الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


مسند احمد کل احادیث (27647)
حدیث نمبر سے تلاش:

مسند احمد
مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ
حدیث نمبر: 1509
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: قُلْتُ لِسَعْدِ بْنِ مَالِكٍ : إِنَّكَ إِنْسَانٌ فِيكَ حِدَّةٌ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ , فقَالَ: مَا هُوَ؟ قَالَ: قُلْتُ: حَدِيثُ عَلِيٍّ , قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ لِعَلِيٍّ:" أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟" , قَالَ: رَضِيتُ، ثُمَّ قَالَ: بَلَى، بَلَى.
سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ میں آپ سے ایک حدیث کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے آپ سے پوچھتے ہوئے ڈر لگتا ہے، کیونکہ آپ کے مزاج میں حدت ہے، انہوں نے فرمایا: کون سی حدیث؟ میں نے پوچھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر اپنے نائب کے طور پر مدینہ منورہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑا تھا تو ان سے کیا فرمایا تھا؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہو - سوائے نبوت کے - جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی؟ انہوں نے کہا: میں خوش ہوں، پھر دو مرتبہ کہا: کیوں نہیں۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1509]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3706، م: 2404. وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد .
حدیث نمبر: 1510
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ , ح. وَبَهْزٌ , وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي أَبُو عَوْنٍ ، قَالَ بَهْزٌ , قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ لِسَعْدٍ : شَكَاكَ النَّاسُ فِي كُلِّ شَيْءٍ، حَتَّى فِي الصَّلَاةِ , قَالَ: أَمَّا أَنَا فَأَمُدُّ مِنَ الْأُولَيَيْنِ، وَأَحْذِفُ مِنَ الْأُخْرَيَيْنِ، وَلَا آلُو مَا اقْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ عُمَرُ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ، أَوْ ظَنِّي بِكَ.
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ لوگوں کو آپ سے ہر چیز حتی کہ نماز کے معاملے میں بھی شکایات ہیں، انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1510]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 770، م: 453 .
حدیث نمبر: 1511
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَرِيكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الرُّقَيْمِ الْكِنَانِيِّ ، قَالَ: خَرَجْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ زَمَنَ الْجَمَلِ، فَلَقِيَنَا سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ بِهَا، فَقَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" بِسَدِّ الْأَبْوَابِ الشَّارِعَةِ فِي الْمَسْجِدِ، وَتَرْكِ بَابِ عَلِيٍّ رضي الله عنه".
عبداللہ بن رقیم کہتے ہیں کہ جنگ جمل کے زمانے میں ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچے، وہاں ہماری ملاقات سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کر دینے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم دیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1511]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لجهالة عبدالله بن الرقيم، وعبدالله بن شريك مختلف فيه .
حدیث نمبر: 1512
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، أَنْبَأَنَا لَيْثٌ , وَأَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ الْقُرَشِيُّ ، ثُمَّ التَّيْمِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَهِيكٍ , عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ".
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کریم کو عمدہ آواز کے ساتھ نہ پڑھے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1512]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد ضعيف، عبدالله بن أبى نهيك لا يعرف .
حدیث نمبر: 1513
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، أَنْبَأَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يَطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص عشاء کی نماز کے بعد اچانک سفر سے واپس آ کر اپنے اہل خانہ کو پریشان کرے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1513]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، ابن شهاب لم يدرك سعداً
حدیث نمبر: 1514
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، أَنْبَأَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ , أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ: أَرَادَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ أَنْ يَتَبَتَّلَ، فَنَهَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ أَجَازَ ذَلِكَ لَهُ، لَاخْتَصَيْنَا.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے گوشہ نشینی اختیار کرنا چاہی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت نہ دی، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس چیز کی اجازت دے دیتے تو ہم بھی کم از کم اپنے آپ کو خصی کر لیتے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1514]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5073، م: 1402
حدیث نمبر: 1515
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ مَوْلَى الْأَسْوَدِ بْنِ سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ , عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ؟ فَقَالَ:" أَلَيْسَ يَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ؟" , قَالُوا: بَلَى , فَكَرِهَهُ.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا جائز ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ایسا نہیں ہے کہ تر کھجور خشک ہونے کے بعد کم رہ جاتی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: ایسا ہی ہے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نا پسندیدہ قرار دیا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1515]
حكم دارالسلام: إسناده قوي .
حدیث نمبر: 1516
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَرَرْنَا عَلَى مَسْجِدِ بَنِي مُعَاوِيَةَ، فَدَخَلَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ، وَنَاجَى رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ طَوِيلًا، قَالَ:" سَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ ثَلَاثًا: سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالسَّنَةِ فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَمَنَعَنِيهَا".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں جا رہے تھے، راستے میں ہمارا گذر بنو معاویہ کی مسجد پر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد میں داخل ہو کر دو رکعت نماز پڑھی، ہم نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل دعا فرمائی اور فراغت کے بعد فرمایا: میں نے اپنے پروردگار سے تین چیزوں کی درخواست کی تھی، ایک درخواست تو میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو سمندر میں غرق کر کے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست قبول کر لی، دوسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت کو قحط سالی کی وجہ سے ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ درخواست بھی قبول کر لی، اور تیسری درخواست میں نے یہ کی تھی کہ میری امت آپس میں نہ لڑے، لیکن اللہ نے یہ دعا قبول نہیں فرمائی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1516]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2890
حدیث نمبر: 1517
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى , وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ يَحْيَى , قال: حَدَّثَنِي رَجُلٌ كُنْتُ أُسَمِّيهِ، فَنَسِيتُ اسْمَهُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ , قَالَ: كَانَتْ لِي حَاجَةٌ إِلَى أَبِي سَعْدٍ , قَالَ: وحَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ ، عَنْ مُجَمِّعٍ , قَالَ: كَانَ لِعُمَرَ بْنِ سَعْدٍ إِلَى أَبِيهِ حَاجَةٌ، فَقَدَّمَ بَيْنَ يَدَيْ حَاجَتِهِ كَلَامًا مِمَّا يُحَدِّثُ النَّاسُ يُوصِلُونَ، لَمْ يَكُنْ يَسْمَعُهُ، فَلَمَّا فَرَغَ، قَالَ: يَا بُنَيَّ، قَدْ فَرَغْتَ مِنْ كَلَامِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: مَا كُنْتَ مِنْ حَاجَتِكَ أَبْعَدَ، وَلَا كُنْتُ فِيكَ أَزْهَدَ مِنِّي، مُنْذُ سَمِعْتُ كَلَامَكَ هَذَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" سَيَكُونُ قَوْمٌ يَأْكُلُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ كَمَا تَأْكُلُ الْبَقَرَةُ مِنَ الْأَرْضِ".
عمر بن سعد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے اپنے والد سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے کوئی کام پڑ گیا، انہوں نے اپنا مقصد بیان کرنے سے پہلے ایک لمبی چوڑی تمہید باندھی جیسا کہ لوگوں کی عادت ہے، جب وہ اس سے فارغ ہوئے تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹا! آپ اپنی بات پوری کر چکے؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: تم اپنی ضرورت سے بہت زیادہ دور نہیں ہو (میں تمہاری ضرورت پوری کر دوں گا)، لیکن جب سے میں نے تم سے یہ بات سنی ہے، مجھے تم میں کوئی دلچسپی نہیں رہی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو اپنی زبان (چرب لسانی) کے بل بوتے پر کھائے گی جیسے گائے زمین سے اپنی زبان کے ذریعے کھانا کھاتی ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1517]
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وفي الإسناد الأول ضعف لجهالة الذى نسي اسمه أبو حيان يحيى بن سعيد. والسند الثاني ضعيف لانقطاعه ، مجمع لم يدرك أحداً من الصحابة .
حدیث نمبر: 1518
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ، فَقَالُوا: لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي , قَالَ: فَسَأَلَهُ عُمَرُ، فَقَالَ: إِنِّي أُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْكُدُ فِي الْأُولَيَيْنِ، وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ , قَالَ: ذَلِكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ.
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اہل کوفہ نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھاتے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو پہلی دو رکعتیں نسبتا لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو رکعتیں مختصر کر دیتا ہوں، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں جو نمازیں پڑھی ہیں، ان کی پیروی کرنے میں، میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے آپ سے یہی امید تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ بَاقِي الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ/حدیث: 1518]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 755، م: 453

Previous    10    11    12    13    14    15    16    17    18    Next