ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے چچا ابوطالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا: ”وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔“[مسند احمد/وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم/حدیث: 1763]
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات ہڈیاں سجدہ کرتی ہیں: چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور دونوں گھٹنے۔“[مسند احمد/وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم/حدیث: 1764]
ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے: یا رسول اللہ! میں آپ کا چچا ہوں، میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری موت کا وقت قریب ہے، مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئے جس کے ذریعے اللہ مجھے نفع عطاء فرمائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عباس! آپ واقعی میرے چچا ہیں، لیکن میں اللہ کے معاملے میں آپ کے کسی کام نہیں آ سکتا، البتہ آپ اپنے رب سے دنیا و آخرت میں درگزر اور عافیت کی دعا مانگتے رہا کریں۔“ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمائی، پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ایک سال بعد دوبارہ آئے، تب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی دعا تلقین فرمائی۔ [مسند احمد/وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم/حدیث: 1766]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الرجل من بني المطلب.
ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے چچا ابوطالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا: ”وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔“[مسند احمد/وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم/حدیث: 1768]
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات ہڈیاں سجدہ کرتی ہیں: چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور دونوں گھٹنے۔“[مسند احمد/وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم/حدیث: 1769]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م:491، وفي هذا الإسناد ابن لهيعة سيء الحفظ لكنه توبع.
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ وادی بطحاء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں سے ایک بادل گذرا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جانتے ہو، یہ کیا ہے؟“ ہم نے کہا: اسے سحاب (بادل) کہتے ہیں، فرمایا: ”مزن بھی کہتے ہیں؟“ ہم نے عرض کیا: جی ہاں! مزن بھی کہتے ہیں، پھر فرمایا: ”اسے عنان بھی کہتے ہیں؟“ اس پر ہم خاموش رہے۔ پھر فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟“ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا: ”آسمان اور زمین کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، اسی طرح ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک بھی پانچ سو سال کا فاصلہ ہے، اور ہر آسمان کی کثافت پانچ سو سال کی ہے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر ایک سمندر ہے، اس سمندر کی سطح اور گہرائی میں زمین و آسمان کا فاصلہ ہے، پھر اس کے اوپر آٹھ پہاڑی بکرے ہیں جن کے گھٹنوں اور کھروں کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے، پھر اس کے اوپر عرش ہے جس کے اوپر اور نیچے والے حصے کے درمیان زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے، اور سب سے اوپر اللہ تبارک وتعالی ہے جس سے بنی آدم کا کوئی عمل بھی مخفی نہیں۔“[مسند احمد/وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم/حدیث: 1770]
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! قریش کے لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ ملتے ہیں، اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اجنبیوں کی طرح؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ تم سے اللہ اور اس کے رسول کی خاطر محبت نہ کرنے لگے۔“[مسند احمد/وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم/حدیث: 1772]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، يزيد بن أبى زياد ضعيف.