فقہ الحدیث نمازی کو سلام کہنا جائز اور صحیح ہے، حالت نماز میں سلام کا جواب کلام کر کے نہیں، بلکہ اشارے کے ساتھ دینا سنت ہے، کلام کر کے سلام کا جواب لوٹانا منسوخ ہے۔
↰ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نمازی کو سلام کہنے اور اشارے سے جواب لوٹانا جائز ہے۔
«ان عبدالله بن عمر على رجل، و هو يصلي، فسلم عليه فرد الرجل كلاما، فرجع اليه عبدالله بن عمر، فقال له: اذا سلم على احد كم، وهو يصلي، فلا يتكلم وليشر بيده۔۔» ”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک ادمی کے پاس سے گزرے، وہ نماز پڑھ رہا تھا، آپ نے اسے سلام کہا:، اس نے بول کر جواب د یا، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کی طرف لوٹے اور اسے فرمایا: جب تم میں سے کسی ایک کو سلام کہا جائے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو وہ کلام نہ کرے، بلکہ اپنے ہاتھوں کے ساتھ اشارہ کر دے۔
“ [الموطا للامام مالك: 168/1، مصنف ابن ابي شيبه: 74/2، ح: 4749، اسناده صحيح كالشمس وضوحاًً] مانعین کا ایک اعتراض ➑
«عن جابر بن عبدالله رضى الله عنه، قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم فى حاجة له، فانطلقت، ثم رجعت، وقد قضيتها، فا اتيت النبي صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه، فلم يرد علي، فوقع فى قلبي ما الله اعلم به، فقلت فى نفسي: لعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد علي أني أ بطأت عليه، ثم سلمت عليه، فلم يرد علي، فوقع فى قلبي أشد من المره الأولي، ثم سلمت عليه، فرد علي، فقال: انما منعني أن أرد عليك أني كنت اصلي، و كان على راحلته متوجها الي غير القبلة۔»
”سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام کی غرض سے بھیجا۔ میں کام مکمل کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا:، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب نہیں د یا۔ میرے غم، حزن کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے، میں نے دل میں کہا: کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاخیر کی وجہ سے مجھ پر ناراض ہو گئے۔ دوبارہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا:، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ لوٹایا، میرے د ل میں پہلے سے بھی زیادہ حزن، ملال پیدا ہوا۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب ارشا د کیا اور فرمایا، بے شک مجھے آپ کے سلام کا جواب دینے سے صرف نماز نے منع کیا تھا۔“ [صحيح بخاري: 1217، صحيح مسلم: 540]
جناب تھانوی لکھتے ہیں:
«فآنه قد صريح فى أنه صلى الله عليه و سلم لم يرد على جابر، لا اشاره ولا لفظا ولو كان رد عليه اشارة لم يقع فى قلب جابر ما وقع، فتقييده بالكلام غير سديد، و أيضا لو كان صلى الله عليه وسلم رد عليه بالاشاره لم يحتج الي رد عليه بعد الفراغ ‘كما هو مذهب من يجير الرد با لاشارة، و قد ثبت أنه رد عليه بعد ما انصرف عن صلاته، و هو الماثور من مذهب الجابر۔۔۔»
اس میں گویا صراحت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر کو نہ اشارتاًً جواب دیا تھا اور نہ ہی لفظاًً۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے جواب دیا ہوتا تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے دل میں غم و حزن ہوتا۔ اس کو اس بات پر مقید کرنا کہ یہ سلام کا جواب بالاشارہ تھا نہ کہ بالکلام، کوئی پختہ رائے نہیں ہے۔ اس طرح اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب بالاشارہ لوٹایا ہوتا، تو نماز سے فراغت کے بعد بالکلام سلام کا جواب لوٹانے کی کیا ضرورت تھی؟ جو اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب لوٹانا جائز سمجھتا ہے، وہ تو ایسا نہیں کرتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے کے بعد سلام کا جواب لوٹایا۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ [اعلاء السنن: 33/5]
جواب: تھانوی صاحب کا یہ کلام حقیقت پر مبنی نہیں ہے، کیونکہ صحیح مسلم شریف کی روایت میں ہے کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب لوٹایا ہے۔ اس سے صحیح بخاری والی روایت کا مفہوم بھی واضح ہو جاتا ہے، کیونکہ احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں۔ رہا یہ مسٔلہ کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے دل میں غم کیوں پیدا ہوا تو حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«فيحمل فى حديث الباب ”فلم يرد علي“ أى باللفظ،، وكان جابر الم يعرف اولا أن المراد بالاشارة الرد فلذلك قال: فوقع فى قلبي ما الله اعلم به، أى من الحزن۔» ”سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر جواب نہیں لوٹایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ بالتسلط نہیں لوٹایا، گویا کہ پہلے پہل سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو علم نہ تھا کہ اشارے سے مراد جواب ہے، اسی لیے تو انہوں نے کہا کہ میرے دل میں وہ حزن و ملال پیدا ہوا، جسے اللہ ہی جانتا ہے۔
“ [فتح الباري لابن حجر: 87/3] ↰ تھانوی صاحب کا یہ کہنا کہ
جواب نہ لوٹانے کو کلام کے ساتھ مقید کرنا پختہ رائے نہیں ہے،
صحیح مسلم کی حدیث اس کا ردّ کرتی ہے، بلکہ دیگر احادیث اور آثار بھی اس کی تردید کرتے ہیں۔ باقی رہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعدِ نماز سلام کا جواب لوٹانے کی کیا ضرورت محسوس کی، روایت میں واضح ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز میں اور سلام پھیرنے کے بعد دونوں کیفیتوں میں سلام کہا:، حالت نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب اشارہ سے اور سلام پھیرنے کے بعد زبان سے بول کر فرمایا، اتنی سی بات تھانوی صاحب کو سمجھ نہ آ سکی اور وہ حدیث کی تاویل کے درپے ہو گئے۔
ظفر احمد تھانوی صاحب نے یہ ذکر کیا ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا مذھب یہ تھا کہ اگر نمازی پر سلام کہا جائے تو وہ بعدِ نماز ہی جواب دے گا،
اس کے ثبوت پر جو دلیل دی ہے، وہ
”ضعیف
“ ہے، جیسا کہ پیچھے اس کا بیان ہو چکا ہے۔ بالفرض تھانوی صاحب کی با ت درست مان بھی لی جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نمازی پر سلام کہا جا سکتا ہے، اگر وہ جواب نہ دے تو حرج نہیں، اگر دے تو جائز ہے، وہ بھی بالاشارہ جواب دے سکتا ہے۔ کلام کر کے جواب دینا ممنوع ہے۔ ہم بھی نماز میں اشارے سے سلام کے جواب کو ضروری قرار نہیں دیتے، بلکہ صرف جواز کے قائل ہیں۔