ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں اس (ابن صیاد) سے ملا اور اس کی آنکھ سوجی ہوئی تھی، میں نے کہا: میں جو دیکھ رہا ہوں تیری آنکھ کو کب سے ایسے ہے؟ اس نے کہا: میں نہیں جانتا، میں نے کہا: تو نہیں جانتا حالانکہ وہ تیرے سر میں ہے، اس نے کہا: اگر اللہ چاہے تو وہ اسے تیرے عصا میں پیدا کر دے، ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ گدھے سے بھی زیادہ خوفناک آواز میں چیخنے لگا، میں نے (اس کی) آواز سنی۔ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5499]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (99/ 2932)»
محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں، میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے سنا کہ ابن صیاد دجال ہے، میں نے کہا: آپ اللہ کی قسم اٹھاتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قسم اٹھاتے ہوئے سنا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر ناگواری نہیں فرمائی۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5500]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (7355) و مسلم (94/ 2929)»
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو شبہ ابن صیاد کے بارے میں
نافع بیان کرتے ہیں، ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کیا کرتے تھے، اللہ کی قسم! مجھے کوئی شک نہیں کہ مسیح دجال ابن صیاد ہی ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد و البیھقی فی کتاب البعث و النشور۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5501]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4330) و البيھقي في البعث و النشور (لم أجده)»
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دجال کے والدین تیس سال تک (بے اولاد) رہیں گے اور ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہو گا، پھر ان کے ہاں لڑکا پیدا ہو گا جو کانا، بڑے دانتوں والا اور بہت ہی کم منافع پہنچانے والا ہو گا، اس کی آنکھیں سوئیں گی لیکن اس کا دل نہیں سوئے گا۔ “ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے والدین کے متعلق ہمیں تعارف کرایا، فرمایا: ”اس کا والد طویل القامت، پتلا ہو گا اور اس کی ناک لمبی ہو گی، اس کی والدہ موٹی لمبے ہاتھوں والی ہو گی۔ “ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے مدینہ میں یہودیوں کے ہاں ایک بچے کی ولادت کی خبر سنی تو میں اور زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ گئے حتی کہ ہم اس کے والدین کے پاس پہنچ گئے، دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو صفات بیان کی تھیں وہ ان میں موجود تھیں، ہم نے ان سے کہا: کیا تمہارا کوئی بچہ ہے؟ انہوں نے کہا: ہم تیس سال تک (بے اولاد) رہے، اور ہمارے ہاں کوئی بچہ پیدا نہ ہوا، پھر ہمارے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا جو کانا، لمبے دانتوں والا اور انتہائی کم نفع مند ہے، اس کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن اس کا دل نہیں سوتا۔ راوی بیان کرتے ہیں، ہم ان دونوں کے پاس سے نکلے تو وہ ایک چادر میں لپٹا ہوا دھوپ میں زمین پر لیٹا ہوا تھا اور اس کی آواز پست تھی، اس نے اپنے سر سے کپڑا اٹھایا تو یہ کہا: تم دونوں نے یہ کیا کہا تھا؟ ہم نے کہا: ہم نے جو کہا تھا کیا تو نے اسے سن لیا تھا؟ اس نے کہا: ہاں، میری آنکھیں سوتی ہیں جبکہ میرا دل نہیں سوتا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5503]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2248 و قال: حسن غريب) ٭ فيه علي بن زيد بن جدعان: ضعيف .»
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت نے مدینہ میں ایک بچے کو جنم دیا جس کی آنکھ نہیں تھی، اس کی کچلیاں نظر آ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ وہ دجال نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ایک چادر کے نیچے کچھ غیر واضح باتیں کرتے ہوئے پایا، اس کی والدہ نے اسے اطلاع کر دی، کہا: عبداللہ! یہ تو ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، وہ چادر سے نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کیا ہوا؟ اللہ اسے ہلاک کرے، اگر وہ اس (ابن صیاد) کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی تو وہ (اپنے دل کی بات) بیان کر دیتا۔ “ پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے معنی کی مثل حدیث بیان کی، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے اجازت مرحمت فرمائیں کہ میں اسے قتل کر دوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو یہ وہی (دجال) ہے تو پھر تم اسے قتل کرنے والے نہیں ہو، اسے قتل کرنے والے تو عیسیٰ بن مریم ؑ ہیں، اور اگر وہ (دجال) نہ ہوا تو پھر کسی ذمی شخص کو قتل کرنے کا تمہیں کوئی حق حاصل نہیں۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل خوف زدہ رہے کہ وہ دجال ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5504]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (5/ 78ح 4274) [و أحمد (3/ 368 ح 15018) ] ٭ فيه أبو الزبير مدلس و عنعن .»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ قریب ہے کہ ابن مریم (عیسیٰ ؑ) تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کے طور پر نازل ہوں گے، وہ صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو مار ڈالیں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے اور مال کی اتنی ریل پیل ہو گی کہ اسے لینے والا کوئی نہیں ملے گا، حتی کہ ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔ “ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو: ”اہل کتاب کا ہر فرد ان (عیسیٰ ؑ) کی موت سے پہلے ان پر ضرور ایمان لے آئے گا۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5505]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (2222) و مسلم (242 / 155)»
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
--. حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک عادل حکمراں کی حیثیت سے آئیں گے
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ابن مریم (عیسیٰ ؑ) حکمِ عادل کی حیثیت سے نازل ہوں گے، وہ صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کر ڈالیں گے، جزیہ موقوف کر دیں گے، جوان اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی ان سے کوئی کام نہیں لیا جائے گا، عداوت و رنجش اور باہمی بغض و حسد جاتا رہے گا، وہ مال کی طرف بلائیں گے لیکن اسے کوئی لینے والا نہیں ہو گا۔ “ رواہ مسلم۔ اور صحیحین کی روایت میں ہے، فرمایا: ”تمہاری اس وقت کیا حالت ہو گی جب ابن مریم ؑ تمہارے درمیان نزول فرمائیں گے، اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔ “[مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5506]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (243 / 155) والرواية الثانية، رواھا البخاري (3449) و مسلم (244/ 155)»
قال الشيخ زبير على زئي: رواه مسلم (243 / 155)
--. حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے نماز کی امامت کرنے کو کہا جائے گا
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قتال کرتا رہے گا وہ (قرب) قیام قیامت تک غالب آتے رہیں گے۔ “ فرمایا: ”ابن مریم ؑ نازل ہوں گے تو ان کا امیر کہے گا: تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں، وہ فرمائیں گے، نہیں، اللہ نے اس امت کو جو عزت بخشی ہے اس وجہ سے تم خود ہی ایک دوسرے کے امام ہو۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5507]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (247/ 156)»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
--. حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیینتالیس سال قیام کریں گے
حدیث نمبر: 5508
عَن عبد الله بن عَمْرو قا ل: قا ل رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَنْزِلُ عِيسَى بن مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ وَيَمْكُثُ خَمْسًا وَأَرْبَعِينَ سَنَةً ثُمَّ يَمُوتُ فَيُدْفَنُ مَعِي فِي قَبْرِي فأقوم أَنا وَعِيسَى بن مَرْيَمَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ بَيْنَ أَبَى بَكْرٍ وَعُمَرَ» . رَوَاهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي كِتَابِ الْوَفَاءِ
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عیسیٰ بن مریم ؑ زمین پر نازل ہوں گے، شادی کریں گے اور ان کی اولاد ہو گی، وہ پینتالیس سال رہیں گے پھر فوت ہو جائیں گے۔ انہیں میری قبر کے ساتھ ہی میرے قریب دفن کر دیا جائے گا۔ میں اور عیسیٰ بن مریم، ابوبکر و عمر کے درمیان سے ایک ہی قبر سے کھڑے ہوں گے۔ “ ابن جوزی نے اسے کتاب الوفا میں ذکر کیا ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابن جوزی فی کتاب الوفاء۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5508]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه ابن الجوزي في کتاب الوفاء (2/ 714) [و العلل المتناھية (2/ 433 ح 1529) ] ٭ فيه عبد الرحمٰن بن زياد بن أنعم الإفريقي ضعيف و في السند إليه نظر .»