ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے خالد حذاء نے، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو ہم غسل دے رہی تھیں۔ جب ہم نے غسل شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غسل دائیں طرف سے اور اعضاء وضو سے شروع کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 1256]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1256
حدیث حاشیہ: اس سے معلوم ہوا کہ پہلے استنجا وغیرہ کرا کے وضو کرایا جائے اور کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی ثابت ہوا پھر غسل دلایا جائے اور غسل دائیں طرف سے شروع کیا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1256
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1256
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غسل سے پہلے میت کو وضو کرانا چاہیے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلے استنجا وغیرہ کرایا جائے اور وضو میں کلی کرانا اور اس کے ناک میں پانی ڈالنا بھی مستحب ہے اور یہ وضو، غسل کا ایک حصہ ہے۔ (فتح الباري: 168/3) وضو کراتے وقت اس کے منہ اور ناک میں پانی ڈالنا کیونکر ممکن نہیں ہوتا، اس لیے ان کو روئی وغیرہ سے صاف کیا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1256