الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْإِيمَانِ
کتاب: ایمان کے بیان میں
6. بَابُ إِطْعَامُ الطَّعَامِ مِنَ الإِسْلاَمِ:
6. باب: کھانا کھلانا (بھوکے ناداروں کو) بھی اسلام میں داخل ہے۔
حدیث نمبر: 12
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ، يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ:" تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ".
ہم سے حدیث بیان کی عمرو بن خالد نے، ان کو لیث نے، وہ روایت کرتے ہیں یزید سے، وہ ابوالخیر سے، وہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے کہ ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے؟ فرمایا کہ تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، الغرض سب کو سلام کرو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 12]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف
   صحيح البخاريتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت وعلى من لم تعرف
   صحيح البخاريتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف
   صحيح مسلمتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف
   سنن أبي داودتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف
   سنن النسائى الصغرىتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف
   سنن ابن ماجهتطعم الطعام وتقرأ السلام على من عرفت ومن لم تعرف

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 12 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 12  
تشریح:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «توكل الطعام» کی بجائے «تطعم الطعام» فرمایا۔ اس لیے کہ «اطعام» میں کھانا کھلانا، پانی پلانا، کسی چیز کا چکھانا اور کسی کی ضیافت کرنا اور علاوہ ازیں کچھ بطور عطا بخشش کرنا وغیرہ یہ سب داخل ہیں۔ ہر مسلمان کو سلام کرنا خواہ وہ آشنا ہو یا بیگانہ، یہ اس لیے کہ جملہ مومنین باہمی طور پر بھائی بھائی ہیں، وہ کہیں کے بھی باشندے ہوں، کسی قوم سے ان کا تعلق ہو مگر اسلامی رشتہ اور کلمہ توحید کے تعلق سے سب بھائی بھائی ہیں۔ «اطعام» «طعام» مکارم مالیہ سے اور اسلام مکارم بدنیہ سے متعلق ہیں۔ گویا مالی وبدنی طور پر جس قدر بھی مکارم اخلاق ہیں ان سب کے مجموعہ کا نام اسلام ہے۔ اس لیے یہ بھی ثابت ہوا کہ جملہ عبادات داخل اسلام ہیں اور اسلام و ایمان نتائج کے اعتبارسے ایک ہی چیز ہے اور یہ کہ جس میں جس قدربھی مکارم اخلاق بدنی و مالی ہوں گے، اس کا ایمان و اسلام اتنا ہی ترقی یافتہ ہو گا۔ پس جو لوگ کہتے ہیں کہ ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں ان کا یہ قول سراسر ناقابل التفات ہے۔

اس روایت کی سند میں جس قدر راوی واقع ہوئے ہیں وہ سب مصری ہیں اور سب جلیل القدر ائمہ اسلام ہیں۔ اس حدیث کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اسی کتاب الایمان میں آگے چل کر ایک اور جگہ لائے ہیں۔ اور باب الاستیذان میں بھی اس کو نقل کیا ہے اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اور امام نسائی رحمہ اللہ نے اس کو کتاب الایمان میں نقل کیا ہے اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے باب الادب میں اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے باب الاطعمہ میں۔

غرباء و مساکین کو کھانا کھلانا اسلام میں ایک مہتم بالشان نیکی قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں جنتی لوگوں کے ذکرمیں ہے «ويطعمون الطعام على حبه مسكينا و يتيما و اسيرا» [الدهر: 8] نیک بندے وہ ہیں جو اللہ کی محبت کے لیے مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اسلام کا منشا یہ ہے کہ بنی نوع انسان میں بھوک و تنگ دستی کا اتنا مقابلہ کیا جائے کہ کوئی بھی انسان بھوک کا شکار نہ ہو سکے اور سلامتی وامن کو اتنا وسیع کیا جائے کہ بدامنی کا ایک معمولی سا خدشہ بھی باقی نہ رہ جائے۔ اسلام کا یہ مشن خلفائے راشدین کے زمانہ خیرمیں پورا ہوا اور اب بھی جب اللہ کو منظور ہو گا یہ مشن پورا ہو گا۔ تاہم جزوی طور پر ہر مسلمان کے مذہبی فرائض میں سے ہے کہ بھوکوں کی خبر لے اور بدامنی کے خلاف ہر وقت جہاد کرتا رہے۔ یہی اسلام کی حقیقی غرض و غایت ہے۔
❀ اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی ٭ یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 12   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 12  
فہم الحدیث:
ان احادیث میں بہتر و افضل اسلام کا ذکر ہے لیکن ایک میں جس عمل کو افضل کہا گیا ہے دوسری میں اس کے علاوہ کسی اور کو بہتر کہا گیا ہے۔ اس اختلاف کا سبب اہل علم نے یہ بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل یا حالات کے مطابق یہ فرامین ارشاد فرمائے ہیں، مثلاً جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل میں کسی عمل کی کوتاہی دیکھی تو اس کے سامنے اسی کو افضل قرار دے دیا اور یہ افضلیت اس خاص شخص کی نسبت سے تھی نہ کہ تمام مسلمانوں کے لیے۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حالات کسی خاص عمل کے متقاضی ہیں تو آپ نے سائل کے جواب میں اسی عمل کو افضل قرار دے دیا۔ «والله اعلم»
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 25   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:12  
حدیث حاشیہ:

اس سے پہلے مسلمان کی شان یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ تمام اہل اسلام کا خیر خواہ ہوتا ہے اور اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
اس حدیث میں ایصال نفع کا ذکر ہے کھانا کھلانا ہاتھ سے اور سلام کرنا زبان سے نفع پہنچانا ہے ایک مسلمان کی یہی شان ہونی چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی خیر خواہی کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے۔

اطعام طعام میں کھانا کھلانا، پانی پلانا اور کسی کی ضیافت کرنا شامل ہیں۔
اس کا تعلق مالی مکارم سے ہے۔
اسی طرح مسلمان کو سلام کرنا، خواہ آشنا ہو یا بیگانہ، بدنی مکارم سے متعلق ہے، گویا مالی اور بدنی طور پر جس قدر بھی مکارم اخلاق ہیں ان سب کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوا کہ اسلام اورایمان نتیجے کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہے نیز جس انسان میں مکارم اخلاق، خواہ مالی ہوں یا بدنی، زیادہ ہوں گے اس کا ایمان اتنا ہی ترقی یافتہ ہوگا۔
اس سے مرجیہ کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اعمال کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں، نہ ان سے ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور نہ ان کے چھوڑنے سے ایمان کو نقصان پہنچتا ہے۔

اطعام طعام میں مسلم یا غیر مسلم کی تخصیص نہیں ہے بلکہ جانوروں تک کے کھلانے میں اجر وثواب ہوتا ہے جیسا کہ بکثرت احادیث میں اس کی صراحت ہے، البتہ مسلمان کو کھلانے میں اجرزیادہ ہوگا، وہاں سلام کرنے میں مسلمان کی تخصیص کی جائے گی، کیونکہ کفار اور منکرین حق کو سلام کہنا درست نہیں ہے۔
اہل کتاب کو پہلے سلام نہیں کہنا چاہیے۔
اگر وہ سلام کہیں تو صرف وعلیکم سے جواب دیاجائے۔

ایک ہی سوال کے مختلف جوابات اس بنا پر ہیں کہ سائل کے احوال مختلف ہوتے ہیں، اس کی ضرورت کو دیکھ کر جواب دیاجاتا ہے مثلاً:
ایک شخص نماز کا پابند ہے روزے بھی رکھتا ہے لیکن طبیعت میں ذرا بخل ہے تو اس شخص کو ایسا عمل بتایا جائے گا جو اس کمی کا علاج کرسکے۔
اس طرح ایک شخص مہمان نواز ہے، رحمدل بھی ہے لیکن نماز میں کوتاہی کرتا ہے تو اسے نماز کے متعلق تلقین کی جائے گی کہ یہ افضل عمل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ روحانی مربی ہیں، اس لیے جس عمل کی کمی دیکھتے ہیں اسی کی ترغیب دلائی ہے۔

[أَيُّ الإِسْلامِ أَفْضَلُ] اور [أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ] میں افضل اورخیراگرچہ دونوں اسم تفضیل کے صیغے ہیں، تاہم افضل کے معنی کثرت ثواب کے ہیں جو قلت کے مقابلے میں ہے اور خیر کے معنی نفع ہیں جو شر کے مقابلے میں ہے۔
پہلا سوال مقدار سے متعلق ہے جبکہ دوسرے سوال کاتعلق میعار سے ہے۔
(شرح الکرماني: 92/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 12   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 28  
´اعمال صالحہ بھی ایمان میں شامل ہیں`
«. . . أَنَّ رَجُلًا سَأَل رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ:" تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ . . .»
. . . ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کھانا کھلائے اور ہر شخص کو سلام کرے خواہ اس کو تو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 28]
تشریح:
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں بھی مرجیہ کی تردید فرما رہے ہیں کہ اسلام کے معمولی اعمال صالحہ کو بھی ایمان میں شمار کیا گیا ہے۔ لہٰذا مرجیہ کا مذہب باطل ہے۔ کھانا کھلانا اور اہل اسلام کو عام طور پر سلام کرنا الغرض جملہ اعمال صالحہ کو ایمان کہا گیا ہے اور حقیقی اسلام بھی یہی ہے۔ ان اعمال صالحہ کے کم و بیش ہونے پر ایمان کی کمی و بیشی منحصر ہے۔

اپنے نفس سے انصاف کرنا یعنی اس کے اعمال کا جائزہ لیتے رہنا اور حقوق اللہ و حقوق العباد کے بارے میں اس کا محاسبہ کرتے رہنا مراد ہے اور اللہ کی عنایات کا شکر ادا کرنا اور ا س کی اطاعت و عبادت میں کوتاہی نہ کرنا بھی نفس سے انصاف کرنے میں داخل ہے۔ نیز ہر وقت، ہر حال میں انصاف مدنظر رکھنا بھی اسی ذیل میں شامل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 28   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6236  
6236. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ اسلام کی کون سی بات زیادہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: تم کھانا کھلاؤ اور ہر شخص کو سلام کہو، خواہ تم اسے پہچانو یا نہ پہچانو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6236]
حدیث حاشیہ:
ان احادیث کو روزانہ معمول بنانا بھی بے حد ضروری ہے۔
اللہ ہر مسلمان کو یہ توفیق بخشے آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6236   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 28  
28. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: تم کھانا کھلاؤ، آشنا اور نا آشنا، سب کو سلام کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:28]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری یہاں بھی مرجیہ کی تردید فرما رہے ہیں کہ اسلام کے معمولی اعمال صالحہ کو بھی ایمان میں شمار کیا گیا ہے۔
لہٰذا مرجیہ کا مذہب باطل ہے۔
کھانا کھلانا اور اہل اسلام کو عام طور پر سلام کرنا الغرض جملہ اعمال صالحہ کو ایمان کہا گیا ہے اور حقیقی اسلام بھی یہی ہے۔
ان اعمال صالحہ کے کم وبیش ہونے پر ایمان کی کمی وبیشی منحصرہے۔
اپنے نفس سے انصاف کرنا یعنی اس کے اعمال کا جائزہ لیتے رہنا اور حقوق اللہ وحقوق العباد کے بارے میں اس کا محاسبہ کرتے رہنا مراد ہے اور اللہ کی عنایات کا شکرادا کرنا اور ا س کی اطاعت وعبادت میں کوتاہی نہ کرنا بھی نفس سے انصاف کرنے میں داخل ہے۔
نیز ہر وقت ہرحال میں انصاف مدنظر رکھنا بھی اسی ذیل میں شامل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 28   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5003  
´کون سا اسلام بہتر ہے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا اسلام سب سے اچھا ہے؟ آپ نے فرمایا: کھانا کھلانا، سلام کرنا ہر شخص کو خواہ جان پہچان کا ہو یا نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5003]
اردو حاشہ:
(1) کون سا اسلام بہتر ہے یعنی امور اسلام میں سے کو ن سا کام زیا دہ بہتر اور افضل ہے۔
(2) اس میں جہاں بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے وہاں محتاج اور ضرورت مند لوگوں کی دلجوئی کی طرف بھی رہنمائی کی گئی ہے۔ کھانا کھلانے اور دل جوئی کرنا لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کا ایک تیر بہدف نسخہ ہے۔دیث دار لوگوں،با لخصوص علماء کو اس اہم نکتے کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہیے۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے اسلام کی اہمیت واضح ہو تی ہے۔ لوگوں کے دل موہنے اور انھیں اپنے قریب کرنے کے لیے یہ بہت مفید اور مجرب چیز ہے۔سلام کرنے کےلیے چند لوگوں کو خاص نہ کیا جائے جیساکہ متکبر اور جابر قسم کے لوگوں کا طریقہ ہے بلکہ ہر خاص وعام کو سلام کیا جائے کیونکہ تمام اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، تاہم کسی کافر مشرک اور یہودی وعیسائی کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے اور نہ کسی فاسق وفاجر کو پہلے سلام کیا جائے،البتہ جس شخص کی اصل حقیقت حال معلوم نہ ہو تواسے مسلمان سمجھتے ہوئے سلام کہنے میں پہل کی جاسکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
(4) افضل عمل کےمتعلق مختلف روایا ت آئی ہیں۔ یہ اختلاف اشخاص واحوال کے لحاظ سے ہے، لہذا اسے تضاد نہیں کیا جائے گا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث:4989)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5003   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3253  
´کھانا کھلانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا اسلام بہتر ہے ۱؎؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھلانا، ہر شخص کو سلام کرنا، چاہے اس کو پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3253]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
ہرو اقف اور ناواقف کو سلام کرنے کا مطلب عزیز دوست اور اجنبی یعنی ہر مسلمان کو سلام کرنا ہے۔
جس شخص کےبارے میں معلوم ہو کہ وہ غیر مسلم ہے اسے سلام نہیں کرنا چاہیے۔
یہ غیر مسلم کا فرض ہے کہ مسلمان کوسلام کرنے میں پہل کرے۔
جب وہ سلام کرے تو مسلمان کو چاہیے کہ اسے سلام کے جواب میں وعلیکم کہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3253   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 160  
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اسلام کی کون سی خوبی اور خصلت بہتر ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: لوگوں کو کھانا کھلانا، ہر مسلمان کو سلام کہنا تمھارا شناسا ہو یا ناواقف واجنبی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:160]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
أَيُّ کا مضاف الیہ جمع ہوتاہے،
اس لیے یہاں عبارت مقدر ہوگی،
"أَيُّ خِصَالِ الإِسلام" یا "أي ذوي الإِسْلام"،
اسلام کی کونسی خصلت یا کونسا مسلمان بہترہے۔
(2)
سَلَام:
اسلام کا مسلمانوں کے لیے ایک بہتر تحفہ ہے،
جو بہتر بھی ہے اور پر مغز بھی کہ اس میں دعا کے ساتھ یہ فائدہ بھی ہے کہ دو انسان آپس میں ملتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنی طرف سے سلامتی کی خبر سے ایک دوسرے کو مطمئن کر دیتے ہیں کہ میری طرف سے تم کو ہر قسم کی سلامتی ہے،
کسی قسم کی گھبراہٹ اور تشویش کی ضرورت نہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 160   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:28  
28. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: تم کھانا کھلاؤ، آشنا اور نا آشنا، سب کو سلام کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:28]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں حقیقی اسلام کی علامت اس بات کو قراردیا گیا ہے کہ مسلمان سلام کی کثرت کرتا ہو، یعنی سلام کو تعارف یا کسی خاص وقت کے ساتھ مقید نہ کرے بلکہ ہر سامنے آنے والے کو سلام کرے۔
لیکن اس میں مسلمان کی تخصیص کی جائے گی۔
نیز جو اپنی بد کرداری کی وجہ سے خود کو دعائے سلامتی کا مستحق نہ بنائے اسے بھی سلام کرنا درست نہیں، جیسے کوئی شخص علانیہ زنا کرتا اور شراب پیتا ہو تو وہ مستحق سلام نہیں ہے۔
اگر فاسق صاحب اقتدار ہو اور اندیشہ ہو کہ اگر میں نے اسے سلام نہ کیا تو یہ میرے پیچھے پڑجائے گا تو ایسی صورت میں سلام کی اجازت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 28   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6236  
6236. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے ایک آدمی نے نبی ﷺ سے سوال کیا کہ اسلام کی کون سی بات زیادہ بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: تم کھانا کھلاؤ اور ہر شخص کو سلام کہو، خواہ تم اسے پہچانو یا نہ پہچانو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6236]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سلام کو عام کرنا آپس کی محبت کا ذریعہ ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک پورے مومن نہ بن جاؤ اور تم مومن نہیں بن سکتے جب تک آپس میں محبت نہ کرو۔
کیا میں تمہیں ایک ایسے عمل سے آگاہ نہ کروں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت و الفت پیدا ہو گی، وہ یہ ہے کہ سلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 194(54)
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اہتمام کے ساتھ اس حقیقت سے ہی آگاہ فرمایا ہے کہ ایک دوسرے کو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے سے محبت و الفت پیدا ہوتی ہے۔
اگر یہ سلام دل کے اخلاص اور ایمانی رشتے کی بنیاد پر ہو تو پھر محبت و الفت پیدا ہونے کا یہ بہترین ذریعہ ہے لیکن اسے جان پہچان کی حد تک نہ رکھا جائے بلکہ بلا امتیاز ہر مسلمان کو سلام کرنا چاہیے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ آدمی مسجد کے پاس سے گزرے گا اور اس میں نماز نہیں پڑھے گا اور صرف اس شخص کو سلام کرے گا جسے وہ پہچانتا ہو گا۔
(مسند أحمد: 387/1، بذکر السلام، وابن خزیمة في صحیحه بذکر الصلاة کما في الصحیحة للألباني، حدیث649)
اس حدیث سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ کافر کو سلام کرنا جائز ہے، حالانکہ ایسا کرنا شرعاً درست نہیں کیونکہ کافر انسان مومن کے سلام کا قطعاً حق دار نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ سلام کے اس عمومی انداز سے کافر مستثنیٰ ہے۔
اسے ابتداءً سلام کرنے سے گریز کیا جائے۔
(فتح الباري: 27/11)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6236