فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کے ارکان میں ایک دوسرے سے تقدیم و تاخیر کرنا اور ایک دوسرے کے فعل کا انتظار کرنا جائز ہے اس سے نماز باطل نہیں ہوتی اس لیے کہ آپ نے عورتوں کو مردوں کا انتظار کرنے کا حکم دیا اور یہ مستلزم ہے اس بات کو کہ مرد تقدیم کریں اور عورتیں ان سے تاخیر کریں یعنی مرد پہلے سر اٹھائیں اور عورتیں پیچھے سر اٹھائیں یہی وجہ ہے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کی۔ ديكهئے:
[فتح الباري، ج4، ص75] ◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یہ بات عورتوں کو حالت نماز میں کہی گئی یا نماز سے پہلے۔ شق اول سے معلوم ہوا کہ نمازی کو مخاطب کرنا اور نماز کے لیے کسی کا انتظار کرنا جائز ہے اور شق ثانی سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں انتظار کرنا جائز ہے۔
“ ◈ مزید آپ فرماتے ہیں:
«ومحصل مراد البخاري أن الانتظار إن كان شرعيًا جازو إلا فلا» ”حاصل کلام یہ ہے کہ کسی کا انتظار کرنا اگر شرعی ہے تو جائز ہے، ورنہ نہیں۔
“ [فتح الباري، ج4، ص76] ◈ علامہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یہ لازم نہیں ہے کہ یہ نماز میں ہی کہا جائے اور نہ ہی حدیث میں اس کی کوئی دلالت موجود ہے۔ بلکہ وہ ایک عام قل ہے چاہے نماز میں ہو یا نماز سے خارج۔
“ [حاشيه السندي، ج1، ص210] ◈ بدرالدین بن جماعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فقد أفاد المسألتين، خطاب المصلي، وامساك المصلي المريض بما لا يضر لأنه قيل لهن قبلن ولم ينكر عليهن وان كان الخطاب لهن قبل الصلاة فقد أفاد جواز الانتظار لأن النبى صلى الله عليه وسلم لم ينكر عليهن فى أمرهن بذالك ولعله كان هو الأمر به فنسي، وإذا كان الانتظار جائز فطلبه جائز والاصفاء إليه جائز» [مناسبات تراجم البخاري، ص54] ◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيه: جواز سبق المأمون بعضهم لبعض فى الأفعال ولا يضر ذالك» ”اس حدیث میں اس کا جواب ہے کہ مقتدی اگر افعال میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں تو
(نماز) پر کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔
“ [التوضيح، ج9، ص311] مزید آپ ترجمۃ الباب اور حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یقیناًً یہ جائز ہے کہ
(غیر نمازی) کہے عورتوں سے اپنے سر نہ اٹھانا جب تک کہ مرد حضرات نہ بیٹھ جائیں اور اس کی مثل حدیث: خواتین جلدی کرتیں اپنی جگہ سے ہٹنے کی جب کہ وہ نماز پڑھ چکی ہوتیں۔
ان تمام اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ اگر نمازی یا غیر نمازی، نمازی سے کہے آگے بڑھ جاؤ تو اس صورت میں اگر نمازی آگے بڑھ جائے تو اس کی نماز باطل نہیں ہوتی۔
قلت: جیسا کہ تحویل قبلہ کے بعد مسجد میں نماز ہو رہی تھی اور غیر نمازی نے تحویل کی خبر پہنچائی اور لوگوں نے اسی حالت میں قبلہ تبدیل کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فعل پر نکیر بھی نہیں کی۔ لہٰذا اس واقع سے بھی ترجمہ الباب کی تاید ہوتی ہے۔
◈ علامہ وحیدالزماں صاحب رقمطراز ہیں:
اس حدیث میں کہا ہے کہ عورتوں سے یہ اس وقت کہا جاتا جب وہ نماز میں ہوتیں۔ تو باب کا مطلب حدیث سے نکلنا دشوار ہے اور اس کی توجیہہ یوں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ گو لفظ میں دو احتمال ہوتے ہیں جب بھی وہ اس سے دلیل لیتے ہیں اور یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ عورتوں سے یہ نماز کی حالت میں کہا گیا ہو اور جب عورتوں سے یہ نماز کی حالت میں کہا گیا ہو
”اور جب عورتوں سے کہا گیا کہ تم اپنے سر اس وقت تک نہ اٹھاؤ جب تک مرد سیدھے نہ بیٹھ لیں
“ تو مردوں کا عورتوں سے آگے بڑھنا بھی اس سے نکل آیا۔
[تيسير الباري، شرح صحيح البخاري، ج1، ص712] امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت یہ بھی ہے کہ اگر کسی مسئلے پر یا پیش کردہ حدیث پر دو احتمالات ہوتے ہیں تو آپ ترجمۃ الباب کے ذریعے اس میں سے ایک احتمال کا ذکر بھی فرما دیا کرتے ہیں۔
مزید اگر غور کیا جائے تو امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ترجمۃ الباب سے احناف کا رد ہے کیونکہ احناف کے نزدیک اگر مصلی کو تقدم یا تاخر کا حکم دیا جائے اور نمازی نے اس کا اتباع کر لیا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ دیکھئے تفصیل کے لئے:
[لامع الدراري، ج4، ص300] اور باقی ائمہ کے نزدیک اس کے کہے پر عمل کرے تو نماز فاسد نہ ہو گی۔
ایک اشکال کا جواب: یہاں اشکال وارد ہوتا ہے کہ «قيل للنساء» تو خارج نماز تھا، جیسا کہ امام قسطلانی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا [ارشاد الساري، ج2، ص1317]
اسی طرح سے صاحب اوجز المسالک نے بھی ذکر فرمایا [الابواب والتراجم، ج3، ص152] تو پھر امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمہ کس طرح ثابت ہو گا؟ کیونکہ بظاہر حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں سے نماز کی حالت میں کہا: جائے؟
جواب: حدیث میں دونوں احتمال ثابت ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال
«بكل المحتمل» ہے۔ یعنی لفظ میں اگر احتمال ہوتے ہیں تب بھی امام بخاری رحمہ اللہ اس سے استدلال فرما لیتے ہیں۔ پس یہاں یہ بھی احتمال ہے کہ عورتوں سے نماز کی حالت میں کہا گیا ہو
«لا ترفعن» لہٰذا اس صورت میں دونوں مسئلے ثابت ہو گئے۔ مردوں کا عورتوں سے تقدم اور عورتوں کا انتظار۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔