فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: ترجمۃ الباب اور حدیث میں یہاں مناسبت مشکل ہے، دراصل یہ حدیث اپنی پچھلی حدیث کا تتمہ ہے اور وہ حدیث بھی الاسود بن قیس سے روایت ہے اور دونوں کا مفہوم ایک دوسرے سے مناسبت رکھتا ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والظاهر أن الأسود حدث به على الوجهين فحمل عنه كل واحد مالم يحمله الآخر، وحمل عنه سفيان الثوري الأمرين فحدث به مرة هكذا ومرة هكذا» [فتح الباري ج4 ص9] ”جو ظاہر ہے وہ یہ کہ اسود نے دو طریقوں سے روایت کو بیان کیا ہے اور جو سفیان نے بیان کیا کہ دو امر پر ہے تو ایک کو اس طرح سے بیان کیا اور دوسرے کو کچھ اس طرح سے بیان کیا۔
(یعنی سفیان رحمہ اللہ نے دونوں حدیثوں کو مختلف بیان کیا ہے حالانکہ دونوں کا تعلق ایک ہی مخرج کے ساتھ ہے)“ ◈حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
”امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ واضح کر دیں کہ حدیث ایک ہی ہے اس کے مخرج کے اتحاد کی وجہ سے اگرچہ سبب مختلف ہیں، لیکن قصہ ایک ہے۔
“ ◈ علامہ عینی رحمہ اللہ کا بھی یہی کہنا ہے آپ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة من حيث أن هذا من تتبة الحديث السابق، ويدفع بهذا قاله ابن التين: ذكرا احتباس جبريل عليه السلام فى هذا الباب ليس فى موضعه، وذالك لأن الحديث واحد لا تحاد مخرجه، وان كان السبب مختلفًا» [عمدة القاري، ج7، ص258] ◈ شاہ ولی اللہ محمدث دہلوی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ان هذه الزيادة أيضًا داخله فى تلك القصة ولو حمل رواية محمد بن كثير أيضًا على ذالك لصح استدلال به فتدبر وتأمل» [شرح أبواب البخاري، ص315] ”یعنی یہ تو زیادتی
(انگلی زخمی ہونے کی) داخل اس قصے میں
(جس حدیث کا ذکر ابتدا میں ہوا) اگر روایت محمد بن کثیر سے ہی لی جاتی تو استدلال صحیح ہوتا پس غور کریں۔
“ اب ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہو گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یا دو راتوں تک تہجد نہ پڑھی اس کی وجہ بھی دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی مبارک میں سخت تکلیف تھی۔
❀ سیدنا جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«قال كنت مع النبى صلى الله عليه وسلم فى غار فدميت إصبعه فقال: هل أنت إلا اصبع دميت وفي سبيل الله ما لقيت» [رواه ترمذي من طريق ابن عينية عن الأسود] ”میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا کہ آپ کی انگلی پر پتھر لگا تو خون نکلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایک انگلی ہو اللہ کی راہ میں تمہیں مار لگی اور خون آلود ہوئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین راتوں کا قیام نہیں کیا تکلیف کی وجہ سے اور اسی اثنا میں جبریل علیہ السلام بھی کوئی وحی لے کر نہیں آئے تو ایک عورت نے کہا کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا تو یہ سورۃ الضحی نازل ہوئی۔
“ دیکھئے تفصیل کے لیے:
[ضياء الساري للامام عبدالله بن سالم البصري ج10 ص271 وفتح الباري لابن حجر ج4 ص8] وہ عورت کون تھی؟
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فهي أم جميل العوراء بنت حرب بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف وهى أخت أبى سفيان بن حرب وأمرأة أبى لهب» [فتح الباري، ج4، ص9] ”یعنی وہ عورت ام جمیل ابولہب کی بیوی تھی۔
“ ◈ امام ابن العجمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذه المرأة هي زوجة أبى لهب أم جميل واسمها العوراء» [التوضيح لمبهات الجامع الصحيح، ص78] ”یہ عورت ابولہب کی بیوی ام جمیل تھی اور اس کا نام عوراء ہے۔
“ لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ دونوں احادیث کا مخرج ایک ہی ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کے درد کی کثرت میں رات کا قیام نہ کر سکے اسی حالت میں جبریل علیہ السلام بھی وحی لے کر نہیں آئے تو ابولہب کی بیوی نے یہ گستاخی کی کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا تو جواباً اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحی نازل فرمائی۔
فائدہ: بعض مفسرین نے بیان کیا کہ یہ عورت جس نے کہا: کہ آپ کے رب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا ہے وہ سیدہ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اس روایت کو اسماعیل القاضی نے
(الاحکام) میں اور امام طبری نے اپنی تفسیر میں اور امام ابوداؤد نے اعلام النبوۃ میں ذکر فرمایا ہے اور ان تمام طرق میں عبداللہ بن شداد بن الھاد ہیں اور وہ صغار صحابہ میں شمار ہوتے ہیں اور ان تک اسناد صحیح ہے۔
[ديكهئے تفسير الطبري ج12 ص622، فتح الباري ج4 ص8] مگر ساتھ ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ لفظ کہ آپ کے شیطان نے آپ کو چھوڑ دیا یہ لفظ خدیجہ رضی اللہ عنہا تک درست نہیں ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«المتنكرة فى الخبر» ”یعنی اس خبر میں نکارت ہے جو خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ثابت نہیں۔
“ بہت خوبصورت بات کہی صاحب متواری نے آپ رقمطراز ہیں کہ:
«ولا يصح عن خديجة رضي الله عنها ولا يقتضيه ايمانها وفضلها فقد كان من شأنها ان تثبت وناهيك بحديثها اول الوحي وقولها والله لا يخزيك الله ابدًا» [المتوازي ص122] ”یہ خبر درست نہیں ہے ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے اور نہ ہی اس چیز کا تقاضا کیا جا سکتا ہے ان کے ایمان اور فضیلت کے سبب اور یقیناًً ان کی شان یہ ہے کہ وہ ثابت قدم رہنے والی ہیں جیسا کہ
(بخاری شریف کی وہ حدیث جس میں پہلی وحی کا ذکر ہے کہ) سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ
”اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔
“ لہٰذا ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے اس قسم کی بات سوچی بھی نہیں جا سکتی، جو بات صحیح ہے اور پایہ ثبوت تک پہنچی وہ یہی ہے کہ ابولہب کی بیوی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کی تھی۔