ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن عامر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے یونس نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْكُسُوف/حدیث: 1062]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1062
حدیث حاشیہ: یہاں یہ اعتراض ہو ا ہے کہ یہ حدیث ترجمہ باب سے مطابقت نہیں رکھتی، اس میں تو چاند کا ذکر تک نہیں ہے اور جواب یہ ہے کہ یہ روایت مختصر ہے اس روایت کی جو آگے آتی ہے، اس میں صاف چاند کا ذکر ہے تو مقصود وہی دوسری روایت ہے اور اس کو اس لیے ذکر کردیا کہ معلوم ہو جائے کہ روایت مختصر بھی مروی ہوئی ہے، بعضوں نے کہا صحیح بخاری کے ایک نسخہ میں اس حدیث میں یوں ہے انکسف القمر دوسرے ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے اس طریق کی طرف اشارہ کیا ہو جس کو ابن ابی شیبہ نے نکالا اس میں یوں ہے انکسفت الشمس و القمر۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ ایک حدیث بیان کرکے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر تے ہیں اور باب کا مطلب اس سے نکالتے ہیں (وحیدی) سیرت ابن حبان میں ہے کہ 5ھ میں چاند گرہن بھی ہوا تھا اورآنحضرت ﷺ نے اس میں بھی نماز با جماعت ادا کی تھی۔ معلوم ہو اکہ چاند گرہن اور سورج گرہن ہر دو کا ایک ہی حکم ہے، مگر ہمارے محترم برادران احناف چاند گرہن کی نماز کے لیے نماز با جماعت کے قائل نہیں ہیں۔ اس کو تنہا پڑھنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس باب میں ان کے پاس بجزرائے قیاس کوئی دلیل پختہ نہیں ہے، مگر ان کو اس پر اصرار ہے، لیکن سنت رسول کے شیدائیوں کے لیے آنحضرت ﷺ کا طور طریقہ ہی سب سے بہتر عمدہ چیز ہے۔ الحمد لله علی ذلك۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1062
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5785
5785. حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ سورج گرہن کے موقع پر ہم نبی ﷺ کے پاس تھے۔ آپ جلدی میں اٹھے اور اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے وہاں لوگ بھی جمع ہو گئے تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ جب سورج گرہن ختم ہو گیا تو آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جب تم اس طرح کی کوئی نشانی دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ تعالٰی سے دعا کرو تاآنکہ یہ حالت ختم ہوجائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5785]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اچانک چلنے پر چادر گھسیٹنے کا ذکر ہے یہی باب سے مطابقت ہے گا ہے بلا قصد ایسا ہو جائے کہ چادر تہ بند زمین پر گھسیٹنے لگے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5785
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5785
5785. حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ سورج گرہن کے موقع پر ہم نبی ﷺ کے پاس تھے۔ آپ جلدی میں اٹھے اور اپنا کپڑا گھسیٹتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے وہاں لوگ بھی جمع ہو گئے تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھائی۔ جب سورج گرہن ختم ہو گیا تو آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ تعالٰی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جب تم اس طرح کی کوئی نشانی دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ تعالٰی سے دعا کرو تاآنکہ یہ حالت ختم ہوجائے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5785]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا ہونے کی دوسری استثنائی صورت بیان ہوئی ہے کہ بعض اوقات انسان جلدی میں اٹھتا ہے تو بے خیالی میں اس کی چادر ٹخنوں سے نیچے ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں قابل مؤاخذہ نہیں ہے جیسا کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اچانک چلنے پر اپنی چادر گھسیٹنے کا ذکر ہے، یعنی اگر قصد و ارادے کے بغیر چادر ٹخنوں کے نیچے ہو جائے اور زمین پر گھسٹنے لگے تو کوئی گناہ نہیں۔ اسی طرح خواتین بھی اس وعید سے مستثنیٰ ہیں، نیز اگر ٹخنوں پر پھوڑے پھنسیاں ہیں اور انہیں ڈھانپنے کے لیے چادر ٹخنوں سے نیچے ہو جائے تو اس میں بھی مواخذہ نہیں ہو گا۔ إن شاء اللہ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5785