالح اس کنجی کے دندانے ہیں۔ بغیر دندانے والی کنجی سے قفل کھولنا محال ہے ایسے ہی بغیر اعمال صالحہ کے دعوائے ایمان و دخول جنت ناممکن، اس کے بعد اللہ ہر لغزش کو معاف کرنے والا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 129   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 129  
129. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے بیان کیا گیا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے فرمایا: جو شخص اللہ سے بایں حالت ملے گا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ہو گا تو وہ یقیناً جنت میں داخل ہو گا۔ حضرت معاذ ؓ بولے: یا رسول اللہ! کیا میں لوگوں کو اس بات کی بشارت نہ سنا دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اس پر بھروسا کر بیٹھیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:129]
حدیث حاشیہ:
اور اپنی غلط فہمی سے نیک اعمال میں سستی کریں گے۔
نجات اخروی کے اصل الاصول عقیدہ توحید ورسالت کا بیان کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا، جن کے ساتھ لازماً اعمال صالحہ کا ربط ہے۔
جن سے اس عقیدہ کی درستگی کا ثبوت ملتا ہے۔
اسی لیے بعض روایت میں کلمہ توحید لا الہ الا اللہ کو جنت کی کنجی بتلاتے ہوئے کنجی کے لیے دندانوں کا ہونا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح اعمال صالح اس کنجی کے دندانے ہیں۔
بغیر دندانے والی کنجی سے قفل کھولنا محال ہے ایسے ہی بغیر اعمال صالحہ کے دعوائے ایمان و دخول جنت ناممکن، اس کے بعد اللہ ہر لغزش کو معاف کرنے والا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 129   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 148  
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) کو جب کہ وہ پالان پر آپؐ کے پیچھے سوار تھے، پکارا: اے معاذ! انھوں نے عرض کیا: لبّیك یا رسول اللہ و سعدیك، تین دفعہ ایسا ہوا پھر آپ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی سچّے دل سے شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ اس کے رسول ہیں، تو اللہ نے دوزخ پر ایسے شخص کو حرام کر دیا ہے۔ حضرت معاذ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:148]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث میں آپ (صلی اللہ عنہ)
نے خود یہ خوشخبری دینے کا حکم دیا تھا،
لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب آپ کےسامنے اس میں جو منفی پہلو تھا وہ پیش کیا اور نبی نے اس کو خلاف مصلحت سمجھا،
تو آپ نے حضرت عمر کی رائے تسلیم کر لی،
اس سے یہ اصول نکلا کہ اگر کوئی بڑا حتی کہ اللہ کا نبی ورسول بھی کسی معاملہ میں اپنی رائے ظاہر کرے اور کسی صاحب رائے آدمی کو اس میں مضرت کا پہلو نظر آئے تو وہ اد ب واحترام کے ساتھ اپنی رائے اور اپنا مشورہ پیش کرنے میں تامل نہ کرے،
اور بڑے کو چاہیے کہ وہ اس رائے یا مشورہ پر غور وخوض کرے،
اگر دوسرے کی رائے بہتر اور مصلحت وحکمت کے مطابق ہو تو اس کو قبول کرکے اپنی رائے سے رجوع کرنے میں ادنیٰ تامل نہ کرے۔
نبی اکرم ﷺ نے عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے بعد اپنی رائے بدل لی تھی۔
(2)
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے،
اس وقت تک اس حدیث کے ضیاع کا احتمال نہیں تھا،
جب مرنے لگے تو انہیں کتمان علم (علم چھپانا)
کا اندیشہ لاحق ہوا،
جو ایک بڑا جرم ہے،
اور نبی اکرم ﷺ کا منع فرمانا،
ایک مصلحت وحکمت کےلیے تھا کہ لوگ اس پر اعتماد کرکے سعی وعمل سے بیٹھ رہیں گے،
لیکن جب دین کی نشرواشاعت عام ہوگئی،
آپ کی وفات تک دین وشریعت مکمل ہوگئے،
لوگوں کے اندر،
دین راسخ ہوگیا اور جذبہ عمل قوی ہوگیا اور عمل وکوشش میں کوتاہی کا ڈر نہ رہا تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث،
موت کے وقت بیان کر دی،
کیونکہ نہی تحریم کےلیے نہ تھی،
وگرنہ حضرت معاذ جیسے صاحب علم وفضل کو کتمان علم کا اندیشہ لاحق نہ ہوتا۔
اور حقیقت یہ ہے کہ کلمہ شہادت کا دل کی گہرائی سے اقرار انسان کو دین کی مکمل پابندی پر مجبور کرتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان دوزخ سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 148   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:129  
129. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھ سے بیان کیا گیا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے فرمایا: جو شخص اللہ سے بایں حالت ملے گا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ہو گا تو وہ یقیناً جنت میں داخل ہو گا۔ حضرت معاذ ؓ بولے: یا رسول اللہ! کیا میں لوگوں کو اس بات کی بشارت نہ سنا دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اس پر بھروسا کر بیٹھیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:129]
حدیث حاشیہ:

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کا نام نہیں بتایا جس نے آپ کو اس واقعے کی خبر دی۔
اسی طرح حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں بھی اس شخص کے نام کی صراحت نہیں ہے کیونکہ معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو وفات کے وقت بیان کیا جبکہ آپ شام میں تھے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جابر دونوں مدینہ منورہ میں رہتے تھے یہ دونوں حضرات وفات کے وقت حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس نہ تھے۔
حضرت عمرو بن میمون یا عبد الرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں خبر دی ہو گی کیونکہ اول الذکر وفات کے وقت وہاں موجود تھے اور ثانی الذکر بھی اس روایت کو حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔
(فتح الباري: 300/1)
حضرت عمرو بن میمون بھی حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس روایت کو نقل کرتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الجهاد، حدیث: 2856)

اس حدیث میں صرف تو حید کا ذکر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو شاید راوی نے حذف کردیا ہے۔
مرجیہ اس روایت کو اپنے موقف کے اثبات کے لیے پیش کرتے ہیں کہ ایمان کے بعد کسی قول و فعل کی ضرورت نہیں حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آخری وقت صدق دل سے (لا إلَهَ إِلاَّ اللهُ)
کہے گا۔
وہ ضرور جنت میں جائے گا۔
اورجہنم اس پر حرام ہو گی۔
مشہور حدیث بطاقہ کا بھی یہی محمل ہے۔
یا اس کا وہ مطلب ہے جو وہب بن منبہ نے بیان فرمایا ہے کہ کلمہ توحید (لا إلَهَ إِلاَّ اللهُ)
جنت کی چابی ہے لیکن چابی کے دندانے ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے تالا کھولا جاتا ہے۔
دندانوں کے بغیر تالا نہیں کھولا جا سکتا۔
کلمہ تو حید کے لیے اعمال صالحہ دندانے ہیں۔
(صحیح البخاري، الجنائز، باب 1)
بشارت دینے کا معاملہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے انھیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منع کر دیا تھا۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 147)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 129