الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كتاب فضائل القرآن
كتاب فضائل القرآن
--. منھ سے شراب کی بدبو ہو اور قرآن پڑھنے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2219
وَعَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: كُنَّا بِحِمْصَ فَقَرَأَ ابْنُ مَسْعُودٍ سُورَةَ يُوسُفَ فَقَالَ رَجُلٌ: مَا هَكَذَا أُنْزِلَتْ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَاللَّهِ لَقَرَأْتُهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَحْسَنْتَ» فَبَيْنَا هُوَ يُكَلِّمُهُ إِذْ وَجَدَ مِنْهُ رِيحَ الْخَمْرِ فَقَالَ: أَتَشْرَبُ الْخَمْرَ وَتُكَذِّبُ بِالْكِتَابِ؟ فَضَرَبَهُ الْحَد
علقمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم حمص (ملک شام) میں تھے، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورۂ یوسف تلاوت فرمائی تو کسی آدمی نے کہا: اس طرح تو نازل نہیں ہوئی، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے اسے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی موجودگی میں پڑھا تھا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: تم نے بہت خوب پڑھا۔ اس اثنا میں کہ وہ شخص ان سے باتیں کر رہا تھا تو انہوں نے اس سے شراب کی بو محسوس کی تو انہوں نے فرمایا: کیا تم شراب پیتے ہو اور قرآن کی تکذیب کرتے ہو؟ پس انہوں نے اس پر حد قائم کی۔ متفق علیہ۔ علقمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم حمص (ملک شام) میں تھے، تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورۂ یوسف تلاوت فرمائی تو کسی آدمی نے کہا: اس طرح تو نازل نہیں ہوئی، تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے اسے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی موجودگی میں پڑھا تھا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: تم نے بہت خوب پڑھا۔ اس اثنا میں کہ وہ شخص ان سے باتیں کر رہا تھا تو انہوں نے اس سے شراب کی بو محسوس کی تو انہوں نے فرمایا: کیا تم شراب پیتے ہو اور قرآن کی تکذیب کرتے ہو؟ پس انہوں نے اس پر حد قائم کی۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2219]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (5001) و مسلم (801/249)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. قرآن کو جمع کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2220
وَعَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ. فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِقُرَّاءِ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَخْشَى أَنِ اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ بِالْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبُ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ تَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عُمَرُ هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلم يزل عمر يراجعني فِيهِ حَتَّى شرح الله صَدْرِي لذَلِك وَرَأَيْت الَّذِي رَأَى عُمَرُ قَالَ زَيْدٌ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لَا نَتَّهِمُكَ وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جمع الْقُرْآن قَالَ: قلت كَيفَ تَفْعَلُونَ شَيْئا لم يَفْعَله النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ هُوَ وَاللَّهِ خير فَلم أزل أراجعه حَتَّى شرح الله صَدْرِي للَّذي شرح الله لَهُ صدر أبي بكر وَعمر. فَقُمْت فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الْعُسُبِ وَاللِّخَافِ وَصُدُورِ الرِّجَال حَتَّى وجدت من سُورَة التَّوْبَة آيَتَيْنِ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ (لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ) حَتَّى خَاتِمَةِ بَرَاءَةَ. فَكَانَتِ الصُّحُفُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَيَاته ثمَّ عِنْد حَفْصَة. رَوَاهُ البُخَارِيّ
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، معرکہ یمامہ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میری طرف پیغام بھیجا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کے پاس موجود تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عمر میرے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا: معرکہ یمامہ میں بہت سے قاری شہید ہو گئے، اور مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر کسی اور معرکہ میں قاری شہید ہو گئے تو اس طرح قرآن کا بہت سا حصہ جاتا رہے گا، اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ جمع قرآن کا حکم فرمائیں، لیکن میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: آپ وہ کام کیسے کریں گے جو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہیں کیا؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! یہ (جمع قرآن) بہتر ہے، عمر رضی اللہ عنہ مسلسل مجھے کہتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیا اور اب اس میں میرا وہی موقف ہے جو عمر رضی اللہ عنہ کا ہے۔ زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ عقل مند نوجوان ہیں اور آپ پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں، اور آپ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وحی لکھا کرتے تھے، آپ قرآن اکٹھا کریں اور اسے ایک جگہ جمع کریں، اللہ کی قسم! اگر وہ مجھے کسی پہاڑ کو منتقل کرنے پر مامور فرماتے تو وہ مجھ پر اس جمع قرآن کے حکم سے زیادہ آسان تھا، وہ (زید رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں۔ میں نے کہا: تم وہ کام کیسے کرتے ہو جسے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نہیں کیا؟ تو انہوں (ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اللہ کی قسم! وہ بہتر ہے، پس ابوبکر رضی اللہ عنہ مسلسل مجھے کہتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے اس کام کے لیے میرا سینہ کھول دیا جس کے لیے اس نے ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا، میں نے قرآن تلاش کرنا شروع کیا اور میں نے کھجور کی شاخوں، پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں (حافظوں) سے قرآن اکٹھا کیا حتیٰ کہ میں نے سورۃ التوبہ کا آخری حصہ (لقد جاءکم رسول من انفسکم،،،،،) آخر تک صرف ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں پایا، وہ صحیفہ (قرآن کریم کا نسخہ) ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا حتیٰ کہ اللہ نے انہیں فوت کر دیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ان کے پاس رہا، اور پھر عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2220]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (4986)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قرآن کو صحیفے کی شکل دینا
حدیث نمبر: 2221
وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّامِ فِي فَتْحِ أَرْمِينِيَّةَ وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَأَفْزَعَ حُذَيْفَةَ اخْتِلَافُهُمْ فِي الْقِرَاءَةِ فَقَالَ حُذَيْفَةُ لِعُثْمَانَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَدْرِكْ هَذِهِ الْأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ اخْتِلَافَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ فَأَرْسَلَتْ بِهَا حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ فَأَمَرَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزبير وَسَعِيد بن الْعَاصِ وَعبد الرَّحْمَن بْنَ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَسَخُوهَا فِي الْمَصَاحِفِ وَقَالَ عُثْمَانُ لِلرَّهْطِ الْقُرَشِيِّينَ الثَّلَاثِ إِذَا اخْتَلَفْتُمْ فِي شَيْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ فَفَعَلُوا حَتَّى إِذَا نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ رَدَّ عُثْمَانُ الصُّحُفَ إِلَى حَفْصَةَ وَأَرْسَلَ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِمَّا نَسَخُوا وَأَمَرَ بِمَا سِوَاهُ مِنَ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ صَحِيفَةٍ أَوْ مُصْحَفٍ أَنْ يُحْرَقَ قَالَ ابْن شهَاب وَأَخْبرنِي خَارِجَة بن زيد بن ثَابت سَمِعَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ فَقَدْتُ آيَةً مِنَ الْأَحْزَابِ حِينَ نَسَخْنَا الْمُصْحَفَ قَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهَا فَالْتَمَسْنَاهَا فَوَجَدْنَاهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ (مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا الله عَلَيْهِ) فَأَلْحَقْنَاهَا فِي سُورَتِهَا فِي الْمُصْحَفِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے جبکہ وہ (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) آرمینیہ اور آذر بائیجان سے لڑائی اور فتح کے سلسلہ میں اہل شام اور اہل عراق کو تیار کر رہے تھے، حذیفہ رضی اللہ عنہ ان (اہل شام و عراق) کے اختلاف قراءت کی وجہ سے پریشان تھے، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا: امیرالمومنین! اس سے پہلے کہ یہ امت یہود و نصاریٰ کی طرح قرآن کریم کے بارے میں اختلاف کا شکار ہو جائے آپ اس کا تدراک فرما لیں، عثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ ہمیں مصحف بھیجیں، ہم اس کی نقلیں تیار کر کے واپس دے دیں گے، حفصہ رضی اللہ عنہ نے وہ نسخہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا تو انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، سعید بن العاص رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ کو مامور فرمایا تو انہوں نے اس کی نقلیں تیار کیں، اور عثمان رضی اللہ عنہ نے ت��نوں قریشیوں سے فرمایا: جب قرآ ن کی کسی چیز کے بارے میں تمہارے اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مابین کوئی اختلاف ہو جائے تو اسے زبان قریش کے مطابق لکھنا، کیونکہ قرآن ان کی زبان میں اترا ہے، انہوں نے ایسے ہی کیا، حتیٰ کہ جب انہوں نے مصحف سے نقلیں تیار کر لیں تو عثمان رضی اللہ عنہ نے وہ مصحف، حفصہ رضی اللہ عنہ کو واپس کر دیا، اور تمام علاقوں میں وہ نقول بھیج دیں اور حکم جاری کر دیا کہ اس کے علاوہ کسی کے پاس قرآن کا جو نسخہ ہے اسے جلا دیا جائے، ابن شہاب بیان کرتے ہیں، خارجہ بن زید بن ثابت نے مجھے بتایا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ جب ہم نے مصحف کی نقل تیار کی تو سورۂ احزاب کی وہ آیت، جو میں رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سنا کرتا تھا، نہ ملی تو ہم نے اسے تلاش کیا تو ہم نے اسے خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں پایا، وہ آیت یہ تھی (من المومنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ) پس ہم نے اسے مصحف میں اس کی سورت (الاحزاب) میں ملا دیا۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2221]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (4987. 4988)»


قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

--. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا واضع کرنا کہ سورتیں علیحدہ علیحدہ ہیں
حدیث نمبر: 2222
وَعَن ابْن عَبَّاس قَالَ: قلت لعُثْمَان بن عَفَّان مَا حملكم أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَى الْأَنْفَالِ وَهِيَ مِنَ الْمَثَانِي وَإِلَى بَرَاءَةٍ وَهِيَ مِنَ الْمَئِينِ فَقَرَنْتُمْ بَيْنَهُمَا وَلم تكْتبُوا بَينهمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَوَضَعْتُمُوهَا فِي السَّبع الطول مَا حملكم على ذَلِك فَقَالَ عُثْمَانُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يَأْتِي عَلَيْهِ الزَّمَان وَهُوَ تنزل عَلَيْهِ السُّور ذَوَات الْعدَد فَكَانَ إِذا نزل عَلَيْهِ الشَّيْء دَعَا بعض من كَانَ يَكْتُبُ فَيَقُولُ: «ضَعُوا هَؤُلَاءِ الْآيَاتِ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا» فَإِذَا نَزَلَتْ عَلَيْهِ الْآيَةُ فَيَقُولُ: «ضَعُوا هَذِهِ الْآيَةَ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا» . وَكَانَتِ الْأَنْفَالُ مِنْ أَوَائِلِ مَا نَزَلَتْ بِالْمَدِينَةِ وَكَانَتْ بَرَاءَة من آخر الْقُرْآن وَكَانَت قصَّتهَا شَبيهَة بِقِصَّتِهَا فَظَنَنْت أَنَّهَا مِنْهَا فَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يبين لنا أَنَّهَا مِنْهَا فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ قَرَنْتُ بَيْنَهُمَا وَلِمَ أكتب بَينهمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَوَضَعْتُهَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا: تمہیں کس چیز نے آمادہ کیا ہے کہ تم نے سورۂ انفال کا قصد کیا جبکہ وہ مثانی (سورتوں میں سے) ہے، اور سورۂ براءت (توبہ) کا قصدکیا جبکہ وہ میٔن (دو سو آیتوں والی سورتوں) میں سے ہے، اور تم نے ان دونوں سورتوں کو ملایا اور تم نے ان کے درمیان (بسم اللہ الرحمن الرحیم) بھی نہیں لکھی، اور تم نے اسے سات لمبی سورتوں میں رکھ دیا، ایسا کرنے پر کس چیز نے تمہیں ابھارا؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی یہ صورت حال تھی کہ کبھی طویل وقت گزر جاتا اور آپ پر کوئی سورت نازل نہ ہوتی اور متعدد آیات والی سورتیں نازل ہوتیں، اور جب آپ پر کچھ حصہ نازل ہوتا تو آپ کسی کاتب وحی کو بلاتے اور اسے فرماتے: ان آیات کو، فلاں سورت میں جہاں فلاں فلاں تذکرہ ہے، شامل کر دو۔ سورۂ انفال وہ سورت ہے جو قیام مدینہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی، جبکہ سورۂ براءت (توبہ) نزول کے لحاظ سے، نزول قرآن کے آخری دور میں نازل ہوئی، اور بلحاظ مضمون دونوں ایک دوسرے کے مشابہ تھیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وفات پا گئے اور آپ نے وضاحت نہ فرمائی کہ وہ (سورۂ توبہ) اس (سورۂ انفال) میں سے ہے، اسی لیے میں نے ان دونوں کو ملا لیا اور (بسم اللہ الرحمن الرحیم) نہ لکھی، اور میں نے اسے سات لمبی سورتوں میں شامل کیا۔ اسنادہ حسن، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب فضائل القرآن/حدیث: 2222]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أحمد (57/1 ح 399) والترمذي (3086 وقال: حسن) و أبو داود (786)
٭ يزيد الفارسي و ثقه ابن حبان و الترمذي وغيرهما فھو حسن الحديث و أخطأ من ضعّف ھذا الحديث .»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن


Previous    7    8    9    10    11