تخریج: «أخرجه البخاري، الصلاة، باب تشبيك الأصابع في المسجد وغيره، حديث:482، والسهو، باب يكبر في سجدتي السهو، حديث:1229، ومسلم، المساجد، باب السهو في الصلاة، حديث:573، وأبوداود، الصلاة، حديث:1008، وهو حديث صحيح، وحديث:"ولم يسجد حتي يقَّنه الله تعاليٰ ذلك" أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:1012 وسنده ضعيف، فيه محمد بن كثير الصنعاني وهو ضعيف، ضعفه الجمهور من جهة سوء حفظه واختلط أيضًا.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سہو سرزد ہوا ہے اور یہ نبوت کے منافی نہیں۔
2.اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ بھی انسان تھے۔
سہو وغیرہ ایک انسان سے ہی سرزد ہوتا ہے۔
جس طرح آپ نے فرمایا:
«إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ أَنْسٰی کَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِیتُ فَذَکِّرُونِي» (صحیح مسلم‘ المساجد‘ باب السھو في الصلاۃ والسجودلہ‘ حدیث:۵۷۲) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہ تھے اور نہ آپ نے کبھی عالم ما کان وما یکون ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
اگر آپ کو علم غیب ہوتا تو سہو نہ ہوتا اور پھر تصدیق کے لیے لوگوں سے دریافت نہ فرماتے کہ کیا ذوالیدین نے ٹھیک اور سچ کہا ہے؟ سہو کی تصدیق ہونے پر اسے تسلیم کر لیا۔
3. اگر غلطی سرزد ہو جانے پر کوئی اصلاح کرے تو اسے ثابت ہو جانے پر مان لینا چاہیے۔
4. اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سجدۂ سہو کرتے اور اٹھتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہیے۔
5.اس حدیث سے سجدۂ سہو سلام سے پہلے ثابت ہے۔
6.یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلا تشہد بھول جائے تو اس کی تلافی سہو کے دو سجدوں سے ہو جاتی ہے۔
7. اس حدیث میں تو صرف
«صَلَّی النَّبِيُّ» ہے‘ مگر بعض روایات میں
«صَلّٰی بِنَا» کے الفاظ منقول ہیں‘ یعنی ہمیں نماز پڑھائی۔
(صحیح البخاري‘ الصلاۃ‘ حدیث: ۴۸۲) اس صورت میں راوئ حدیث بھی ان نمازیوں میں شریک تھے‘ لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ حدیث قرآن مجید کی آیت:
﴿ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ ﴾ سے منسوخ نہیں کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس آیت کے نزول سے چار پانچ سال بعد اسلام لائے ہیں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ گفتگو سہواً نہیں قصداً ہوئی ہے‘ لہٰذا سلام کے بعد اصلاح نماز کے لیے اتنی سی بات نماز کو باطل نہیں کرتی۔
8. مذکورہ حدیث کے آخری ٹکڑے
«وَلَمْ یَسْجُدْ حَتّٰی یَقَّنَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی ذٰلِکَ» کی بابت علمائے محققین لکھتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔
وضاحت:
«حضرت خرباق بن عمرو سلمی رضی اللہ عنہ» بنو سلیم سے ہونے کی وجہ سے سلمی کہلائے۔
سہیلی نے الروض الأنف میں لکھا ہے کہ انھوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔
اور ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں کہا ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مقام ذی خشب پر وفات پائی۔
اور بعض روایات میں ذوالیدین کی بجائے ذوالشمالین بھی وارد ہے۔
بعض کا خیال ہے کہ دونوں سے ایک ہی شخص مراد ہے جبکہ یہ وہم ہے۔
صحیح بات یہی ہے کہ یہ دو شخص تھے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ ذوالشمالین بدر میں شہید ہوئے ہیں اور یہ واقعہ بیان کرنے والے حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہم ہیں اور یہ دونوں غزوۂ خیبر کے سال اسلام لائے ہیں۔
اور انھوں نے ذوالیدین کا اس واقعہ میں ذکر کیا ہے۔
اور یہ اسی وقت ہی ہوسکتا ہے جب ذوالیدین کو اس وقت زندہ مانا جائے اور اسے ذوالشمالین سے الگ سمجھا جائے۔