مجھ سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حسین بن حسن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد کے لیے بھی برکت کی دعا کیجئے لیکن آپ نے پھر وہی کہا ”اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما“ پھر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہی سے طلوع ہو گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِسْقَاءِ/حدیث: 1037]
اللهم بارك لنا في شأمنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا يا رسول الله وفي نجدنا قال اللهم بارك لنا في شأمنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا يا رسول الله وفي نجدنا فأظنه قال في الثالثة هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان
اللهم بارك لنا في شامنا وفي يمننا قال قالوا وفي نجدنا قال قال اللهم بارك لنا في شامنا وفي يمننا قال قالوا وفي نجدنا قال قال هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان
اللهم بارك لنا في شأمنا اللهم بارك لنا في يمننا قالوا وفي نجدنا قال اللهم بارك لنا في شأمنا وبارك لنا في يمننا قالوا وفي نجدنا قال هناك الزلازل والفتن وبها أو قال منها يخرج قرن الشيطان
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1037
حدیث حاشیہ: نجد عرب حجاز سے مشرق کی طرف واقع ہے خاص وہ علاقہ مراد نہیں ہے جو کہ آج کل نجد کہلاتا ہے بلکہ نجد سے تمام ممالک شرقیہ مراد ہیں۔ علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں: وھو تھامة وکل کما ارتفع من بلاد تھامة إلی أرض العراق۔ یعنی نجد سے تہامہ کا علاقہ مراد ہے جو بلاد تہامہ سے ارض عراق تک سطح مرتفع میں پھیلا ہوا ہے۔ درحقیقت یہ اشار ہ نبوی ارض عراق کے لیے تھا جہاں بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو اس علاقے سے مسلمانوں کا افتراق وانتشار شروع ہوا جو آج تک موجود ہے اور شاید ابھی عرصہ تک یہ انتشار باقی رہے گا، یہ سب ارض عراق کی پیداوار ہے۔ یہ روایت یہاں موقوفاً بیان ہوئی ہے اور درحقیقت مرفوع ہے۔ ازہر سماں نے اس کو مرفوعا ً روایت کیا ہے۔ اسی کتاب یعنی بخاری شریف کتاب الفتن میں یہ حدیث آئے گی اور وہاں اس پر مفصل تبصرہ کیا جائے گا۔ إن شاءاللہ۔ صاحب فضل الباری ترجمہ بخاری حنفی تحریر فرماتے ہیں: شام کا ملک مدینہ کے اتر کی طرف ہے اور یمن دکن کی طرف اورنجد کا ملک پورب کی طرف ہے۔ آپ نے شام کو اپنی طرف اس واسطے منسوب کیا کہ وہ مکہ تہامہ کی زمین ہے اور تہامہ یمن سے متعلق ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ حدیث اس وقت فرمائی تھی کہ ابھی تک نجد کے لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ فتنہ وفساد میں مشغول تھے جب وہ لوگ اسلام لائے اور آپکی طرف صدقہ بھیجا تو آپ نے صدقہ کو دیکھ کر فرمایا: ھذا صدقة قومي۔ یہ میری قوم کا صدقہ ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ قومی نسبت شامنا و یمننا کی نسبت سے قوی تر ہے۔ سینگ شیطان سے مراد اس کا گروہ ہے، یہ الفاظ آپ نے اسی واسطے فرمائے کہ وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ فساد کیا کرتے تھے اور کہا کعب نے کہ عراق سے یعنی اس طرف سے دجال نکلے گا (فضل الباري، ص: 353پ: 3) اس دور آخر بدرقہ نجد سے وہ تحریک اٹھی جس نے زمانہ رسالت مآب ﷺ اور عہد خلفاء راشدین کی یاد کو تازہ کردیا جس سے مجدد اسلام حضرت الشیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی ؒ کی تحریک مراد ہے جنہوں نے ازسر نو مسلمانوں کو اصل اسلام کی دعوت دی ا ور شرک وبدعات کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ نجدیوں سے قبل حجاز کی حالت جو کچھ تھی وہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ جس دن سے وہاں نجدی حکومت قائم ہوئی ہر طرح کا امن وامان قائم ہوا اورآج تو حکومت سعودیہ نجد یہ نے حرمین شریفین کی خدمات کے سلسلے میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جو ساری دنیائے اسلام میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ أیدھم اللہ بنصرہ العزیز (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1037
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1037
فوائد و مسائل ↰ اس روایت میں اگرچہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں، لیکن یہ بھی حکماً مر فوع ہے۔ اس بارے میں: ◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) لکھتے ہیں: «هكذا وقع فى هذه الروايات التى اتصلت لنا بصورة المؤقوف عن ابن عمر، قال: اللهم بارك . . .، لم يذكر النبى صلى الله عليه وسلم، وقال القابسي: سقط ذكر النبى صلى الله عليه وسلم من النسخة، ولا بد منه، لان مثلهٔ لايقال بالرأي» ”جو روایات ہمارے پاس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف صورت میں پہنچی ہیں، ان میں اسی طرح ہے کہ انہوں نے خود یہ دعا کی ہے، اس میں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا۔ قابسی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر صحیح بخاری کے نسخے سے گر گیا ہے۔ یہاں نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کا ذکر ضروری ہے، کیونکہ ایسی بات کوئی صحابی اپنے قیاس سے نہیں کہہ سکتا۔“[فتح الباري: 522/2] ------------------
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1037
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں زلزلوں کا ذکر ہے اور اس قسم کی نشانیاں لوگوں کو ڈرانے اور خبردار کرنے کے لیے ہوتی ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ﴿٥٩﴾ ) ”ہم اس قسم کی نشانیوں کو صرف ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں۔ “(بني إسرائیل59: 17) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”جب تم اللہ کی نشانیاں دیکھو تو فوراً اللہ کا ذکر کرو، اس سے دعا اور استغفار میں مصروف ہو جاؤ۔ “(صحیح البخاري، الکسوف، حدیث: 1058) اس لیے جب بھی زلزلہ یا کوئی اور آفت آئے تو نماز پڑھنا اور ذکر کرنا مشروع ہے، لیکن اس کے لیے کوئی خاص شکل و صورت حدیث میں نہیں آئی۔ امام بخاری ؒ نے ان احادیث کو صرف اس لیے بیان کیا ہے کہ زلزلے وغیرہ کے وقت اللہ کے ذکر اور دعا و استغفار میں مصروف ہونا چاہیے۔ (2) اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب الفتن میں آئے گی۔ اس مقام پر ہم صرف اس حقیقت کو بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارض فتن کی نشاندہی کرتے وقت مشرق کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد نجد عراق ہے جو شروع ہی سے فتنوں کی آماجگاہ ہے۔ اسی علاقے سے مسلمانوں کے افتراق اور انتشار کا آغاز ہوا جو آج تک جاری و ساری ہے۔ اس سے مراد نجد حجاز نہیں، جیسا کہ بدعتی حضرات کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے، کیونکہ اس علاقے سے تو ایسی تحریک نے جنم لیا جس نے خلفائے راشدین کی یاد تازہ کر دی۔ وہاں سے شیخ محمد بن عبدالوہاب نے خالص اسلام کی دعوت کو شروع کیا جس کے نتیجے میں وہاں نجدی حکومت قائم ہوئی جو سعودی حکومت کے نام سے مشہور ہے۔ اس حکومت نے اسلام کی سربلندی اور حرمین شریفین کے لیے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں جو عالم اسلام میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس حکومت کو تادم زیست قائم رکھے۔ آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1037
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3953
´شام اور یمن کی فضیلت کا بیان` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما“، لوگوں نے عرض کیا: اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما“، لوگوں نے عرض کیا: اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا: ”یہاں زلزلے اور فتنے ہیں، اور اسی سے شیطان کی سینگ نکلے گی“، (یعنی شیطان کا لشکر اور اس کے مددگار نکلیں گے)۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3953]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: محقق شارحین حدیث نے قطعی دلائل اورتاریخی حقائق سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس حدیث میں مذکور ”نجد“ سے مراد ”عراق“ ہے، تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ دینی فتنے زیادہ تر عراق سے اٹھے، لغت میں نجد اونچی زمین (سطح مرتفع) کو کہا جاتا ہے، سعودیہ میں واقع ”نجد“ کو بھی اسی وجہ سے ”نجد“ کہا جاتا ہے، اس اعتبار سے عراق پر بھی نجد کا لفظ صادق آتا ہے، اور حسی ومعنوی دینی فتنوں کے عراق سے ظہورنے یہ ثابت کر دیا کہ آپﷺ کی مراد یہی عراق اورمضافات کا علاقہ تھا، بدعتی فرقوں نے اس حدیث کا مصداق شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نجدی کی تحریک کو قرار دیا ہے، (شَتَّانِ مَابَیْنَ الْیَزِیْدَیْن) سلف صالحین کے عقیدہ اور فہم شریعت کے مطابق چلائی گئی تحریک چاہے مذمومہ نجد ہی سے کیوں نہ ہو اس حدیث کا مصداق کیسے ہو سکتی ہے؟ اگرنجدی تحریک مراد ہو گی تو اصل اسلام ہی مراد ہو گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3953
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7094
7094. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک یمن میں برکت عطا فرما۔“ صحابہ نے عرض کی:اللہ کی رسول! اور ہمارے نجد میں بھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ! ہمارے ملک یمن میں برکت عطا فرما۔ میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری بار فرمایا: ”وہاں زلزلے اور فتنے رونما ہوں گے، نیز وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7094]
حدیث حاشیہ: یعنی دجال جو مشرق کے ملک سے آئے گا۔ اسی طرف سے یاجوج ماجوج آئیں گے نجد سے مراد وہ ملک ہے عراق کا جو بلندی پر واقع ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا نہیں فرمائی کیوں کہ ادھر سے بڑی بڑی آفتوں کا ظہور ہونے والا تھا۔ حضرت حسین بھی اسی سرزمین میں شہید ہوئے۔ کوفہ، بابل وغیرہ یہ سب نجد میں داخل ہیں۔ بعضے بے وقوفوں نے نجد کے فتنے سے محمد بن عبدالوہاب کا نکلنا مراد رکھا ہے، ان کو یہ معلوم نہیں کہ محمد بن عبدالوہاب تو مسلمان اور موحد تھے۔ وہ تو لوگوں کو توحید اور اتباع سنت کی طرف بلاتے تھے اور شرک و بدعت سے منع کرتے تھے، ان کا نکلنا تو رحمت تھا نہ کہ فتنہ اور اہل مکہ کو جو رسالہ انہوں نے لکھا ہے اس میں سراسر یہی مضامین ہیں کہ توحید اور اتباع سنت اختیار کرو اور شر کے بدعی امور سے پرہیز کرو، اونچی اونچی قبریں مت بناؤ، قبروں پر جا کر نذریں مت چڑھاؤ، منتیں مت مانو۔ یہ سب امور تو نہایت عمدہ اور سنت نبوی کے موافق ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اونچی قبروں کو گرانے کا حکم دیا تھا۔ پھر محمد بن عبدالوہاب نے اگر اپنے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی تو کیا قصور کیا۔ صلی اﷲ حبیبه محمد و بارك وسلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7094
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7094
7094. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے ملک یمن میں برکت عطا فرما۔“ صحابہ نے عرض کی:اللہ کی رسول! اور ہمارے نجد میں بھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! ہمارے ملک شام میں برکت دے۔ اے اللہ! ہمارے ملک یمن میں برکت عطا فرما۔ میرا گمان ہے کہ آپ ﷺ نے تیسری بار فرمایا: ”وہاں زلزلے اور فتنے رونما ہوں گے، نیز وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7094]
حدیث حاشیہ: 1۔ نجد اونچے علاقے کو کہتے ہیں۔ مدینہ طیبہ سے مشرقی علاقہ نجد کہلاتا ہے جبکہ نشیبی علاقے کو غور کہا جاتا ہے۔ مدینہ طیبہ سے مشرقی جانب فتنوں کی آماجگاہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علاقے کے لیے دعا نہیں فرمائی کیونکہ ادھر سے بڑی بڑی آفتوں کا ظہورہونے والا تھا۔ کوفہ، بابل اور خراسان وغیرہ نجد میں شامل ہیں، یاجوج وماجوج اور دجال ادھر سے آئیں گے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی سرزمین میں شہید ہوئے۔ 2۔ کچھ کج فہم، جاہل اور متعصب قسم کے لوگ محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک توحید کو نجد کا فتنہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ وہ مسلمان اور موحد تھے۔ انھوں نے لوگوں کو خالص توحید اور اتباع سنت کی دعوت دی تھی۔ وہ انھیں شرک وبدعت سے منع کرتے تھے، قبروں پر عمارتیں کھڑی کرنا، وہاں نذرونیازدینا، مصیبت کے وقت غیر اللہ کو پکارنا وغیرہ لوگوں کو اس سے روکتے تھے۔ یہ تمام باتیں قرآن وحدیث کے عین مطابق ہیں۔ سعودی حکومت بھی اسی دعوتِ توحید پر قائم ہے اور دین اسلام کی آبیاری کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قائم ودوائم رکھے۔ آمین یارب العالمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7094