الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد
کتاب: تہجد کا بیان
21. بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى:
21. باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے پھر وہ نماز پڑھے اس کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 1155
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي الْهَيْثَمُ بْنُ أَبِي سِنَانٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُصُّ فِي قَصَصِهِ وَهُوَ يَذْكُرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ أَخًا لَكُمْ لَا يَقُولُ الرَّفَثَ يَعْنِي بِذَلِكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ:" وَفِينَا رَسُولُ اللَّهِ يَتْلُو كِتَابَهُ إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنَ الْفَجْرِ سَاطِعُ أَرَانَا الْهُدَى بَعْدَ الْعَمَى فَقُلُوبُنَا بِهِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ يَبِيتُ يُجَافِي جَنْبَهُ عَنْ فِرَاشِهِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِينَ الْمَضَاجِعُ" , تَابَعَهُ عُقَيْلٌ، وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ: أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدٍ وَالْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہیثم بن ابی سنان نے خبر دی کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ اپنے وعظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کر رہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے بھائی نے (اپنے نعتیہ اشعار میں) یہ کوئی غلط بات نہیں کہی۔ آپ کی مراد عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اشعار سے تھی جن کا ترجمہ یہ ہے: ہم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، جو اس کی کتاب اس وقت ہمیں سناتے ہیں جب فجر طلوع ہوتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گمراہی سے نکال کر صحیح راستہ دکھایا۔ ان کی باتیں اسی قدر یقینی ہیں جو ہمارے دلوں کے اندر جا کر بیٹھ جاتی ہیں اور جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ضرور واقع ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بستر سے اپنے کو الگ کر کے گزارتے ہیں جبکہ مشرکوں سے ان کے بستر بوجھل ہو رہے ہوتے ہیں۔ یونس کی طرح اس حدیث کو عقیل نے بھی زہری سے روایت کیا اور زبیدی نے یوں کہا سعید بن مسیب اور اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد/حدیث: 1155]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1155 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1155  
حدیث حاشیہ:
زبیدی کی روایت کو امام بخارى ؒ نے تاریخ میں اور طبرانی نے معجم کبیر میں نکالا۔
امام بخاری کی غرض اس بیان سے یہ ہے کہ زہری کے شیخ میں راویوں کا اختلاف ہے۔
یونس اور عقیل نے ہیثم بن ابی سنان کہا ہے اور زبیدی نے سعید بن مسیب اور اعرج اور ممکن ہے کہ زہری نے ان تینوں سے اس حدیث کو سنا ہو، حافظ نے کہا کہ امام بخاری کے نزدیک پہلا طریق راجح ہے، کیونکہ یونس اور عقیل دونوں نے بالاتفاق زہری کا شیخ ہیثم کو قرار دیا ہے (وحیدی)
اس حدیث سے ثابت ہو اکہ مجالس وعظ میں رسول کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ کا نظم ونثر میں ذکر کرنا درست اور جائز ہے۔
سیرت کے سلسلہ میں آپ ﷺ کی ولادت با سعادت اور حیات طیبہ کے واقعات کا ذکر کرنا باعث ازدیاد ایمان ہے، لیکن محافل میلاد مروجہ کا انعقاد کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں۔
عہد صحابہ وتابعین وتبع تابعین وائمہ مجتہدین وجملہ محدثین کرام میں ایسی محافل کا نام ونشان بھی نہیں ملتا۔
پورے چھ سو سال گرز گئے دنیائے اسلام محفل میلاد کے نام سے بھی آشنا نہ تھی۔
تاریخ ابن خلکان میں ہے کہ اس محفل کا موجد اول ایک بادشاہ ابو سعید مظفرالدین نامی تھا، جو نزد موصل اربل نامی شہر کا حاکم تھا۔
علمائے راسخین نے اسی وقت سے اس نوایجاد محفل کی مخالفت فرمائی۔
مگر صد افسوس کہ نام نہاد فدائیان رسول اللہ ﷺ آج بھی بڑے طنطنہ سے ایسی محافل کرتے ہیں جن میں نہایت غلط سلط روایات بیان کی جاتی ہیں، چراغاں اور شیرنی کا اہتمام خاص ہوتا ہے اور اس عقیدہ سے قیام کر کے سلام پڑھا جاتاہے کہ آنحضرت ﷺ کی روح مبارک خود اس محفل میں تشریف لائی ہے۔
یہ جملہ امور غلط بے ثبوت ہیں جن کے کرنے سے بدعت کا ارتکاب لازم آتا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے صاف فرما دیا کہ مَن أَحدثَ فِي أمرِنا ھذا ما لیس منه فھُوَ رَد۔
جو ہمارے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرے جس کا ثبوت ادلہ شرعیہ سے نہ ہو وہ مردود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1155   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1155  
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان سے مطابقت ان الفاظ سے ہے:
آپ کا پہلو بستر سے دور رہتا ہے۔
کیونکہ ایسا شب بیداری ہی سے ہو سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا رات کو بیدار ہونا نماز پڑھنے، ذکر کرنے اور تلاوت قرآن کے لیے تھا، گویا شاعر نے اس ارشاد باری تعالیٰ کی طرف اشارہ کیا ہے:
﴿تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا﴾ (السجدة: 16: 32)
ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔
وہ اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید کرتے ہوئے پکارتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ اچھے اشعار اچھے کلام کی طرح قابل ستائش ہیں۔
(فتح الباري: 54/3) (2)
عقیل کی متابعت کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے اور زبیدی کی تعلیق کو امام بخاری ؒ نے تاریخ صغیر اور امام طبرانی نے معجم کبیر میں متصل سند سے ذکر کیا ہے۔
(فتح الباري: 55/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1155