الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كتاب العمل في الصلاة
کتاب: نماز کے کام کے بارے میں
14. بَابُ إِذَا قِيلَ لِلْمُصَلِّي تَقَدَّمْ أَوِ انْتَظِرْ فَانْتَظَرَ فَلاَ بَأْسَ:
14. باب: اس بارے میں کہ اگر نمازی سے کوئی کہے کہ آگے بڑھ جا یا ٹھہر جا اور وہ آگے بڑھ جائے یا ٹھہر جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے۔
حدیث نمبر: Q1215
فِيهِ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ اس باب میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ [صحيح البخاري/كتاب العمل في الصلاة/حدیث: Q1215]
حدیث نمبر: 1215
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ عَاقِدُو أُزْرِهِمْ مِنَ الصِّغَرِ عَلَى رِقَابِهِمْ، فَقِيلَ لِلنِّسَاءِ: لَا تَرْفَعْنَ رُءُوسَكُنَّ حَتَّى يَسْتَوِيَ الرِّجَالُ جُلُوسًا".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ابوحازم نے، ان کو سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز اس طرح پڑھتے کہ تہبند چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی گردنوں سے باندھے رکھتے اور عورتوں کو (جو مردوں کے پیچھے جماعت میں شریک رہتی تھیں) کہہ دیا جاتا کہ جب تک مرد پوری طرح سمٹ کر نہ بیٹھ جائیں تم اپنے سر (سجدے سے) نہ اٹھانا۔ [صحيح البخاري/كتاب العمل في الصلاة/حدیث: 1215]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريلا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا
   صحيح البخاريلا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا
   صحيح البخاريلا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا
   صحيح مسلملا ترفعن رءوسكن حتى يرفع الرجال
   سنن أبي داودلا ترفعن رءوسكن حتى يرفع الرجال
   سنن النسائى الصغرىلا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1215 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1215  
حدیث حاشیہ:
امام نماز میں بھول جائے یا کسی دیگرضروری امر پر امام کو آگاہ کرنا ہوتو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورت تالیاں بجائیں اگر کسی مرد نے نادانی کی وجہ سے تالیاں بجائیں تو اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔
چنانچہ سہل ؓ کی حدیث میں جو دو بابوں کے بعد آ رہی ہے کہ صحابہ ؓ نے نادانی کی وجہ سے ایسا کیا اور آپ ﷺ نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں فرمایا۔
حدیث اور باب میں یوں مطابقت ہوئی کہ یہ بات عورتوں کو حالت نماز میں کہی گئی یا نماز سے پہلے۔
شق اول میں معلوم ہوا کہ نمازی کو مخاطب کرنا اور نمازی کے لیے کسی کا انتظار کرنا جائز ہے اور شق ثانی میں معلوم ہوا کہ نماز میں انتظار کرنا جائز ہے۔
حضرت امام بخاری ؒ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ کسی کا انتظار اگر شرعی ہے تو جائزہے ورنہ نہیں۔
(فتح الباري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1215   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1215  
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کے ارکان میں ایک دوسرے سے تقدیم و تاخیر کرنا اور ایک دوسرے کے فعل کا انتظار کرنا جائز ہے اس سے نماز باطل نہیں ہوتی اس لیے کہ آپ نے عورتوں کو مردوں کا انتظار کرنے کا حکم دیا اور یہ مستلزم ہے اس بات کو کہ مرد تقدیم کریں اور عورتیں ان سے تاخیر کریں یعنی مرد پہلے سر اٹھائیں اور عورتیں پیچھے سر اٹھائیں یہی وجہ ہے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کی۔ ديكهئے: [فتح الباري، ج4، ص75]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ بات عورتوں کو حالت نماز میں کہی گئی یا نماز سے پہلے۔ شق اول سے معلوم ہوا کہ نمازی کو مخاطب کرنا اور نماز کے لیے کسی کا انتظار کرنا جائز ہے اور شق ثانی سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں انتظار کرنا جائز ہے۔
◈ مزید آپ فرماتے ہیں:
«ومحصل مراد البخاري أن الانتظار إن كان شرعيًا جازو إلا فلا»
حاصل کلام یہ ہے کہ کسی کا انتظار کرنا اگر شرعی ہے تو جائز ہے، ورنہ نہیں۔ [فتح الباري، ج4، ص76]

◈ علامہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ لازم نہیں ہے کہ یہ نماز میں ہی کہا جائے اور نہ ہی حدیث میں اس کی کوئی دلالت موجود ہے۔ بلکہ وہ ایک عام قل ہے چاہے نماز میں ہو یا نماز سے خارج۔ [حاشيه السندي، ج1، ص210]

◈ بدرالدین بن جماعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فقد أفاد المسألتين، خطاب المصلي، وامساك المصلي المريض بما لا يضر لأنه قيل لهن قبلن ولم ينكر عليهن وان كان الخطاب لهن قبل الصلاة فقد أفاد جواز الانتظار لأن النبى صلى الله عليه وسلم لم ينكر عليهن فى أمرهن بذالك ولعله كان هو الأمر به فنسي، وإذا كان الانتظار جائز فطلبه جائز والاصفاء إليه جائز» [مناسبات تراجم البخاري، ص54]

◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيه: جواز سبق المأمون بعضهم لبعض فى الأفعال ولا يضر ذالك»
اس حدیث میں اس کا جواب ہے کہ مقتدی اگر افعال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں تو (نماز) پر کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔ [التوضيح، ج9، ص311]
مزید آپ ترجمۃ الباب اور حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یقیناًً یہ جائز ہے کہ (غیر نمازی) کہے عورتوں سے اپنے سر نہ اٹھانا جب تک کہ مرد حضرات نہ بیٹھ جائیں اور اس کی مثل حدیث: خواتین جلدی کرتیں اپنی جگہ سے ہٹنے کی جب کہ وہ نماز پڑھ چکی ہوتیں۔
ان تمام اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ اگر نمازی یا غیر نمازی، نمازی سے کہے آگے بڑھ جاؤ تو اس صورت میں اگر نمازی آگے بڑھ جائے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی۔

قلت: جیسا کہ تحویل قبلہ کے بعد مسجد میں نماز ہو رہی تھی اور غیر نمازی نے تحویل کی خبر پہنچائی اور لوگوں نے اسی حالت میں قبلہ تبدیل کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فعل پر نکیر بھی نہیں کی۔ لہٰذا اس واقع سے بھی ترجمہ الباب کی تاید ہوتی ہے۔

◈ علامہ وحیدالزماں صاحب رقمطراز ہیں:
اس حدیث میں کہا ہے کہ عورتوں سے یہ اس وقت کہا جاتا جب وہ نماز میں ہوتیں۔ تو باب کا مطلب حدیث سے نکلنا دشوار ہے اور اس کی توجیہہ یوں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ گو لفظ میں دو احتمال ہوتے ہیں جب بھی وہ اس سے دلیل لیتے ہیں اور یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ عورتوں سے یہ نماز کی حالت میں کہا گیا ہو اور جب عورتوں سے یہ نماز کی حالت میں کہا گیا ہو اور جب عورتوں سے کہا گیا کہ تم اپنے سر اس وقت تک نہ اٹھاؤ جب تک مرد سیدھے نہ بیٹھ لیں تو مردوں کا عورتوں سے آگے بڑھنا بھی اس سے نکل آیا۔ [تيسير الباري، شرح صحيح البخاري، ج1، ص712]
امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت یہ بھی ہے کہ اگر کسی مسئلے پر یا پیش کردہ حدیث پر دو احتمالات ہوتے ہیں تو آپ ترجمۃ الباب کے ذریعے اس میں سے ایک احتمال کا ذکر بھی فرما دیا کرتے ہیں۔
مزید اگر غور کیا جائے تو امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ترجمۃ الباب سے احناف کا رد ہے کیونکہ احناف کے نزدیک اگر مصلی کو تقدم یا تاخر کا حکم دیا جائے اور نمازی نے اس کا اتباع کر لیا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ دیکھئے تفصیل کے لئے: [لامع الدراري، ج4، ص300] اور باقی ائمہ کے نزدیک اس کے کہے پر عمل کرے تو نماز فاسد نہ ہو گی۔

ایک اشکال کا جواب:
یہاں اشکال وارد ہوتا ہے کہ «قيل للنساء» تو خارج نماز تھا، جیسا کہ امام قسطلانی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا [ارشاد الساري، ج2، ص1317]
اسی طرح سے صاحب اوجز المسالک نے بھی ذکر فرمایا [الابواب والتراجم، ج3، ص152] تو پھر امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمہ کس طرح ثابت ہو گا؟ کیونکہ بظاہر حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں سے نماز کی حالت میں کہا: جائے؟
جواب:
حدیث میں دونوں احتمال ثابت ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال «بكل المحتمل» ہے۔ یعنی لفظ میں اگر احتمال ہوتے ہیں تب بھی امام بخاری رحمہ اللہ اس سے استدلال فرما لیتے ہیں۔ پس یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ عورتوں سے نماز کی حالت میں کہا گیا ہو «لا ترفعن» لہٰذا اس صورت میں دونوں مسئلے ثابت ہو گئے۔ مردوں کا عورتوں سے تقدم اور عورتوں کا انتظار۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 258   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1215  
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ اگر نمازی باہر سے کسی کی اصلاح قبول کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے کیونکہ تعلیم و تعلم کا سلسلہ دوران نماز میں صحیح نہیں بلکہ صحت نماز کے منافی ہے۔
امام بخاری ؒ اس کی تردید فرماتے ہیں کہ اگر نمازی مصلحت نماز کے لیے باہر سے اصلاح قبول کرتا ہے تو جائز ہے، چنانچہ حدیث مذکور میں عورتوں سے خطاب ہے کہ مردوں کے سیدھا ہو کر بیٹھنے سے پہلے پہلے تم نے سجدے سے اپنے سروں کو نہیں اٹھانا۔
(2)
امام بخاری ؒ اپنی صحیح بخاری میں احادیث کے اطلاق و عموم سے مسائل کا استنباط فرماتے ہیں۔
اس مقام پر بھی انہوں نے حدیث کے عموم و اطلاق سے مسئلہ ثابت کیا ہے کیونکہ حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ مذکورہ خطاب دوران نماز میں تھا یا نماز شروع کرنے سے پہلے۔
علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے:
اگرچہ حدیث میں اس کی صراحت نہیں تاہم کلام کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو دوران نماز میں یہ حکم دیا گیا تھا جبکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کر رہی تھیں، کیونکہ اس میں حرف "فا" استعمال ہوا ہے جو تعقیب کے لیے ہے۔
اس کا تقاضا یہی ہے کہ عورتوں کو دوران نماز یہ حکم دیا گیا تھا۔
(عمدةالقاري: 621/5)
اگر یہ خطاب نماز سے پہلے بھی ہو تو کم از کم اس حکم کی تعمیل میں عورتوں کے لیے دوران نماز انتظار کرنا تو ثابت ہو گا۔
اگر دورانِ نماز میں ہے تو وہ انتظار کریں گی۔
اور مردوں کے بعد سر اٹھائیں گی۔
اس سے مردوں کے لیے تقدم اور عورتوں کے لیے انتظار، یعنی تاخر ثابت ہوا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1215   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 630  
´آدمی گردن کے پیچھے کپڑے باندھ کر نماز پڑھے تو کیسا ہے؟`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اپنے تہبند تنگ ہونے کی وجہ سے گردنوں پر بچوں کی طرح باندھے ہوئے ہیں، تو ایک کہنے والے نے کہا: اے عورتوں کی جماعت! تم اپنے سر اس وقت تک نہ اٹھانا جب تک مرد نہ اٹھا لیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 630]
630۔ اردو حاشیہ:
معلوم ہوا نماز میں ستر ڈھانپنا واجب ہے اور معلوم رہے کہ مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنے تک ستر ہے (یعنی اس حصے کو ڈھانپنا ضروری ہے) اور کندھوں کو بھی ڈھانکا جائے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ مسلمان اپنے اولین دور میں ازحد تنگدستی کا شکار تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 630   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 767  
´تہبند میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچوں کی طرح اپنا تہبند باندھے نماز پڑھ رہے تھے، تو عورتوں سے (جو مردوں کے پیچھے پڑھ رہی تھیں) کہا گیا کہ جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں تم اپنے سروں کو نہ اٹھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 767]
767 ۔ اردو حاشیہ: ازار چھوٹے ہوتے تھے، اس لیے گرہ دینا پڑتی تھی جیسے کہ حدیث نمبر 765 میں بیان ہوا۔ عورتوں کو کہنا صرف احتیاطاً تھا کہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے کہیں کپڑا ادھر ادھر نہ ہو جائے ورنہ یہ نہیں کہ وہ سجدے میں پیچھے سے ننگے ہوتے تھے کیونکہ اس طرح تو نماز ہی نہ ہو گی۔ اگر کپڑا اتنا چھوٹا ہو تو اسے گردن کی بجائے ازار کی طرح کمر پر باندھنا چاہیے کیونکہ شرم گاہ ڈھانپنا فرض ہے۔ یاد رہے! آپ کے دور مبارک میں عورتیں مردوں کے پیچھے باجماعت مسجد میں نماز پڑھتی تھیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 767   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 987  
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے مردوں کو بچوں کی طرح اپنی گردنوں میں اپنی چادریں تنگ ہونے کی بنا پر باندھے ہوئے دیکھا، وہ نبی اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے تو اس پر کسی شخص نے کہا: اے عورتوں کی جماعت، تم مردوں کے اٹھنے تک اپنے سروں کو (سجدہ سے) نہ اٹھانا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:987]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انسان کے لیے ستر عورت ضروری ہے کپڑوں کی تنگی کی وجہ سے عورتوں کو مردوں سے پہلے سجدہ سے سر اٹھانے سے منع کر دیا گیا،
کہ کہیں ایسے نہ ہو کہ سجدہ میں مرد کا ستر کھلا ہو اور اس پر عورت کی نظر پڑ جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 987   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 814  
814. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور چادروں کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں گردنوں سے باندھے ہوتے تھے، چنانچہ عورتوں سے کہہ دیا گیا: جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں تم اس وقت تک اپنے سر سجدے سے نہ اٹھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:814]
حدیث حاشیہ:
اسلام کا ابتدائی دور تھا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر طرح تنگیوں کا شکار تھے۔
بعض لوگوں کے پاس تن پوشی کے لیے صرف ایک ہی تہہ بند ہوتا تھا۔
بعض دفعہ وہ بھی ناکافی ہوتا اس لیے عورتوں کو جو جماعت میں شرکت کرتی تھیں یہ حکم دیا گیا۔
اس سے غرض یہ تھی کہ عورتوں کی نگاہ مردوں کے ستر پر نہ پڑے۔
ایسی تنگ حالت میں بھی عورتوں کا نماز با جماعت میں پردہ کے ساتھ شرکت کرنا زمانہ نبوی میں معمول تھا یہی مسئلہ آج بھی ہے اللہ نیک سمجھ دے اور عمل خیر کی ہر مسلمان کو توفیق عطا فرمائے۔
آمین!
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 814   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:362  
362. حضرت سہل (بن سعد) ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے ہمراہ کچھ صحابہ اپنی چادریں بچوں کی طرح گردنوں پر گرہ لگائے نماز پڑھتے تھے، چنانچہ مستورات کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جب تک لوگ سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں اس وقت تک وہ سجدے سے اپنا سر نہ اٹھائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:362]
حدیث حاشیہ:

بچوں کی طرح گردن پر کپڑے کی گرہ اس لیے لگائی جاتی تاکہ بحالت سجدہ مستور حصہ ظاہر نہ ہوجائے، لیکن اس اہتمام کے باوجود بھی ستر کھلنے کااندیشہ تھا۔
اس لیے عورتوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ سجدے سے اپنے سر مردوں کے ساتھ ہی نہ اٹھا لیاکریں، بلکہ جب وہ مرد اچھی طرح بیٹھ جائیں تو پھر وہ سر اٹھائیں ابوداود (851)
اور مسند احمد (348/6)
میں اس کی یہ مصلحت بیان کی گئی ہے کہ کہیں عورتوں کی نظر مردوں کے حصہ مستور پر نہ پڑ جائے، مبادا یہ کہ کسی فتنے کا باعث بن جائے۔
(فتح الباری: 613/1)

اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اگرکپڑا بدن پر لپیٹا جاسکے تو تہہ بند کے طور پر استعمال کرنے کی نسبت اس میں زیادہ ستر پوشی ہے۔
اگرتنگ ہوتو اس کی دوصورتیں ہیں:
اسے بطور تہ بند پہن لیاجائے یا گردن پر اس کی گرہ لگادی جائے۔
جیساکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم بخاری میں لکھا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 362   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:814  
814. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ لوگ نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور چادروں کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں گردنوں سے باندھے ہوتے تھے، چنانچہ عورتوں سے کہہ دیا گیا: جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں تم اس وقت تک اپنے سر سجدے سے نہ اٹھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:814]
حدیث حاشیہ:
(1)
قبل ازیں امام بخاری ؒ نے ابواب ثیاب میں دو ایسے عنوان قائم کیے ہیں جن کا تعلق طریقۂ نماز سے تھا، یعنی کتاب الصلاة میں باب: 26 اگر کوئی سجدہ کو مکمل نہ کرے اور باب: 27 دوران سجدہ میں بازو کشادہ رہیں اور پہلو سے دور رکھیں اور یہاں دو عنوان ایسے قائم کیے ہیں جن کا تعلق أبواب ثیاب سے ہے۔
ان میں سے ایک مذکورہ عنوان ہے۔
بعض شارحین نے اسے کتاب لکھنے والوں کے سہو و نسیان پر محمول کیا ہے لیکن اسے تسلیم کرنا مشکل ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے دقت نظری سے کام لیتے ہوئے دانستہ طور پر ایسا کیا ہے کیونکہ اس سے پہلے حدیث میں آیا ہے کہ نمازی کے کپڑے بھی سجدہ کرتے ہیں، لہٰذا انہیں دوران نماز میں سمیٹنا درست نہیں، نیز ایسا کرنے سے نماز کی توجہ منتشر ہوتی ہے جو خشوع خضوع کے منافی ہے۔
اور اگر دوران نماز میں ستر کھلنے کا اندیشہ ہو تو نماز میں کپڑوں کو سمیٹنے اور انہیں گرہ لگانے میں چنداں حرج نہیں جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح ہوتا ہے۔
(2)
واضح رہے کہ اس حدیث میں نمازیوں کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے وہ اس وقت تھی جب بہت تنگی اور غربت کا دور تھا جیسا کہ صحیح مسلم میں راوئ حدیث نے اس کی صراحت کی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ عام حالات میں دوران نماز میں کپڑوں کو سمیٹنے کی ممانعت ہے لیکن اضطرابی حالات میں انہیں گرہ لگانے اور سمیٹنے کی اجازت ہے۔
چونکہ اس حالت میں سجدہ کرنے کے لیے سہولت اور آسانی ہوتی ہے، اس لیے اسے أبواب سجود میں بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 386/2)
اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث حدیث: 362 میں گزر چکے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 814