ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا کہ عمرو بن اوس نے انہیں خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ سب نمازوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے اور روزوں میں بھی داؤد علیہ السلام ہی کا روزہ۔ آپ آدھی رات تک سوتے، اس کے بعد تہائی رات نماز پڑھنے میں گزارتے۔ پھر رات کے چھٹے حصے میں بھی سو جاتے۔ اسی طرح آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّهَجُّد/حدیث: 1131]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1131
حدیث حاشیہ: رات کے بارہ گھنٹے ہوتے ہیں تو پہلے چھ گھنٹے میں سو جاتے، پھر چا ر گھنٹے عبادت کرتے، پھر دو گھنٹے سورہتے۔ گویا سحر کے وقت سوتے ہوتے یہی ترجمہ باب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1131
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1131
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر رات کے بارہ گھنٹے ہوں تو داود ؑ پہلے چھ گھنٹے سوئے رہتے، پھر تہائی شب، یعنی چار گھنٹے عبادت کرتے، اس کے بعد چھٹا حصہ، یعنی دو گھنٹے محو استراحت رہتے، گویا سحری کا وقت سو کر گزار دیتے۔ (2) عنوان بالا کا مقصد ہے کہ جو شخص سحری کے وقت سویا رہا وہ قابل ملامت نہیں بشرطیکہ رات کی حق ادائیگی پہلے کر چکا ہو۔ اس وقت سونے میں حکمت یہ ہے کہ صبح کی نماز کے لیے نشاط حاصل ہو اور تھکاوٹ وغیرہ دور ہو جائے۔ ایسا کرنا ریا کاری سے بھی بچاؤ کا ذریعہ ہے کیونکہ جو شخص رات کے وقت عبادت کر کے سو جائے تو بیداری کے وقت اس کے چہرے سے عبادت کے اثرات ختم ہو جائیں گے۔ (فتح الباري: 23/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1131
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:600
600- سیدنا عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ روزہ حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھنے کا طریقہ ہے۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ نہیں رکھتے تھے۔اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز خضرت داؤد علیہ السلام کی نماز ہےوہ نصف رات سوۓ رہتے تھے۔ پھر ایک تہائی رات نوافل ادا کرتے رہتے تھے۔ پھر رات کا چھٹا حصہ سوئے رہتے تھے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:600]
فائدہ: اس حدیث میں نفلی روزوں میں سے افضل ترین روزے صوم داؤد علیہ السلام کو قرار دیا گیا ہے، کہ ایک دن روزہ رکھ لیا جائے اور ایک دن چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ جس کو اتنی طاقت دے وہ اس پرعمل کر سکتا ہے، ورنہ نفلی امور میں شریعت کسی پر سختی نہیں کرتی، بلکہ صرف ترغیب دلاتی ہے۔ نیز اس حدیث میں نفلی نمازوں میں سے افضل نماز صلاۃ داؤد علیہ السلام کو قرار دیا گیا ہے کہ وہ آدھی رات سوجاتے، پھر تیسرے حصے میں قیام کرتے اور پھر چھٹے حصے میں سو جاتے، سبحان اللہ۔ اس انداز میں نیند بھی پوری رہتی ہے اور نفلی عبادت بھی کھل کر ہوجاتی ہے۔ بعض گمراہ لوگوں کی عبادت سنت کے مخالف ہوتی ہے، عبادت خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ، بس یہ خیال رکھا جائے کہ وہ قرآن و حدیث کے مطابق ہونی چاہئے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 600
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:601
601- سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے یہ پتہ چلاہے، تم رات بھر نفل پڑھتے رہتے ہو روزانہ دن کے وقت نفلی روزہ رکھ لیتے ہو؟“ انہوں نے عرض کی: میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایسا نہ کرو، تمھاری دونوں آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اگر تم ایسا کروگے، تو تمہاری نظر کمزور ہوجاۓ گی، تم خود کمزور ہوجاؤ گے۔ تم نوافل بھی پڑھا کرو۔ اور سوبھی جایا کرو۔ نفلی روزہ رکھ بھی لیا کرو۔ اور چھوڑ بھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:601]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص ساری رات قیام کرے اور روزانہ روزہ رکھے، اس کو ڈانٹا جائے، اس کی تعریف کی بجائے مذمت کی جائے، کیونکہ مؤمن حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں بھی کمی نہیں کرتا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 601