جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت نے مدینہ میں ایک بچے کو جنم دیا جس کی آنکھ نہیں تھی، اس کی کچلیاں نظر آ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اندیشہ ہوا کہ وہ دجال نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ایک چادر کے نیچے کچھ غیر واضح باتیں کرتے ہوئے پایا، اس کی والدہ نے اسے اطلاع کر دی، کہا: عبداللہ! یہ تو ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، وہ چادر سے نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کیا ہوا؟ اللہ اسے ہلاک کرے، اگر وہ اس (ابن صیاد) کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی تو وہ (اپنے دل کی بات) بیان کر دیتا۔ “ پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے معنی کی مثل حدیث بیان کی، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے اجازت مرحمت فرمائیں کہ میں اسے قتل کر دوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو یہ وہی (دجال) ہے تو پھر تم اسے قتل کرنے والے نہیں ہو، اسے قتل کرنے والے تو عیسیٰ بن مریم ؑ ہیں، اور اگر وہ (دجال) نہ ہوا تو پھر کسی ذمی شخص کو قتل کرنے کا تمہیں کوئی حق حاصل نہیں۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل خوف زدہ رہے کہ وہ دجال ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الفتن/حدیث: 5504]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (5/ 78ح 4274) [و أحمد (3/ 368 ح 15018) ] ٭ فيه أبو الزبير مدلس و عنعن .»