تخریج: «أخرجه البخاري، الكسوف، باب الصلاةفي كسوف الشمس، حديث:1043، وحديث أبي بكرة أخرجه البخاري، الكسوف، حديث:1040.»
تشریح:
1. آفتاب و ماہتاب کا گرہن اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو عظیم نشانیاں ہیں۔
اتنی بڑی مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پر مارنے اور جنبش کرنے کی مجال نہیں‘ نہ وہ اپنی آزاد مرضی سے طلوع ہو سکتے ہیں اور نہ غروب۔
وہ ضابطۂالٰہی میں جکڑے ہوئے ہیں۔
اس ضابطے سے انحراف ان کے بس میں نہیں۔
جب ان کی بے بسی کا یہ عالم ہے تو پھر یہ نفع و ضرر کے مالک کیسے بن سکتے ہیں؟ یہ دور جاہلیت کے نظریہ و خیال کی تردید ہے۔
2. اس موقع پر نماز و دعا مسنون ہے۔
نماز کی دو رکعتیں جماعت کے ساتھ آپ سے ثابت ہیں۔
ہر رکعت میں دو ‘ تین یا چار رکوع کیے جا سکتے ہیں‘ تاہم صحیح ترین احادیث میں ہر رکعت میں دو دو رکوع کا ذکر ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:
(التمھید:۳ / ۳۰۲. ۳۰۸‘ والتوسل والوسیلہ:۸۶‘ وزاد المعاد: ۱ / ۴۵۳‘ ۴۵۵) «فَإِذَا رَأَیْتُمُوھُمَا» ”پس جب تم انھیں دیکھو
“ کے حکم سے معلوم ہوا کہ یہ نماز اوقات مکروہہ میں بھی پڑھنا جائز ہے۔
3. یہ نماز سنت ہے یا واجب؟ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ یہ سنت ہے اور دوسری رائے ہے کہ یہ واجب ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وجوب کے قائل ہیں۔
4. جمہور علماء کے نزدیک جیسا کہ آئندہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے ‘ اس کی دو ہی رکعتیں ہیں اور ہر رکعت میں دو قیام‘ دو مرتبہ قراء ت اور دو رکوع ہیں۔
رکعت کے پہلے قیام میں سورۂ فاتحہ کے پڑھنے پر اتفاق ہے مگر دوسرے قیام میں اختلاف ہے کہ اس میں بھی سورۂ فاتحہ پڑھی جائے گی یا نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ دوسرے قیام میں بھی فاتحہ پڑھنا واجب قرار دیتے ہیں ورنہ ان کے نزدیک نماز صحیح نہیں ہوگی۔
درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ رکوع کے بعد قومہ کرنے کی بجائے دوبارہ قراء ت شروع کر دینا ایک ہی رکعت کا تسلسل ہے‘ لہٰذا اس موقع پر نئے سرے سے سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی۔
واللّٰہ أعلم۔
5. رہا یہ مسئلہ کہ قراء ت بلند آواز سے کی جائے گی یا آہستہ آواز سے‘ تو اس کی بابت درست اور راجح بات یہی ہے کہ قراء ت بلند آواز سے کی جائے۔
نماز کے بعد قبلہ رو ہو کر خوب گڑ گڑا کر دعا کی جائے۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہونے کے بعد قبلہ رو ہو کر دعا کرتے رہے یہاں تک کہ گرہن صاف ہو گیا۔
(تاریخ دمشق: ۷ / ۱۲۹) نیز احادیث میں اس موقع پر صدقہ کرنے‘ عذاب قبر سے پناہ مانگنے اور غلام آزاد کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
وضاحت:
«ابراہیم» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ہیں۔
ان کی والدہ کا نام ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا ہے۔
اسکندریہ اور مصر کے حکمران مقوقس نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کیا تھا۔
آپ کے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ جمادی الاولیٰ ۹ ہجری کو پیدا ہوئے اور اٹھارہ ماہ کے بعد ۲۹ شوال ۱۰ ہجری کو وفات پائی۔
بقیع میں دفن ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جنت میں ایک دودھ پلانے والی نے اس کی مدت رضاعت کو پورا کیا ہے۔
“ (صحیح البخاري‘ الجنائز‘ باب ما قیل في أولاد المسلمین‘ حدیث:۱۳۸۲)