الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
37. بَابُ لِيُبَلِّغِ الْعِلْمَ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ:
37. باب: اس بارے میں کہ جو لوگ موجود ہیں وہ غائب شخص کو علم پہنچائیں۔
حدیث نمبر: 105
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، ذُكِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، قَالَ مُحَمَّدٌ وَأَحْسِبُهُ قَالَ: وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، أَلَا لِيُبَلِّغ الشَّاهِدُ مِنْكُمُ الْغَائِبَ"، وَكَانَ مُحَمَّدٌ يَقُولُ: صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ ذَلِكَ أَلَا هَلْ بَلَّغْتُ مَرَّتَيْنِ.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، ان سے حماد نے ایوب کے واسطے سے نقل کیا، وہ محمد سے اور وہ ابن ابی بکرہ سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یوں) فرمایا، تمہارے خون اور تمہارے مال، محمد کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «وأعراضكم» کا لفظ بھی فرمایا۔ (یعنی) اور تمہاری آبروئیں تم پر حرام ہیں۔ جس طرح تمہارے آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں۔ سن لو! یہ خبر حاضر غائب کو پہنچا دے۔ اور محمد (راوی حدیث) کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ (پھر) دوبارہ فرمایا کہ کیا میں نے (اللہ کا یہ حکم) تمہیں نہیں پہنچا دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 105]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريدماءكم وأموالكم وأعراضكم بينكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا يبلغ الشاهد الغائب الشاهد عسى أن يبلغ من هو أوعى له منه
   صحيح البخاريدماءكم وأموالكم وأعراضكم وأبشاركم عليكم حرام كحرمة يومكم
   صحيح البخاريدماءكم وأموالكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا إلى يوم تلقون ربكم ألا هل بلغت اللهم اشهد يبلغ الشاهد الغائب رب مبلغ أوعى من سامع لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   صحيح البخاريدماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا ألا فليبلغ الشاهد منكم الغائب
   بلوغ المرامخطبنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يوم النحر

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 105 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 105  
تشریح:
مقصد یہ کہ میں اس حدیث نبوی کی تعمیل کرچکا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں یہ فرمایا تھا، دوسری حدیث میں تفصیل سے اس کا ذکر آیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 105   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:105  
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطاب حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا۔
اس کی تفصیل گزر چکی ہے بقیہ مباحث پر تفصیلی گفتگو کتاب الحج میں آئے گی۔
محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ آپ کا ارشاد صحیح ثابت ہوا۔
حاضر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کو غائبین تک پہنچانے میں پوری پوری کوشش کی اور اپنی تمام تر توانائیوں کو صرف کیا، پھر غائب محدثین و مجتہدین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات سے بے شمار مسائل کا استنباط کیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 105   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 67  
´شاگرد کو چاہئیے کہ استاد کی تشریح و تفصیل کا انتظار کرے`
«. . . ذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَعَدَ عَلَى بَعِيرِهِ وَأَمْسَكَ إِنْسَانٌ بِخِطَامِهِ أَوْ بِزِمَامِهِ، قَالَ: أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ . . .»
. . . (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نے اس کی نکیل تھام رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج یہ کون سا دن ہے؟ ہم خاموش رہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 67]
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ضرورت کے وقت امام خطیب یا محدث یا استاد سواری پر بیٹھے ہوئے بھی خطبہ دے سکتا ہے، وعظ کہہ سکتا ہے۔ شاگردوں کے کسی سوال کو حل کر سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ شاگرد کو چاہئیے کہ استاد کی تشریح و تفصیل کا انتظار کرے اور خود جواب دینے میں عجلت سے کام نہ لے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض شاگرد فہم اور حفظ میں اپنے استادوں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ چیز استاد کے لیے باعث مسرت ہونی چاہئیے۔ یہ حدیث ان اسلامی فلاسفروں کے لیے بھی دلیل ہے جو شرعی حقائق کو فلسفیانہ تشریح کے ساتھ ثابت کرتے ہیں۔ جیسے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں احکام شرع کے حقائق و فوائد بیان کرنے میں بہترین تفصیل سے کام لیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 67   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1741  
1741. حضرت ابو بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں قربانی کے دن خطبہ دیا اور فرمایا: تم جانتے ہو یہ دن کون سا ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی جانتے ہیں۔ آپ تھوڑی دیر خاموش رہے۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے تاہم آپ ﷺ نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں!اس کے بعد آپ نے فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی جانتے ہیں۔ آپ تھوڑی دیر چپ رہے۔ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض: کیوں نہیں، یہ ذوالحجہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ ہی جانتے ہیں آپ تھوڑی دیر خاموش رہے، ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام ذکر کریں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1741]
حدیث حاشیہ:
یہ حجۃ الوداع میں آپ ﷺ کا وہ عظیم الشان خطبہ ہے جسے اساس الاسلام ہونے کی سند حاصل ہے اور یہ کافی طویل ہے جسے مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے۔
حضرت امام بخاری ؒ نے ترجمۃ الباب کے تحت یہ روایات یہاں نقل کی ہیں، پورے خطبے کا احصار مقصد نہیں ہے۔
و أراد البخاري الرد علی من زعم أن یوم النحر لا خطبة فیه للحاج و أن المذکور في هذا الحدیث من قبیل الوصایا العامة لا علی أنه من شعار الحج فأراد البخاري أن یبین أن الراوي سماها خطبة کما سمی التي وقعت في عرفات خطبة۔
(فتح)
یعنی کچھ لوگ یوم نحر کے خطبہ کے قائل نہیں ہیں اور اس خطبہ کووصایا سے تعبیر کرتے ہیں، امام بخاری نے ان کا رد کیا اور بتلایا کہ راوی نے اسے لفظ خطبہ سے ذکر کیا ہے جیسے عرفات کے خطبہ کو خطبہ کہا ایسا ہی اسے بھی، لہٰذا یوم النحر کو بھی خطبہ سنت نبوی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1741   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7078  
7078. حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج کون سا دن ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں ہم نے سمجھا شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں! پھر آپ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ کیا یہ حرمت والا شہر نہیں؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزت اور تمہارے بدن تم پر حرام ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ خبردار! کیا میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہنا۔ یہاں موجود لوگ میرا یہ پیغام غیر لوگوں کو پہنچا دیں کیونکہ بسا اوقات سننے والے سے وہ شخص زیادہ یاد رکھتا ہے جسے حکم پہنچایا جائے۔ چنانچہ ایسا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7078]
حدیث حاشیہ:
چہ جائیکہ ہتھیار سے لڑوں کیونکہ ابو بکر ہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سن چکے تھے کہ مسلمان کو مارنا اس سے لڑنا کفر ہے۔
عبدا للہ بن عمر و حضرمی کا یہ قصہ یہ ہے کہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھیجا ہوا بصرے میں آیا تھا۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ بصرے والوں کو بھی اغوا کر کے علی رضی اللہ عنہ کا مخالف کرا دے گویا معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ سیاسی چال تھی۔
جب علی رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو جاریہ ابن قدامہ کو اس کی گرفتاری کے لیے روانہ کیا۔
حضرمی ایک مکان میں چھپ گیا۔
جاریہ نے اس کو گھیر لیا اور مکان میں آگ لگا دی اور حضرمی مکان سمیت جل کر خاک ہو گیا۔
یہ واقعہ سنہ 38 ہجری کا ہے اور ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جو علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بصرے کے حاکم تھے وہاں سے نکلے اور زیادہ بن سمیہ کو اپنا خلیفہ کر گئے۔
اس وقت معاویہ رضی اللہ عنہ نے موقع پا کر عبداللہ بن عمر و حضرمی کو بھیجا کہ جا کر بصرے پر قبضہ کرے‘ وہ بنی تمیم کے محلہ میں اترا اور عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف جو لوگ تھے وہ اس کے شریک ہو گئے۔
زیاد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس واقعہ کی خبر کی اور مدد چاہی۔
حضرت علی رضی اللہ عن نے پہلے اعین بن عیینہ ایک شخص کو روانہ کیا لیکن وہ دغا سے مار ڈالا گیا پھر جاریہ بن قدامہ کو بھیجا‘ انہوں نے حضرمی کو اس کے چالیس یا ستر رفقاء سمیت ایک مکان میں گھیر لیا اور اس میں آگ لگا دی۔
حضرمی اور اس کے ساتھی سب جل کر خاک ہو گئے۔
(إنا للہ و إنا إلیه راجعون)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7078   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 637  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے روز خطبہ دیا اور ساری حدیث ذکر کی۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 637]
637فائدہ:
حج کے دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی خطبے ثابت ہیں۔ مالکیہ اور احناف کے نزدیک ایک خطاب ساتویں ذی الحجہ کو اور دوسرا عرفہ میں، 9 تاریخ کو اور تیسرا گیارھویں ذی الحجہ کو ہو گا۔ دسویں ذی الحجہ، یعنی قربانی کے دن کے خطاب کو مالکیہ اور حنفیہ خطبہ نہیں کہتے بلکہ صرف چند نصیحتیں کہتے ہیں۔ یہ عید کا خطبہ نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید تو ادا ہی نہیں فرمائی تھی۔ بعض اسے خطبہ ہی کہتے ہیں، اس طرح چار خطبے مسنون ہو جاتے ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 637   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:67  
67. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص اس کی نکیل یا باگ تھامے ہوئے تھا، آپ نے فرمایا: یہ کون سا دن ہے؟ ہم لوگ اس خیال سے خاموش رہے کہ شاید آپ اس کے اصل نام کے علاوہ کوئی اور نام بتائیں گے۔ آپ نے فرمایا:یہ قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا:یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم پھر اس خیال سے چپ رہے کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ ماہ ذوالحجہ نہیں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ تب آپ نے فرمایا: تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسا کہ تمہارے ہاں اس شہر اور اس مہینے میں اس دن کی حرمت ہے۔ چاہیے کہ جو یہاں حاضر ہے وہ غائب کو یہ خبر پہنچا دے، اس لیے کہ شاید حاضر ایسے شخص کو خبر کر دے جو اس بات کو اس سے زیادہ یاد رکھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:67]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو مقاصد کے پیش نظر اس حدیث کو بیان فرمایا ہے۔
(الف)
۔
تبلیغ کی اہمیت سے ہمیں آگاہ کرنا یعنی اگر کوئی شخص حدیث کے معانی کو نہ سمجھتا ہو بلکہ اس نے صرف الفاظ ہی یاد کررکھے ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ ان الفاظ کو دوسروں تک پہنچادے۔
ممکن ہے کہ کوئی شاگرد یا سامع اس سے زیادہ سمجھدار ہو اور وہ اس حدیث سے مسائل کا استخراج واستنباط کرے۔
(ب)
۔
اس بات پر تنبیہ بھی مقصود ہے کہ اگرکوئی طالب علم ہونہار اور سمجھدار ہوا اوراستاد اتنا ذہین وفطین نہ ہو تو طالب علم کو اس سے تحصیل علم کے متعلق کوئی شرم یاعار نہیں ہونی چاہیے۔
خواہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو لیجئے کہ ان کے اساتذہ ان کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں، اس لیے یہ تصور غلط ہے کہ شاگرد استاد کے مقابلے میں ہمیشہ ادنیٰ اور کمزور ہی ہوتا ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت امام، خطیب یا محدث سواری پر بیٹھے ہوئے بھی وعظ کرسکتا ہے، خطبہ بھی دے سکتا ہے، شاگردوں سے سوال وجواب بھی کرسکتاہے، نیز شاگرد کو چاہیے کہ وہ استاد کی تشریح اور تفصیل کا انتظار کرے اور خود جواب دینے میں جلدی نہ کرے۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض شاگرد فہم وحفظ میں اپنے اساتذہ سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر دسویں تاریخ کو جمرات کے پاس کھڑے ہوکرارشاد فرمایا۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1742)
ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حاضرین سے دریافت فرمایا کہ یہ کون سادن ہے؟ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خاموشی اختیار کی۔
اورصحیح بخاری ہی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا کہ آج یوم النحر ہے۔
(حدیث: 1739)
ان روایات میں تعارض نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب جو لوگ تھے وہ خاموش رہے ہوں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھیوں نے جواب دیا ہو اور ہرشخص نے اپنے علم کے مطابق روایت بیان کردی۔
(فتح الباري: 210/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 67   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7078  
7078. حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج کون سا دن ہے؟ صحابہ کرام نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں ہم نے سمجھا شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ نے فرمایا: کیا یہ قربانی کا دن نہیں؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں! پھر آپ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ کیا یہ حرمت والا شہر نہیں؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزت اور تمہارے بدن تم پر حرام ہیں جس طرح اس دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ خبردار! کیا میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اے اللہ! تو گواہ رہنا۔ یہاں موجود لوگ میرا یہ پیغام غیر لوگوں کو پہنچا دیں کیونکہ بسا اوقات سننے والے سے وہ شخص زیادہ یاد رکھتا ہے جسے حکم پہنچایا جائے۔ چنانچہ ایسا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7078]
حدیث حاشیہ:

فتنے کے دور میں دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی طرح حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ موقف تھا کہ گوشہ نشینی اختیار کی جائے اور لڑائی سے کنارہ کشی کی جائے، اس لیے انھوں نے مذکورہ جواب دیا۔
ان کا یہ موقف درج ذیل حدیث کے مطابق تھا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فتنوں کا ذکر کیا۔
میں نے عرض کی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اگر مجھ پر ایسا وقت آجائے تو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا:
اپنے ہاتھ اور زبان کو روک کر اپنی حویلی میں داخل ہو جانا۔
میں نے عرض کی:
اگر فتنہ پرداز میری حویلی میں آجائیں تو؟ آپ نے فرمایا:
اپنے گھر میں داخل ہو جاؤ۔
عرض کی:
اگر وہ گھر کے اندر آجائیں تو؟ آپ نے فرمایا:
مسجد میں چلے جاؤ۔
اور میری کلائی کو پکڑ کر فرمایا:
کہہ دو، میرا رب اللہ ہے یہاں تک کہ اسی پر تمھیں موت آ جائے۔
(مسند أحمد 449/1، و الصحیحة للألباني، حدیث: 3254)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مشہور صحابی علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھتیجے ہیں۔
انھیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خون عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فضا ہموار کرنے کے لیے بصرے بھیجا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاریہ بن قدامہ کو بھیجا تاکہ انھیں گرفتار کیا جائے۔
حضرمی، ایک مکان میں چھپ گئے تو جاریہ نے مکان کا گھیراؤ کر کے اسے آگ لگا دی۔
اس طرح حضرت عبداللہ بن حضرمی اور ان کے رفقاء جل کر خاکستر ہوگئے۔
إناللہ و إنا إلیه راجعون۔
اس دوران میں جاریہ نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق پوچھا کہ ان کا پتا کرو وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت کرتے ہیں یا نہیں۔
اس پر حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مذکورہ جواب دیا جو حدیث میں مذکورہ ہے۔
(فتح الباري: 36/13)
بہرحال فتنے کے دور میں گوشہ نشینی ہی میں عافیت ہے۔
ایسے حالات میں جنگ وقتال کرنا فتنہ پروری ہے۔
ایک مسلمان کو اس سے بچنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7078