الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد
کتاب: تہجد کا بیان
25. بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّطَوُّعِ مَثْنَى مَثْنَى:
25. باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا۔
حدیث نمبر: Q1162
وَيُذْكَرُ ذَلِكَ عَنْ عَمَّارٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَأَنَسٍ وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ وَعِكْرِمَةَ وَالزُّهْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ , وَقَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ مَا أَدْرَكْتُ فُقَهَاءَ أَرْضِنَا إِلَّا يُسَلِّمُونَ فِي كُلِّ اثْنَتَيْنِ مِنَ النَّهَارِ.
امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا اور عمار اور ابوذر اور یونس رضی اللہ عنہم صحابیوں سے بیان کیا، اور جابر بن زید، عکرمہ اور زہری رحمہ اللہ علیہم تابعیوں سے ایسا ہی منقول ہے اور یحییٰ بن سعید انصاری (تابعی) نے کہا کہ میں نے اپنے ملک (مدینہ طیبہ) کے عالموں کو یہی دیکھا کہ وہ نوافل میں (دن کو) ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد/حدیث: Q1162]
حدیث نمبر: 1162
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا، كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ , يَقُولُ: إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي، قَالَ: وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمٰن بن ابی الموال نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے تمام معاملات میں استخارہ کرنے کی اسی طرح تعلیم دیتے تھے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھلاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ جب کوئی اہم معاملہ تمہارے سامنے ہو تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك،‏‏‏‏ وأسألك من فضلك العظيم،‏‏‏‏ فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب،‏‏‏‏ اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري ( «أو قال») عاجل أمري وآجله فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه،‏‏‏‏ واقدر لي الخير» (ترجمہ) اے میرے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کی بدولت خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کی بدولت تجھ سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل عظیم کا طلبگار ہوں کہ قدرت تو ہی رکھتا ہے اور مجھے کوئی قدرت نہیں۔ علم تجھ ہی کو ہے اور میں کچھ نہیں جانتا اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے میرے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام جس کے لیے استخارہ کیا جا رہا ہے میرے دین دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے میرے لیے بہتر ہے یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) میرے لیے وقتی طور پر اور انجام کے اعتبار سے یہ (خیر ہے) تو اسے میرے لیے نصیب کر اور اس کا حصول میرے لیے آسان کر اور پھر اس میں مجھے برکت عطا کر اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین، دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے برا ہے۔ یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ) میرے معاملہ میں وقتی طور پر اور انجام کے اعتبار سے (برا ہے) تو اسے مجھ سے ہٹا دے اور مجھے بھی اس سے ہٹا دے۔ پھر میرے لیے خیر مقدر فرما دے، جہاں بھی وہ ہو اور اس سے میرے دل کو مطمئن بھی کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کام کی جگہ اس کام کا نام لے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد/حدیث: 1162]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخارييعلم أصحابه الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمهم السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم فإن كنت تعلم هذا
   صحيح البخاريإذا هم بالأمر فليركع ركعتين ثم يقول اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري وآجله فاقدره لي وإن ك
   صحيح البخاريإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآج
   جامع الترمذيإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري
   سنن أبي داودإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة وليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر يسميه بعينه الذي يريد خير لي في ديني ومعاشي ومعادي وعاقب
   سنن النسائى الصغرىإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم يقول اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستعينك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري
   سنن ابن ماجهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم هذا الأمر فيسميه ما كان من شيء خيرا لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أ

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1162 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1162  
حدیث حاشیہ:
استخارہ سے کاموں میں برکت پیدا ہوتی ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ استخارہ کرنے کے بعد کوئی خواب بھی دیکھا جائے یا کسی دوسرے ذریعہ سے یہ معلوم ہو جائے کہ پیش آمدہ معاملہ میں کون سی روش مناسب ہوگی۔
اس طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ طبعی رجحان ہی کی حد تک کوئی بات استخارہ سے دل میں پیدا ہو جائے۔
حدیث میں استخارہ کے یہ فوائد کہیں بیان نہیں ہوئے ہیں اور واقعات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ استخارہ کے بعد بعض اوقات ان میں سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔
بلکہ استخارہ کا مقصد صرف طلب خیر ہے۔
جس کام کاارادہ ہے یا جس معاملہ میں آپ الجھے ہوئے ہیں گویا استخارہ کے ذریعہ آپ نے اسے خدا کے علم اور قدرت پر چھوڑ دیا اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر پوری طرح اس پر توکل کا وعدہ کر لیا۔
میں تیرے علم کے واسطہ سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے واسطہ سے تجھ سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل کا خواستگار ہوں۔
یہ توکل اور تفویض نہیں تواور کیا چیز ہے؟اور پھر دعا کے آخری الفاظ میرے لیے خیر مقدر فرمادیجئے جہاں بھی وہ ہوا اوراس پر میرے قلب کو مطمئن بھی کر دیجئے۔
یہ ہے رضا بالقضاء کی دعا کہ اللہ کے نزدیک معاملہ کی جو نوعیت صحیح ہے، کام اسی کے مطابق ہو اور پھر اس پر بندہ اپنے لیے ہر طرح اطمینان کی بھی دعا کرتا ہے کہ دل میں اللہ کے فیصلہ کے خلاف کسی قسم کا خطرہ بھی نہ پیدا ہو دراصل استخارہ کی اس دعا کے ذریعہ بندہ اول تو توکل کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ثابت قدمی اور رضا بالقضاءکی دعا کرتا ہے کہ خواہ معاملہ کا فیصلہ میری خواہش کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، ہو وہ خیر ہی اور میرا دل اس سے مطمئن اور راضی ہو جائے۔
اگر واقعی کوئی خلوص دل سے اللہ کے حضور میں یہ دونوں باتیں پیش کر دے تو اس کے کام میں اللہ تعالی کا فضل وکرم سے برکت یقینا ہوگی۔
استخارہ کا صرف یہی فائدہ ہے اور اس سے زیادہ اور کیا چاہیے؟ (تفہیم البخاری)
حضرت امام بخاری ؒ یہاں اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں نفل نماز دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے اور یہی ترجمہ باب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1162   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1162  
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو صرف یہ ثابت کرنے کے لیے بیان کیا ہے کہ نفل نماز دو، دو رکعت کر کے ادا کرنی چاہیے کیونکہ عنوان بھی یہی ہے کہ نفل نماز دو رکعت کر کے پڑھنی چاہیے۔
لیکن اس صورت میں تو کسی کو اختلاف نہیں کیونکہ اس میں شروع ہی سے دو رکعت پڑھنا مقصود ہے۔
اختلاف کی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص چار یا اس سے زیادہ نوافل پڑھنا چاہے تو کس انداز سے پڑھے، بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ دن اور رات کے نوافل کو دو دو رکعت کر کے ادا کرنا چاہیے۔
اس کے متعلق مکمل وضاحت حدیث: 990 کے تحت ہو چکی ہے۔
اور نماز استخارہ کے متعلق ہم اپنی گزارشات آئندہ حدیث: 6382 کے تحت ذکر کریں گے۔
إن شاءاللہ w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1162   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1538  
´استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں استخارہ سکھاتے جیسے ہمیں قرآن کی سورۃ سکھاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے اور یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولاأقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر ۱؎ خير لي في ديني ومعاشي ومعادي وعاقبة أمري فاقدره لي ويسره لي وبارك لي فيه اللهم وإن كنت تعلمه شرا لي فاصرفني عنه واصرفه عني واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به» اے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کے وسیلے سے خیر طلب کرتا ہوں، تجھ سے تیری قدرت کے وسیلے سے قوت طلب کرتا ہوں، تجھ سے تیرے بڑے فضل میں سے کچھ کا سوال کرتا ہوں، تو قدرت رکھتا ہے مجھ کو قدرت نہیں۔ تو جانتا ہے، میں نہیں جانتا، تو پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ معاملہ یا یہ کام ۱؎ میرے واسطے دین و دنیا، آخرت اور انجام کار کے لیے بہتر ہے تو اسے میرا مقدر بنا دے اور اسے میرے لیے آسان بنا دے اور میرے لیے اس میں برکت عطا کر، اے اللہ! اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے دین، دنیا، آخرت اور انجام میں برا ہے تو مجھ کو اس سے پھیر دے اور اسے مجھ سے پھیر دے اور جہاں کہیں بھلائی ہو، اسے میرے لیے مقدر کر دے، پھر مجھے اس پر راضی فرما۔‏‏‏‏ ابن مسلمہ اور ابن عیسیٰ کی روایت میں «عن محمد بن المنكدر عن جابر» ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1538]
1538. اردو حاشیہ:
➊ استخارے کے معنی ہیں خیر مانگنا اور اس [خیر]
کےلئے آسانی کی توفیق طلب کرنا۔ اور یہ ایسے امور میں ہوتا ہے۔ جن میں خیر اورشر کے دونوں پہلووں کا احتمال ہو۔ فرائض اور واجبات شرعیہ میں استخارے کے کوئی معنی نہیں۔ ہاں وقت وکیفیت کے متعلق استخارہ ہوسکتا ہے۔ مثلا ً یا اللہ حج کو اس سال جائوں۔ یا آئندہ سال۔ فضائی راستہ اختیار کروں یا بری یا بحری وغیرہ۔
➋ استخارے کا یہی طریقہ مشروع اور سنت ہے۔ یہ نماز اور دُعا اوقات کراہت کے علاوہ کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ اس سے انسان کا اضطراب ختم ااور کسی ایک جانب پر استقرار حاصل ہو جاتا ہے۔ تب انسان کو وہ کام کرگزرنا چاہیے۔ اللہ اس میں برکت دے گا۔ اور اگر اضطراب قائم رہے تو مسلسل کئی روز تک یہ عمل دہرانا چاہیے۔ ان شاء اللہ کسی ایک پہلو پر دل ٹک جائے گا۔ خیال رہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ خواب ہی میں نظرآئے۔۔۔ اور ایسا بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ کچھ لوگ دوسروں سے استخارہ کراتے ہیں۔ یہ بے معنی سی بات ہے۔ صاحب معاملہ کو خود نماز پڑھ کر دعا کرنی چاہیے۔ شریعت کا اصرار اسی امر پر ہے کہ ہر بندہ اپنے رب سے براہ راست تعلق قائم کرے۔
➌ اس دعا میں ھذا الأمر۔۔۔ کی جگہ اپنی حاجت کا نام لے۔ مثلا ھذا النکاح یا ھذا البیع وغیرہ یا ھذا الأمر پر پہنچ کر اپنے اس کام کی نیت مستحضر کرلے۔ جس کے لئے وہ استخارہ کررہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1538   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3255  
´نماز استخارہ کس طرح پڑھی جائے؟`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام امور (و معاملات) میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے تھے، جیسا کہ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے، فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی (اچھے) کام کا ارادہ کرے تو فرض (اور اس کے توابع) کے علاوہ دو رکعتیں پڑھے پھر (دعا کرتے ہوئے) کہے: «اللہم إني أستخيرك بعلمك وأستعينك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللہم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3255]
اردو حاشہ:
(1) استخارہ سے مراد اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنا ہے۔ اور ایسے کام میں ہوتا ہے جس کا اچھا یا برا ہونا یقینی نہ ہو، جس میں تردد ہو، لہٰذا استخارہ کسی فرض، سنت یا حرام کام میں نہیں ہوسکتا کیونکہ فرض وسنت کا خیر ہونا اور حرام کا شروع ہونا پہلے سے واضح ہے۔
(2) استخارہ کا مقصد تردد ختم کرنا ہے، لہٰذا جب تک تردد ختم اور شرح صدر نہ ہو اور کوئی ایک کام راجح معلوم نہ ہو، اس وقت تک استخارہ جاری رکھنا چاہیے۔
(3) عام لوگ سمجھتے ہیں کہ استخارے کے بعد سونا چاہیے، نیند میں صحیح راستہ نظر آئے گا، مگر ایسا عمل کسی حدیث میں ذکر نہیں اور نہ کسی میں خوا ب کا ذکر ہے۔ اسی طرح چوری تلاش کرنے کے لیے استخارے کرنا قرآن وسنت سے خارج بات ہے۔ اس قسم کے کسی استخارے کو حقیقت سمجھنا بھی بے بنیاد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بہت سے معاملات میں تحقیقات کی ضرورت پڑی مگر آپ نے ایسے استخارے نہیں کیے بلکہ شواہد کی مدد سے تحقیق فرمائی، لہٰذا ایسے استخارے ڈھونگ اور بے بنیاد ہیں۔ ان سے جائز بدگمانیاں اور باہمی فساد پیدا ہوتا ہے۔
(4) دورکعت نفل یعنی خالص نفل۔ فرض وسنن کے علاوہ۔
(5) اگر تو جانتا ہے یعنی اگر تو اس کام کو میرے لیے بہتر جانتا ہے۔ گویا علم کے بارے میں کوئی شک نہیں۔ بلکہ خیروشر ہونے کے بارے میں سوال کا ایک اندازہ ہے۔
(6) اپنے کام کا بھی ذکر کرے یعنی ھٰذا الْأَمَرَ کی جگہ اپنی اس حاجت اور کام کا نام لے جس کے بارے میں استخارہ کررہا ہے۔
(7) آدمی کو تمام معاملات میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
(8) اللہ رب العزت بندے کو جو انعام واکرام سے نوازتا ہے، یہ محض اس کا فعل ہے، کسی کا اللہ پر حق نہیں۔ اہل السنۃ کا یہی مذہب ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3255   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1383  
´نماز استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز استخارہ سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورۃ سکھایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جب کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے، تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے، پھر یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم هذا الأمر (پھر متعلق کام یا چیز کا نام لے) خيرا لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو خيرا لي في عاجل أمري وآجله- فاقدره لي ويسره لي وبارك لي فيه وإن كنت تعلم (پھر ویسا ہی کہے جی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1383]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  استخارے کا مطلب اللہ سے خیر اور بہتری کی درخواست ہے۔
جب کسی کام کا ارادہ ہوتو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرلینا بہتر ہے۔
کہ اگر اس کا انجام میرے لئے بہتر ہے تو یہ خیریت سے مکمل ہو ورنہ جوکچھ میرے لئے بہتر ہو وہ حاصل ہوجائے۔

(2)
استخارے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کی جائے۔
اس کے علاوہ جو مختلف قسم کے استخارے مشہور ہیں۔
وہ سب غیر مسنون ہیں۔

(3)
استخارے کے بعد خواب آنا شرط نہیں بلکہ کام کا انتظام کرنا چاہیے۔
اگر بہتر ہوگا تو خیریت سے مکمل ہوجائےگا۔
ورنہ کوئی رکاوٹ آئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا اس انداز سے مکمل ہونا میرے حق میں بہتر نہیں۔
اسی طرح اگر استخارے کے بعد اس کام پر دل مطمئن ہوجائے۔
تو وہ کام کرلیا جائے ورنہ چھوڑ دیا جائے۔

(4)
دعا میں ھٰذَ الأَمْر کی جگہ مطلوبہ کام کا نام لیناچاہیے۔
مثلاً ھٰذاَ النِّکَاح (یہ نکاح)
ھذ السفر (یہ سفر)
ھذہ التجارۃ (یہ تجارت وغیرہ یا ھٰذَ الأَمْر امر کہتے وقت دل میں اس کاتصور کرلیا جائے۔

(5)
  مجھے اس سے پھیر دے کامطلب یہ ہے کہ میں وہ کام نہ کروں اور دل میں بھی یہ خیال نہ رہے کہ کاش یوں کرلیتا تو بہتر ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1383   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 480  
´صلاۃ استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ۱؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے: تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت پڑھے، پھر کہے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري» یا کہے «فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فيسره لي ثم بارك لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري» ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 480]
اردو حاشہ:
1؎:
استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں،
چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرتا ہے اس لیے اسے دعائے استخارہ کہا جاتا ہے،
اس کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے،
استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے،
فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کی ادائیگی اور محرمات و مکروہاتِ شرعیہ سے اجتناب ہر حا ل میں ضروری ہے،
ان میں استخارہ نہیں ہے۔

2؎:
یعنی:
لفظ ((هَذَا الْأَمْرَ)) یہ کام کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔
اور کسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے،
ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خود کرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود باسلوب احسن بیان کر سکے اور اُسے اپنے رب سے خود مانگنے کی عادت پڑے،
یہ جو آج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والا عمل جاری ہو چکا ہے یہ نری بدعت ہے،
استخارہ کے بعد سو جانا اور خواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام و تابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک،
تین پانچ یا سات بار کیا جائے،
دل کا اطمینان،
مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہو جائے اُسے آدمی اختیار کر لے،
خواب میں بھی اس کی وضاحت ہو سکتی ہے مگر خواب استخارہ کا جزء نہیں ہے،
عورتیں بھی استخارہ خود کر سکتی ہیں،
کہیں پر ممانعت نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 480   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6382  
6382. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ہمیں تمام معاملات میں قرآنی سورت کی طرح استخارے کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی اہم کام کا ارادہ کرے تو رکعتیں پڑھے، اس کے بعد یوں دعا کرے: اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ ہمت کا طالب ہوں اور تیرے عظیم فضل کے ذریعے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ بلاشبہ تو ہی قدرت رکھنے والا ہے میں قدرت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ اور تو تمام تر پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے۔۔۔۔۔ یا دعا میں الفاظ کہے: فی عاجل أمری وآجله۔۔۔۔۔ تو پھر اسے میرے لیے مقدر کر دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے دین کے لیے، میری زندگی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6382]
حدیث حاشیہ:
جب کسی شخص کو ایک کام کرنے یا نہ کرنے میں تردد ہو یا دو باتوں یا دو چیزوں میں سے ایک کے اختیار کرنے میں تو باب کی حدیث کے موافق استخارہ کرے۔
اللہ تعالیٰ اس پر خواب میں یا اور کسی طرح جو اس کے حق میں بہتر ہوگا اس پر کھول دے گا یا اسی کی توفیق دے گا۔
بس جو استخارہ بہ سند صحیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے وہ یہی ہے۔
باقی استخارے جو شیعہ امامیہ کیا کرتے ہیں۔
مثلاً تسبیح پر یا استخارہ ذات الرقاع ان کی اصل حدیث کی کتابوں میں نہیں ملتی۔
استخارہ کرنا گویا اللہ سے طلب خیر کرنا اورمشورہ طلب کرنا ہے۔
قدرت کے اشارے ہوتے ہیں اور ان کی بنا پر اہل ایما ن صاحبان فراست اللہ کے اشاروں کو سمجھ کر ان کے مطابق قدم اٹھا تے ہیں۔
اس مقصد کے لئے دعا ئے مسنونہ جو یہاں مرقوم ہے بہترین دعا ہے اور بکثرت یوں پڑھنا اللهم خیِّر لي و اختَر لي بھی استخارہ، کے لئے بہترین عمل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6382   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7390  
7390. سیدنا جابر بن عبداللہ سلمی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کرام‬ ؓ ک‬و تمام (جائز) کاموں میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے تھے جس طرح آپ انہیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے، آپ فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے، پھر یوں کہے: اے اللہ! میں تیرے علم کے طفیل اس کام میں طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل کا طلبگار ہوں کیونکہ تجھے قدرت ہے مجھے نہیں تو جانتا ہے میں نہیں تو غیبوں کواچھی طرح جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یہاں اس کام بعینہ نام لے) میرے لیے دنیا و آخرت میں۔۔۔۔۔۔۔ یا اس طرح فرمایا کہ میرے دین میری زندگی اور میرے ہر انجام کے اعتبار سے۔۔۔۔ بہتر ہے تو مجھے اس کی قدرت دے اور میرے لیے اسے آسان کر دے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یہاں اس کام کا بعینہ نام لے) میرے دنیا و آخرت میں۔۔۔۔۔ یا اس طرح فرمایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7390]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث پیچھے گزر چکی ہے یہاں اس کو اس لیے لائے کہ اس میں قدرت الٰہی کا بیان ہے۔
استخارہ کے معنیٰ خیر کا طلب کرنا یہ نماز اور دعا مسنون ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7390   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6382  
6382. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ہمیں تمام معاملات میں قرآنی سورت کی طرح استخارے کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی اہم کام کا ارادہ کرے تو رکعتیں پڑھے، اس کے بعد یوں دعا کرے: اے اللہ! میں تیرے علم کے ذریعے سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے ساتھ ہمت کا طالب ہوں اور تیرے عظیم فضل کے ذریعے سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ بلاشبہ تو ہی قدرت رکھنے والا ہے میں قدرت نہیں رکھتا۔ تو جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ اور تو تمام تر پوشیدہ چیزوں کو جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے۔۔۔۔۔ یا دعا میں الفاظ کہے: فی عاجل أمری وآجله۔۔۔۔۔ تو پھر اسے میرے لیے مقدر کر دے۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے دین کے لیے، میری زندگی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6382]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس دعا میں ''هذا الأمر'' کے بعد درپیش ضرورت کا نام لے، مثلاً:
''هذا الأمر من السفر، هذا الأمر من التجارة، هذا الأمر من الزواج'' وغیرہ۔
استخارے کی دو رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھی جا سکتی ہے۔
انسان کو چاہیے کہ استخارہ کرنے سے پہلے اپنے ذہن کو صاف کر لے، یعنی خاص رجحانات اور کسی ایک طرف اپنا میلان چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے خیر و برکت کا طالب ہو اور پورے خلوص کے ساتھ اپنے رب کے حضور اپنی گزارشات پیش کرے۔
استخارہ کے آداب حسب ذیل ہیں:
٭ ظاہری اور باطنی طہارت کا اہتمام کیا جائے، اپنے کپڑے، بدن اور جگہ کو پاک و صاف رکھا جائے۔
٭ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ استخارہ ایک عبادت ہے جو نیت کے بغیر بے سود ہے، نیت صرف دل سے ہو گی۔
٭ یہ احساس بھی ہونا چاہیے کہ میں اپنے رب سے بھلائی کا طالب ہوں، لہذا پوری یکسوئی اور توجہ سے استخارہ کرے۔
٭ اگر کسی گناہ کا عادی ہے تو اسے فوراً ترک کرے، اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے، پھر درپیش مسئلہ کے متعلق استخارہ کرے۔
٭ استخارہ ایک دعا ہے، اس لیے دعا کے آداب کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے، یعنی دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودوسلام پڑھا جائے۔
درود کے وہی الفاظ ہوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمایا ہے۔
٭ رزق حلال کا اہتمام بھی انتہائی ضروری ہے۔
حرام روزی کھانے سے کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی تو استخارہ کیسے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
٭ استخارہ کرنے والا یقین کامل رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، جو کام اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا اس میں ہی دنیا و آخرت کی بہتری ہے۔
٭ استخارہ کے بعد وہ باوضو ہو کر قبلہ رخ لیٹ جائے بشرطیکہ استخارہ سونے سے پہلے کیا ہو اگرچہ نیند کے ساتھ استخارے کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
(2)
استخارہ کرنے کا طریقہ حسب ذیل ہے:
٭ جب انسان کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو تو فوراً استخارہ کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائے۔
٭ نماز کے وضو کی طرح مکمل وضو کرے۔
٭ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل ادا کرے۔
٭ نماز سے فراغت کے بعد استخارہ کی مذکورہ بالا دعا پڑھے۔
یہ بھی واضح رہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے، اس لیے انسان کو جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو وہ استخارے کا اہتمام کر سکتا ہے۔
اگر ایک دفعہ استخارہ کرنے سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تو اس کے لیے جائز ہے کہ تین بار اس کا اہتمام کرے کیونکہ استخارہ ایک دعا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کم از کم تین بار دعا کیا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4649 (1794) (3)
درج ذیل امور میں استخارہ مشروع نہیں ہے:
(ا)
جن امور پر عمل واجب ہے، مثلاً:
نماز، روزہ وغیرہ ان کی بجا آوری کے لیے استخارہ کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان پر عمل کرنا استخارہ کرنے کے بغیر ہی واجب ہے۔
(ب)
جن امور پر عمل جائز نہیں، مثلاً:
جوا اور شراب نوشی وغیرہ، ان میں بھی استخارہ جائز نہیں کیونکہ ان سے دور رہنا انسان کی ذمے داری ہے۔
اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کا معاملہ ہے۔
(ج)
جو امور شریعت کی نظر میں انتہائی پسندیدہ ہیں، مثلاً:
تہجد اور تلاوت قرآن وغیرہ ایسے امور میں استخارے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کی تعمیل اور بجا آوری کو شریعت پہلے ہی پسند کر چکی ہے۔
(د)
وہ امور جو شریعت کی نظر میں مکروہ ہیں، ان کا ارتکاب شارع علیہ السلام نے اچھا خیال نہیں کیا، ایسے امور میں بھی استخارہ جائز نہیں۔
(ہ)
وہ امور جن کا تعلق گزشتہ واقعات سے ہے، مثلاً:
چور کو تلاش کرنا، اس کے لیے استخارے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ استخارہ آئندہ پیش آمدہ ضروریات کے متعلق کیا جاتا ہے۔
صرف ان جائز امور میں استخارہ کیا جا سکتا ہے جن کے کرنے یا نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اختیار دیا ہے لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کس کام کو اختیار کروں، ان میں استخارہ جائز اور فائدہ مند ہے یا کسی جائز کام کو شروع کرنے میں استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کام اگر اس کے لیے فائدہ مند ہے تو کرے اور اگر بے فائدہ ہے تو اسے نظر انداز کر دے۔
(4)
انسان کی زندگی میں شادی ایک اہم ترین مرحلہ ہے۔
انسان کو اپنی شریک حیات کا انتخاب انتہائی سوچ بچار کے بعد کرنا چاہیے۔
اگر میاں بیوی کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہو تو زندگی آرام اور سکون سے گزرتی ہے بصورت دیگر دنیا میں ہی سخت ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ شادی کے سلسلے میں ہم اس معیار کو برقرار نہیں رکھتے جسے شریعت نے پسند کیا ہے۔
مال و دولت اور حسب و نسب کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔
شریعت کی نظر میں اس قسم کے غیر معیاری رشتوں کے لیے استخارے کا سہارا لینا کسی صورت میں جائز نہیں۔
شادی کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی طور پر استخارے کا حکم دیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کے استخارے کے متعلق فرمایا:
تم بہترین طریقے سے وضو کرو، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے جو نماز مقدر کی ہے اسے ادا کرو، پھر اللہ کی تعریف اور بزرگی بیان کرتے ہوئے درج ذیل دعا پڑھو:
(اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ أَنْتَ عَلَّامُ [ص: 567] الْغُيُوبِ، فَإِنْ رَأَيْتَ لِي فِي فُلَانَةَ، تُسَمِّيهَا بِاسْمِهَا، خَيْرًا فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي، وَإِنْ كَانَ غَيْرُهَا خَيْرًا لِي مِنْهَا فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَآخِرَتِي، فَاقْضِ لِي بِهَا " أَوْ قَالَ:
«فَاقْدِرْهَا لِي»)
(مسند أحمد: 423/5)
اے اللہ! تو قدرت رکھتا ہے اور میں طاقت نہیں رکھتا، تو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا۔
تو پوشیدہ معاملات کو خوب جاننے والا ہے، اگر فلاں عورت (اس کا نام لے)
کے متعلق جانتا ہے کہ وہ میرے لیے دین، دنیا اور میری آخرت کے لحاظ سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ فرما دے اور اگر اس کے علاوہ کوئی میرے دین و دنیا اور آخرت کے اعتبار سے بہتر ہے تو میرے لیے اس کا فیصلہ کر دے یا کہا:
اسے میرے مقدر میں کر دے۔
(5)
اس حدیث کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ والدین اپنی اولاد کے لیے کسی رشتے کا انتخاب کرتے وقت استخارہ کر سکتے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی اس جگہ کریں یا نہ کریں لیکن استخارے سے پہلے شرعی معیار کو ضرور دیکھ لینا چاہیے۔
(6)
ہمارے ہاں غیر شرعی استخارے کی کئی صورتیں رائج ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ استخارہ سنٹر:
کچھ شعبدہ باز اور چرب زبان حضرات نے استخارہ سنٹر کھول رکھے ہیں۔
یہ دوسروں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی جان، عزت و آبرو اور مال و دولت پر شب خون مارتے ہیں۔
ان کے ہاں استخارے کی فیس مقرر ہے۔
سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی طرح استخارہ سپیشلسٹ کی فیس قدرے زیادہ ہے۔
اس کام کے لیے ٹی وی پر باقاعدہ چینل کا اہتمام کیا گیا ہے۔
لوگ ان سے سوال کرتے ہیں کہ حضرت استخارہ کر کے بتائیے کہ میرا فلاں کام ہوگا یا نہیں۔
یہ حضرت کچھ وقت مراقبہ کرنے کے بعد کام کے ہونے یا نہ ہونے کا بتاتا ہے۔
یہ دین فروشی کی انتہائی افسوسناک مثال ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان خود استخارہ کرے، کسی دوسرے سے استخارہ کرانے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے، ہاں اس شرط پر دوسرے کے لیے استخارہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ جس معاملے میں استخارہ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح کوئی دوسرا بھی اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، مثلاً:
کوئی والد اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی بیٹی کے لیے استخارہ کر سکتا ہے کہ آیا اس کی شادی اس جگہ مناسب ہے یا نہیں، اس لیے انسان کو اپنی ذاتی ضرورت کے لیے خود ہی استخارہ کرنا چاہیے کیونکہ جس خلوص کے ساتھ وہ خود اپنے لیے خیر و برکت طلب کر سکتا ہے کوئی دوسرا اس انداز سے نہیں کر سکتا۔
بہرحال دور حاضر میں جو استخارہ سنٹر جگہ جگہ کھلے ہوئے ہیں ان کی شرعی حالت انتہائی مخدوش ہے۔
واللہ أعلم۔
٭ تسبیح اور استخارہ:
کچھ لوگ کوئی بھی تسبیح پکڑ کر ایک دانے پر ہاں اور دوسرے پر نہ بولتے ہیں۔
جو بات آخری دانے کے مطابق ہو، اس پر عمل کرنا استخارہ کی کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔
شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
٭ قرآن کریم اور استخارہ:
کچھ لوگ قرآن مجید کا کوئی صفحہ کھول کر پہلی آیت کریمہ پڑھتے ہیں پھر اس کے مفہوم سے خود ساختہ نتائج کشید کرتے ہیں۔
یہ طریقہ بھی باطل اور غیر شرعی ہے۔
٭ تیر اور استخارہ:
بعض لوگ تیر پھینک کر استخارہ کرتے ہیں۔
اس کے دائیں یا بائیں گرنے سے نتیجہ اخذ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
یہ طریقہ اسلام سے پہلے رائج تھا جسے اسلام نے باطل قرار دیا ہے۔
(7)
ہمارے ہاں استخارے کے متعلق ایک زبردست غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خواب میں کچھ نہ کچھ نظر آنا ضروری ہے تاکہ استخارے کا نتیجہ اخذ کرنے میں آسانی ہو۔
یہ نظریہ بھی صحیح نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حدیث میں اس کی وضاحت نہیں فرمائی۔
اصل بات یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد کسی بھی طریقے سے اللہ تعالیٰ انسان کا دل مطمئن کر دیتا ہے، خواہ وہ خواب کی صورت میں ہو یا دلی تسلی کی شکل میں ہو۔
اگر استخارہ کرنے کے بعد انسان کا دل کسی خاص سمت مائل ہو جائے تو انسان کو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اسے اختیار کر لینا چاہیے اور اگر اس کا دل اس کام کو چھوڑنے کی طرف مائل ہو جائے تو اسے وہ کام چھوڑ دینا چاہیے۔
(8)
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے استخارہ کرنے کے متعلق درج ذیل بنیادی اور اہم حقائق معلوم ہوتے ہیں:
٭ استخارہ ایک دعا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآنی سورتوں کی طرح سکھائی تاکہ وہ اپنے معاملات کے بہتر انجام کے لیے اللہ تعالیٰ سے عرض کریں کیونکہ ہر کام کے انجام کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
٭ استخارہ کرنے والا شخص موحد، متبع سنت، مخلص اور دیندار ہونے کے ساتھ ساتھ کبائر کا ارتکاب کرنے والا نہ ہو اور صغائر پر اصرار کا عادی بھی نہ ہو۔
٭ استخارے کی دعا کرنے سے پہلے وہ دو رکعت نفل ادا کرے، پھر سنت کے مطابق مذکورہ دعا پڑھے۔
٭ استخارے کے الفاظ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ استخارہ کرنے والے کو خود یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
استخارے کی دعا مانگنے سے پہلے اس دعا کو اچھی طرح یاد کرنا چاہیے اور اس کے معانی و مطالب کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے۔
٭ کسی شخص کو بھی کسی دوسرے شخص کی طرف سے استخارہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ فریق ثانی کو کوئی مجبوری اور تکلیف نہیں، پھر وہ استخارے کا عمل کیوں کرے۔
٭ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔
اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا امتحان لیتا ہے کہ اس معاملے میں وہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے۔
٭ استخارے کا تعلق علم غیب سے ہے۔
قرآن و حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس معاملے میں وہ کس قدر ثابت قدم رہتا ہے۔
٭ استخارے کا تعلق علم غیب سے ہے۔
قرآن و حدیث میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اس لیے انسان کو شعبدہ بازوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔
٭ اہل علم حضرات کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو استخارے کی دعا اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ بتائیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تعلیم دیتے تھے۔
(9)
آخر میں ہم یہ بات پھر دہراتے ہیں کہ دور حاضر میں قسمت کا حال بتانے والے نجومی، شعبدہ باز جو عوام کو ان کی گم شدہ چیزوں کا پتا دیتے ہیں اور ان کی مشکلات کا حل بتاتے ہیں، پھر استخارے کے ذریعے سے ان کی بگڑی بناتے ہیں وہ کھلے کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔
آئے دن اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات اور جھوٹی کہانیاں شائع ہوتی ہیں، ان سے بچنا ایک موحد مسلمان کا اولین فریضہ ہے۔
اس غیر شرعی پیشے سے اظہار بےزاری کرنا ایک غیرت مند مسلمان کا اولین فرض ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6382   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7390  
7390. سیدنا جابر بن عبداللہ سلمی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کرام‬ ؓ ک‬و تمام (جائز) کاموں میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے تھے جس طرح آپ انہیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے، آپ فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے، پھر یوں کہے: اے اللہ! میں تیرے علم کے طفیل اس کام میں طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل کا طلبگار ہوں کیونکہ تجھے قدرت ہے مجھے نہیں تو جانتا ہے میں نہیں تو غیبوں کواچھی طرح جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یہاں اس کام بعینہ نام لے) میرے لیے دنیا و آخرت میں۔۔۔۔۔۔۔ یا اس طرح فرمایا کہ میرے دین میری زندگی اور میرے ہر انجام کے اعتبار سے۔۔۔۔ بہتر ہے تو مجھے اس کی قدرت دے اور میرے لیے اسے آسان کر دے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (یہاں اس کام کا بعینہ نام لے) میرے دنیا و آخرت میں۔۔۔۔۔ یا اس طرح فرمایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7390]
حدیث حاشیہ:

اسلام سے پہلے مستقبل میں قسمت آزمائی کے متعلق مختلف طریقے رائج تھے۔
مثلاً:
تیروں اور پانسوں سے قسمت آزمائی اور کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
قیافہ شناسی کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی۔
اسےبطور پیشہ اختیار کیا جاتا تھا۔
پرندوں کو اڑا کر پیش آنے والے امور کے متعلق فیصلہ کیا جاتا کہ وہ کس طرف جاتا ہے۔
اس سلسلے میں کاہنوں اور نجومیوں کا کام بھی عروج پر تھا۔
اسلام نے ان طریقوں کو غلط ٹھہرا کر امت مسلمہ کے لیے صرف استخارے کو جائز ٹھہرایا۔
اس میں انسان اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کرتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت اور علم و قوت کے ذریعے سے پیش آنے والے مسائل کے متعلق رہنمائی کا سوال کرتا ہے۔
اس کے آداب و شرائط اور فوائد بھی احادیث میں بیان ہوئے ہیں لیکن بعض اوقات انسان اس مسنون عمل کے بجائے خود ساختہ طریقے اختیار کر لیتا ہے۔
جن کا کتاب و سنت میں کوئی ثبوت نہیں۔
اس مسنون عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے عقیدے کی اصلاح ہوتی ہے کیونکہ اس میں توحید الوہیت کا اظہار اور صرف اپنے اللہ پر توکل کرنا ہوتا ہے نیز استخارہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

استخارہ کن کاموں میں جائز اور کن میں ناجائز ہے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
وہ معاملات جن پر عمل کرنا واجب اور ضروری ہے ایسے امور میں استخارہ کرنا جائز نہیں۔
جن امور سے بچنا ضروری ہے ان میں بھی استخارہ کرنا صحیح نہیں۔
جو کام شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہیں ان میں استخارہ کرنا درست نہیں۔
جن امور کے کرنے یا نہ کرنے کا انسان کو اختیار دیا گیا ہےیعنی جو کام مباح اور جائز و حلال کےدائرے میں ایسے کاموں میں استخارہ درست اور فائدہ مند ہے۔

شادی جیسے اہم معاملے میں بھی استخارہ کرنا چاہیے۔
اس کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ایوب انصار ی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو استخارے کا حکم دیا تھا۔
(المستدرك للحاکم: 314/1)

واضح رہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خواب آنا ضروری نہیں کہ اس میں انسان کو وہ کام کرنے یا نہ کرنے کا اشارہ ملے بلکہ قلبی رجحان اور طبعی میلان جس طرح ہو جائے اس پر عمل کیا جائے استخارے میں انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت کے حوالے سے اپنی بے بسی اور عاجزی کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہے۔
اے اللہ! تو ہی قدرت کاملہ کا سزا وار ہے میں تو بے بس اور لاچار ہوں تو اپنی قدرت کاملہ سے مجھے وہ چیز مہیا کر جسے میں حاصل کرنا چاہتا ہوں۔
اس کے تمام اسباب ووسائل پیدا کر دے۔
تو ہی معاملات کے نتائج و انجام کو پوری طرح جاننے والا ہے۔
اے اللہ! تجھ پر ماضی حال اور مستقبل کا کوئی واقعہ مخفی نہیں ہے۔
تیرا علم ہر چیز پر حادی ہے جبکہ میں اس سلسلے میں بالکل تہی دست ہوں میں تو وہی کچھ جانتا ہوں جس سے تونے مجھے آگاہ کیا ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی صفت قدرت کو ثابت کیا ہے اور اس کی قدرت ہر مقدور کو شامل ہے۔
اس سے معتزلہ قدریہ کی تردید مقصود ہے جو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو نہیں مانتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کو اپنے خود ساختہ اصولوں میں مقید کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آیت کریمہ میں اتنا حصہ ہی ذکر کیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بیان ہے۔
جو چیز بھی ذاتی طور پر ممکن ہے وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں۔
اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے جس چیز کا ارادہ کر لیتا ہے اس کے متعلق ہونے کا فیصلہ کر دیتا ہے اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں اور نہ کسی کو اس کے فیصلے میں رخنہ اندازی کی ہمت ہی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7390