حدیث حاشیہ: 1۔
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے
”گھروں کو قبرستان نہ بناؤ
“ سے موجودہ مسئلے کا استنباط کیا ہے کہ چونکہ قبریں محل عبادت نہیں، لہٰذا ان میں نماز پڑھنا جائز نہیں۔
(فتح الباری: 685/1) لیکن علامہ ابن منیر ؒ نے اس معنی اور استنباط کو محل نظر قراردیا ہے۔
ان کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تم گھروں میں اس انداز سے مت رہو، جیسا کہ قبروں میں مردے ہوتے ہیں ان مردوں کا اعمال سے تعلق ختم ہوجاتا ہے اور شرعی پابندیاں بھی ان سے اٹھالی جاتی ہیں۔
اس بنا پر زندوں کے لیے قبرستان میں نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے کے متعلق یہ حدیث خاموش ہے۔
یہ مفہوم مراد لینے کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں بھی لفظ قبور ہے مقابر نہیں اور قبر اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں مردہ دفن کیا جا تا ہے اور مقبرہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں قبریں ہوں۔
(المتواري، ص: 84) لیکن ان کا امام بخاریؒ کے استنباط کو محل نظر قراردینا بجائے خود محل نظر ہے، کیونکہ انھوں نے اس کے لیے حدیث کے الفاظ "قبور" کو بنیاد بنایا ہے۔
حالانکہ بعض روایات میں مقابر کے الفاظ بھی موجود ہیں جس کے معنی قبرستان ہیں۔
(صحیح مسلم، صلاة االمسافرین، حدیث: 824 (780)
اسی طرح حدیث میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبرستان کو مسجد کا درجہ دینے سے منع فرمایا ہے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1188(532)
اس کے علاوہ ابن المنذر ؒ نے اکثر اہل علم سے نقل کیا ہے کہ قبرستان محل صلاۃ نہیں، انھوں نے امام بخاری ؒ کی طرح اسی حدیث کو بنیاد بنا کر استنباط کیا ہے۔
امام بغوی ؒ اور علامہ خطابی ؒ نے اس سے موافقت کی ہے۔
(فتح الباری: 685/1)
2۔
اس حدیث کے اور بھی معنی کیے گئے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
اپنے مردوں کو گھروں میں دفن نہ کرو، کیونکہ ایسا کرنے سے گھروں میں نماز پڑھنے کی گنجائش نہیں رہے گی۔
(فتح الباری: 686/1)
لیکن چونکہ یہاں نماز کا بیان ہے, لہٰذا یہ معنی مناسب معلوم نہیں ہوتے.
گھروں کوصرف نیند کی آماجگاہ نہ بنایا جائے کہ ان میں مردوں کی طرح سوتے رہو کبھی نماز پڑھنے کا خیال تک نہ آئے۔
(فتح الباری: 685/1)
ہمارے نزدیک راجح موقف یہی ہے کہ قبرستان میں نماز پڑھنا درست نہیں۔
البتہ نماز جنازہ قبرستان میں پڑھی جا سکتی ہے۔
گھروں کو مقبرہ نہ بناؤ کا یہی مطلب ہے کہ نفل نمازیں گھر میں پڑھا کرو قبر ستان کی طرح وہاں نماز پڑھنے سے پرہیزنہ کیا کرو۔
واللہ أعلم۔