ایوب نے کہا کہ مجھ سے حفصہ نے بھی محمد بن سیرین کی حدیث کی طرح بیان کیا تھا۔ حفصہ کی حدیث میں تھا کہ طاق مرتبہ غسل دینا اور اس میں یہ تفصیل تھی کہ تین یا پانچ یا سات مرتبہ (غسل دینا) اور اس میں یہ بھی بیان تھا کہ میت کے دائیں طرف سے اعضاء وضو سے غسل شروع کیا جائے۔ یہ بھی اسی حدیث میں تھا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے کنگھی کر کے ان کے بالوں کو تین لٹوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: Q1255]
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کے غسل کے وقت فرمایا تھا کہ دائیں طرف سے اور اعضاء وضو سے غسل شروع کرنا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/حدیث: 1255]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1255
حدیث حاشیہ: ہر اچھاکام دائیں طرف سے شروع کرنا مشروع ہے اور اس بارے میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1255
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1255
حدیث حاشیہ: حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر اچھے کام کو دائیں ہاتھ سے شروع کرتے تھے اور آپ کو دائیں جانب پسند ہوتی تھی۔ امام بخاری ؒ نے عنوان مطلق رکھا ہے تاکہ غیر غسل کو غسل پر قیاس کیا جا سکے۔ حدیث میں دائیں اطراف اور مقامات وضو کا ذکر ہے۔ ان دونوں میں منافات نہیں کیونکہ بعض اوقات دائیں اطراف اور مقامات وضو کو بیک وقت بھی دھویا جا سکتا ہے، پھر جو اعضاء وضو میں نہیں دھوئے جاتے غسل کے وقت ان کی دائیں جانب کو دھویا جائے۔ دراصل امام بخاریؒ، ابو قلابہ کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ میت کو غسل دیتے وقت پہلے سر پھر داڑھی سے آغاز کیا جائے۔ (فتح الباري: 168/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1255