ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں یحییٰ بن صالح نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے معاویہ بن سلام بن ابی سلام رحمہ اللہ تعالیٰ حبشی دمشقی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف زہری نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو یہ اعلان کیا گیا کہ نماز ہونے والی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْكُسُوف/حدیث: 1045]
لما انكسفت الشمس على عهد رسول الله نودي ب الصلاة جامعة فركع رسول الله ركعتين في سجدة ثم قام فركع ركعتين في سجدة ثم جلي عن الشمس فقالت عائشة ما ركعت ركوعا قط ولا سجدت سجودا قط كان أطول منه
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1045
حدیث حاشیہ: مقصد باب یہ ہے کہ گرہن کی نماز کے لیے اذان نہیں دی جاتی مگر لوگوں میں اس طورپر اعلان کرانا کہ نماز گرہن جماعت سے ادا کی جانے والی ہے لہٰذا لوگو شرکت کے لیے تیار ہو جاؤ اس طرح پر اعلان کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسا اعلان کرانا حدیث ذیل سے ثابت ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گرہن کی نماز خاص اہتمام جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1045
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1045
حدیث حاشیہ: (1) گرہن کی نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے نہ اقامت، تاہم عمومی طور پر اعلان کرنا مشروع ہے تاکہ لوگوں کو اطلاع ہو جائے، پھر اسے خاص اہتمام کے ساتھ باجماعت ادا کیا جائے۔ سورج گرہن کے وقت پر ہر شخص متنبہ نہیں ہو سکتا، اس لیے ابتدائی طور پر لوگوں کو اطلاع دینے میں چنداں حرج نہیں۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے حضرت عائشہ ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے باقاعدہ ایک اعلان کرنے والے کو تعینات کیا کہ وہ مدینے کے گلی کوچوں میں اس کا اعلان کرے۔ ابن دقیق العید ؒ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اس اعلان کے استحباب پر کھلی دلیل ہے۔ (فتح الباري: 687/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1045
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1480
´گرہن کی نماز کے ایک اور طریقہ کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا، تو آپ نے (نماز کا) حکم دیا تو «الصلاة جامعة»(نماز باجماعت پڑھی جائے گی) کی منادی کرائی گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی (پہلی رکعت میں) آپ نے دو رکوع اور ایک سجدہ کیا ۱؎، پھر آپ کھڑے ہوئے، پھر آپ نے (دوسری رکعت میں بھی) دو رکوع اور ایک سجدہ کیا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کبھی اتنا لمبا رکوع نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی اتنا لمبا سجدہ کیا۔ محمد بن حمیر نے مروان کی مخالفت کی ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1480]
1480۔ اردو حاشیہ: یہ مخالفت سند میں بھی ہے اور متن میں بھی جیسا کہ آئندہ حدیث سے واضح ہو رہا ہے۔ سند میں مخالفت یہ ہے کہ مروان نے یحییٰ بن ابی کثیر کا استاد ابوسلمہ بتایا ہے جبکہ ابن حمیر نے ابوطعمہ۔ اور متن میں مروان نے سجدہ کہا ہے جب کہ محمد بن حمیر نے سجدتین (دوسجدے) کہا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1480
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1481
´گرہن کی نماز کے ایک اور طریقہ کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکوع کیے، اور دو سجدے کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے، اور دو رکوع اور دو سجدے کیے، پھر سورج سے گرہن چھٹ گیا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی سجدہ اور کوئی رکوع ان سے لمبا نہیں کیا۔ علی بن مبارک نے معاویہ بن سلام کی مخالفت کی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1481]
1481۔ اردو حاشیہ: اس مخالفت کی وضاحت آئندہ حدیث میں ہو رہی ہے کہ علی بن مبارک نے یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کی ہے جبکہ معاویہ بن سلام نے اسے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1481
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1483
´سورج گرہن کی نماز کے ایک اور طریقہ کا بیان۔` عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، اور وہ لوگ بھی کھڑے ہوئے جو آپ کے ساتھ تھے، آپ لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھایا، اور بیٹھے تو دیر تک بیٹھے رہے، پھر آپ سجدہ میں گئے تو لمبا سجدہ کیا، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھایا، اور کھڑے ہو گئے، پھر آپ نے دوسری رکعت میں بھی اسی طرح قیام، رکوع، سجدہ اور جلوس کیا جیسے پہلی رکعت میں کیا تھا، پھر دوسری رکعت کے آخری سجدے میں آپ ہانپنے اور رونے لگے، آپ کہہ رہے تھے: ”تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا ۱؎، اور حال یہ ہے کہ میں ان میں موجود ہوں، تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا، اور ہم تجھ سے (اپنے گناہوں کی) بخشش چاہتے ہیں“، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا تب سورج صاف ہو چکا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور آپ نے لوگوں کو خطاب کیا، پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، تو جب تم ان میں سے کسی کو گرہن لگا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، جنت مجھ سے قریب کر دی گئی یہاں تک کہ اگر میں اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا تو میں اس کے کچھ گچھے لے لیتا، اور جہنم مجھ سے قریب کر دی گئی یہاں تک کہ میں اس سے بچاؤ کرنے لگا، اس خوف سے کہ کہیں وہ تمہیں ڈھانپ نہ لے، یہاں تک کہ میں نے اس میں حمیر کی ایک عورت پر ایک بلی کی وجہ سے عذاب ہوتے ہوئے دیکھا جسے اس نے باندھ رکھا تھا، نہ تو اس نے اسے زمین کے کیڑے مکوڑے کھانے کے لیے چھوڑا، اور نہ ہی اس نے اسے خود کچھ کھلایا پلایا یہاں تک کہ وہ مر گئی، میں نے اسے دیکھا وہ اس عورت کو نوچتی تھی جب وہ سامنے آتی، اور جب وہ پیٹھ پھیر کر جاتی تو اس کے سرین کو نوچتی، نیز میں نے اس میں دو چمڑے کی جوتیوں والے کو دیکھا، جو قبیلہ بنی دعدع کا ایک فرد تھا، اسے دو منہ والی لکڑی سے مار کر آگ میں دھکیلا جا رہا تھا، نیز میں نے اس میں خمدار سر والی لکڑی چرانے والے کو دیکھا، جو حاجیوں کا مال چراتا تھا، وہ جہنم میں اپنی لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے کہہ رہا تھا: میں خمدار سر والی لکڑی چرانے والا ہوں۔“[سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1483]
1483۔ اردو حاشیہ: ➊ یہ روایت بھی مختصر ہے۔ اس میں دورکوع کی تفصیل نہیں۔ راویٔ حدیث حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ہی سے حدیث نمبر 1480 میں صراحتًا مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکسوف میں ہر رکعت میں دو رکوع کیے، لہٰذا یہی معتبر ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ نے شاید ظاہر الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے بھی ”ایک اور صورت“ بنادیا۔ حقیقتاً یہ کوئی الگ صورت نہیں۔ یا صورت سے مراد نمازکسوف کی اور صورت نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے اس واقعہ کی تفصیل ایک اور انداز میں مذکور ہے۔ واللہ اعلم۔ ➋ ”تیرا مجھ سے وعدہ ہے۔“ اس جملے سے قرآنی آیت: (وما کان اللہ لیعذبھم وانت فیھم)(الانفال8: 33)”جب تک تو ان میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہیں دے گا۔“ کی طرف اشارہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازکسوف میں جہنم کی آمد کو عذاب کی تمہید خیال فرمایا ہو گا، ورنہ کسوف بذات خود عذاب نہیں۔ ➌ ”خوشے توڑلیتا“ معلوم ہوا حقیقی جنت آپ کو دکھلائی گئی، اسی طرح جہنم بھی۔ ➍ ”چھڑی والا“ اصل لفظ مححن ہے۔ وہ عصا جو آگے سے مڑا ہوا ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1483
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1051
1051. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو الصلاة جامعة کا اعلان کیا گیا۔ نبی ﷺ نے اس نماز میں ایک رکعت کے اندر دو رکوع کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے تو دوسری رکعت میں بھی دو رکوع کیے اس کے بعد آپ تشہد میں بیٹھے یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا۔ راوی حدیث (حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ لمبا سجدہ نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1051]
حدیث حاشیہ: سجدہ میں بندہ اللہ پاک کے بہت ہی زیادہ قریب ہوجاتا ہے، اس لیے اس میں جس قدر خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ کو یاد کر لیا جائے اور کچھ بھی اس سے مانگا جائے کم ہے۔ سجدہ میں اس کیفیت کاحصول خوش بختی کی دلیل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1051
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1051
1051. حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا تو الصلاة جامعة کا اعلان کیا گیا۔ نبی ﷺ نے اس نماز میں ایک رکعت کے اندر دو رکوع کیے، پھر آپ کھڑے ہوئے تو دوسری رکعت میں بھی دو رکوع کیے اس کے بعد آپ تشہد میں بیٹھے یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا۔ راوی حدیث (حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ) کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ لمبا سجدہ نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1051]
حدیث حاشیہ: بعض حضرات کا موقف ہے کہ نماز کسوف میں صرف ان ارکان کو لمبا کیا جائے جن میں تکرار ہے، مثلاً: قیام اور رکوع وغیرہ، لیکن سجدے میں تکرار نہیں ہوتا، لہذا اسے لمبا نہیں کرنا چاہیے، نیز قیام و رکوع میں تو سورج کے صحیح ہونے کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن سجدے میں یہ ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ سجدے کی حالت میں جوڑ ڈھیلے پڑ جاتے ہیں، اس لیے اسے طویل نہیں کرنا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ نماز کسوف میں قیام و رکوع کی طرح سجدہ بھی لمبا کرنا چاہیے۔ جیسا کہ روایات میں صراحت کے ساتھ آیا ہے۔ صریح نص کے مقابلے میں قیاس وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رکوع کی طرح اپنے سجدوں کو بھی طویل کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز کسوف میں جملہ ارکان کو لمبا کرنا چاہیے۔ (فتح الباري: 695/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1051