ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا: ”مجھ پر امتیں پیش کی گئیں، چنانچہ ایک نبی گزرے ان کے ساتھ ایک آدمی تھا، ایک اور نبی تھے اور ان کے ساتھ دو آدمی تھے، اور ایک اور نبی تھے ان کے ساتھ چند آدمی تھے، جبکہ کسی نبی کے ساتھ کوئی ایک بھی نہیں تھا، میں نے ایک بڑا گروہ دیکھا جو افق تک پھیلا ہوا تھا، میں نے امید کی کہ یہ میری امت ہو گی لیکن مجھے بتایا گیا کہ یہ موسیٰ ؑ اپنی قوم کے ساتھ ہیں، پھر مجھے کہا گیا، دیکھو، میں نے بہت بڑا گروہ دیکھا جو افق تک پھیلا ہوا تھا، مجھے کہا گیا: اس طرف (دائیں، بائیں) دیکھو، میں نے بہت بڑا گروہ دیکھا جو افق پر پھیلا ہوا تھا، مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت، اور ان کے ساتھ ان کے آگے ستر ہزار ہیں جو حساب کے بغیر جنت میں جائیں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو کہ بدشگونی لیتے تھے نہ دم جھاڑ کراتے تھے اور نہ ہی داغتے تھے اور وہ صرف اپنے رب پر توکل کرتے تھے۔ “ اتنے میں عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا، اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے ان میں شامل فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اس کو ان میں سے کر دے۔ “ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا، اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے بھی ان میں کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس میں عکاشہ تجھ سے سبقت لے گیا ہے۔ “ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5296]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (5752) و مسلم (374/ 220)»
صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کا ہر معاملہ اس کے لیے باعث خیر ہے، اور یہ چیز صرف مومن کے لیے خاص ہے، اگر اسے کوئی نعمت میسر آتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہے، اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5297]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (64/ 2999)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قوی مومن، ضعیف مومن سے بہتر ہے نیز وہ اللہ کو زیادہ پسند ہے، اور سب (مومنوں) میں خیر ہے، تو اپنے لیے نفع بخش چیز کے لیے محنت و کوشش کر اور اللہ سے مدد طلب کر اور عاجزی و سستی نہ کر، اور اگر تجھے کوئی نقصان پہنچے تو ایسے نہ کہو: اگر میں (اس طرح، اس طرح) کرتا تو اس طرح، اس طرح ہوتا، بلکہ ایسے کہو: اللہ نے مقدر کیا اور جو اس نے چاہا سو کیا، کیونکہ (لفظ)”اگر“ عمل شیطان کھولتا ہے۔ “ رواہ مسلم۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5298]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (34/ 2664)»
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو جس طرح اس پر توکل کرنے کا حق ہے، تو وہ تمہیں اس طرح رزق فراہم کرے جس طرح وہ پرندوں کو رزق فراہم کرتا ہے، وہ صبح کے وقت بھوکے نکلتے ہیں اور شام کے وقت شکم سیر ہو کر واپس آتے ہیں۔ “ حسن، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5299]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه الترمذي (2344 وقال: حسن صحيح) و ابن ماجه (4164)»
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! ہر وہ چیز جو تمہیں جنت کے قریب کر دے اور تمہیں جہنم سے دور کر دے میں اس کے متعلق حکم دے چکا ہوں، اور ہر وہ چیز جو تمہیں جہنم کے قریب کر دے اور تمہیں جنت سے دور کر دے میں اس سے تمہیں منع کر چکا ہوں، بے شک روح الامین، اور ایک دوسری روایت میں ہے، بے شک روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ کوئی نفس اپنا رزق پورا کیے بغیر فوت نہیں ہو گا، سن لو! اللہ سے ڈرو اور اچھے طریقے سے رزق تلاش کرو اور رزق کی تاخیر تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اللہ کی نافرمانی کے ساتھ اسے طلب کرو، کیونکہ اللہ کے ہاں جو (انعامات) ہیں وہ تو محض اس کی اطاعت کے ذریعے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ “ شرح السنہ، بیہقی فی شعب الایمان، البتہ امام بیہقی نے ”وَاِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ“ کا ذکر نہیں کیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ فی شرح السنہ و البیھقی فی شعب الایمان۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5300]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البغوي في شرح السنة (14/ 303. 304 ح 4111) و البيھقي في شعب الإيمان (10376، نسخة محققة: 9891) ٭ السند منقطع، زبيد الإيامي لم يدرک ابن مسعود و للحديث شاھدان ضعيفان .»
ابوذر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا سے بے رغبتی، حلال کو حرام کرنے اور مال ضائع کرنے کا نام نہیں، بلکہ دنیا سے بے رغبتی یہ ہے کہ جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے وہ اس چیز سے، جو اللہ کے ہاتھوں میں ہے، زیادہ قابل اعتماد نہ ہو، اور یہ کہ نہ ہو تو مصیبت کے ثواب میں جب تو اس میں مبتلا کر دیا جائے، رغبت کرنے والا کہ وہ (مصیبت) تجھے نہ پہنچتی۔ “ ترمذی، ابن ماجہ، امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے، اور عمرو بن واقد راوی منکر الحدیث ہے۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5301]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (2340) و ابن ماجه (4100) ٭ عمرو بن واقد: متروک .»
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک روز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے (سواری پر بیٹھا ہوا) تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”لڑکے! تو اللہ (کے احکام) کی حفاظت کر، اللہ تیری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ (کے حقوق) کا خیال رکھ، تو اسے اپنے سامنے پائے گا، اور جب تو سوال کرے تو صرف اللہ سے کر، جب تو مدد طلب کرے تو صرف اللہ سے مدد طلب کر، اور جان لے کہ اگر پوری امت بھی جمع ہو کر تجھے کچھ فائدہ پہنچانا چاہے تو وہ تجھے اس سے زیادہ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے تو وہ تجھے اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہو گئے۔ “ اسنادہ حسن، رواہ احمد و الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5302]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (1/ 293 ح 2669) و الترمذي (2516 وقال: حسن صحيح)»
سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کی سعادت مندی اسی میں ہے کہ وہ اپنے بارے میں اللہ کی قضا و قدر پر راضی ہو، انسان کی بدنصیبی ہے کہ وہ اللہ سے خیر طلب کرنا ترک کر دے اور انسان کی بدنصیبی ہے کہ وہ اپنے بارے میں اللہ کی قضا و قدر پر راضی نہ ہو۔ “ احمد، ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5303]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أحمد (1/ 168 ح 1444) و الترمذي (2151) ٭ محمد بن أبي حميد: ضعيف .»
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
--. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب ایک دیہاتی نے تلوار سونت لی
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف جہاد کیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس آئے تو وہ بھی آپ کے ساتھ واپس آئے، صحابہ کرام کو گھنے خار دار درختوں کی وادی میں دوپہر کو نیند (قیلولہ) نے آ لیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (آرام کی غرض سے) یہاں پڑاؤ ڈالا اور صحابہ کرام درختوں کے سائے کی تلاش میں الگ الگ ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیکر کے درخت کے نیچے پڑاؤ ڈالا اور اپنی تلوار اس (درخت) کے ساتھ لٹکا دی، اور ہم تھوڑی دیر کے لیے سو گئے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں بلانے لگے، ہم نے دیکھا کہ ایک اعرابی آپ کے پاس ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے، مجھ پر میری تلوار سونت لی جبکہ میں اس وقت آرام کر رہا تھا میں بیدار ہوا تو تلوار اس کے ہاتھ میں سونتی ہوئی تھی، اس نے کہا: تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے تین مرتبہ کہا: ”اللہ (بچائے گا)۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی کوئی سرزنش نہیں کی اور آپ بیٹھ گئے۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5304]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (2910) و مسلم (311/ 843)»
اور ابوبکر اسماعیلی نے اپنی صحیح میں یوں روایت کی ہے، اس نے کہا: تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ! تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلوار پکڑ کر فرمایا: ”تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟“ اس نے عرض کیا: آپ بہتر پکڑنے والے ہیں (یعنی معاف کر دیں)، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟“ اس نے کہا: نہیں، لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ عہد کرتا ہوں کہ میں آپ سے نہ تو قتال کروں گا اور نہ آپ سے قتال کرنے والوں کا ساتھ دوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا راستہ چھوڑ دیا (اسے جانے دیا)، وہ (اعرابی) اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور کہا: میں بہترین شخص کے پاس سے تمہارے پاس آیا ہوں۔ کتاب الحمیدی اور ریاض الصالحین میں اسی طرح ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ النووی فی ریاض الصالحین و البیھقی فی دلائل النبوۃ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الرقاق/حدیث: 5305]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، ذکره النووي في رياض الصالحين (78 بتحقيقي) ورواه البيھقي في دلائل النبوة (375/3. 376 من طريق الإسماعيلي به و لعله أسلم بعد کما يظھر من کلامه و من أجله ذکر في الصحابة .)»