´مسافر اور مریض کی نماز کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب زوال آفتاب سے پہلے سفر کا آغاز فرماتے تو ظہر کی نماز کو عصر کی نماز تک مؤخر کر لیتے تھے۔ پھر سواری سے نیچے تشریف لاتے اور ظہر و عصر دونوں نمازوں کو اکٹھا ادا فرماتے اور جب آفتاب آغاز سفر سے پہلے زوال پذیر ہو جاتا تو پھر نماز ظہر ادا فرما کر سوار ہو کر سفر پر روانہ ہوتے۔ (بخاری و مسلم)
اور حاکم کی اربعین میں سند صحیح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر کی نمازیں پڑھیں پھر سواری پر سوار ہوئے۔ ابونعیم کی ”مستخرج“ میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ہوتے اور آفتاب زوال پذیر ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر دونوں اکٹھی ادا فرما کر وہاں سے کوچ کرتے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 347»
تخریج: «أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب يؤخر الظهر إلي العصر إذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس، حديث: 1111، ومسلم، صلاة المسافرين، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر، حديث:704، وأبو نعيم في المستخرج:2 /294.»
تشریح:
اس حدیث کی رو سے سفر میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھنا جائز ثابت ہوتا ہے۔
اس میں جمع تقدیم ہو یا تاخیر دونوں طرح ثابت ہے۔
احناف جمع حقیقی کے قائل نہیں‘ جمع صوری کے قائل ہیں۔
مگر جامع ترمذی کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جمع صوری نہیں بلکہ جمع حقیقی تھی‘ چنانچہ اس کا مفہوم ہے کہ جب آفتاب زوال پذیر ہونے سے پہلے آپ سفر پر روانہ ہوتے تو ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے ساتھ ملا کر دونوں کو اکٹھا ادا فرماتے اور جب سورج ڈھلنے کے بعد سفر کا آغاز فرماتے تو عصر کو ظہر کے ساتھ ملا کر دونوں کو اکٹھا ادا فرماتے۔
(جامع الترمذي‘ الجمعۃ‘ حدیث:۵۵۳) امام ترمذی نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔
اور مستخرج ابونعیم کی حدیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے جسے مصنف رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔
اور یہی بات راجح ہے۔
واللّٰہ أعلم۔